فلسفہ اسلام اور مقام انسانیت(قسط دوم)

﴿﴾ انسان اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے﴿﴾
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰیہَا ()فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰیہَا()قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰیہَا ۔’’اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایاپھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی۔بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔‘‘( سورہ شمس آیات ۷،۹)

﴿﴾قلبی اطمینان ﴿﴾
انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ یاد خدا ہے اس کی خواہشات لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ۔’’وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللّٰہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللّٰہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔‘‘( سورہ رعد آیت۲۸)

﴿﴾اللّٰہ ہی کی طرف رجوع کرناہے ﴿﴾
یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ()’’اے آدمی بے شک تجھے اپنے رب کی طرف یقینی دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا ‘‘(پ۳۰،سورہ انشقاق آیت۶)

﴿﴾ زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے ہیں﴿﴾
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ()ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآء ِ فَسَوّٰیہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیْمٌ()۔’’:وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف استواء (قصد)فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے ۔‘‘(پ۱،سورہ بقرہ آیت ۲۹)

یعنی معدنیات، سبزے جانور دریا پہاڑ جو کچھ زمین میں ہے سب اﷲ تعالٰی نے انسان کے دینی و دنیوی نفع کے لئے بنائے دینی نفع اس طرح کہ زمین کے عجائبات دیکھ کرانسان اﷲ تعالٰی کی حکمت و قدرت کی معرفت ہو اور دنیوی منافع یہ کہ کھاؤ پیوآرام کرو اپنے کاموں میں لاؤ ۔

وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()’’اور تمہارے لئے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں اپنے حکم سے بے شک اس میں نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لئے ۔‘‘( پ۲۵،سورہ جاثیہ، آیت ۱۳)۔

﴿﴾بندے کا کام بندگی ہے ﴿﴾
خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰیہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ()( سورہ حشر آیت۱۹)
’’اور ان جیسے نہ ہو جو اللّٰہ کو بھول بیٹھے تو اللّٰہ نے انہیں بَلا میں ڈالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں ۔‘‘

انسان خدا کی عبادت اور اس کی یاد کے بغیر اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اگر وہ خدا کو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کس لئے ہے؟ اور یہ کہ وہ کیا کرے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہاں جانا چاہئے؟

انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں۔لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآء َکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ()۔’’بیشک تو اس سے غفلت میں تھاتو ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھایا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔‘‘( پ۲۶،سورہ ق ،آیت ۲۲)

انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ:یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ () ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ()’’اے اطمینان والی جان ۔اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔‘‘( پ ۳۰،سورہ فجر آیات ۲۷،۲۸)

﴿﴾انسانیت کی اصلاح﴿﴾
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جٰہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔’’اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی)جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پراور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی ۔‘‘(پ۱۰،سور ۃ التوبۃ ،آیت:۷۳)۔

﴿﴾فکر انگیز بات﴿﴾
انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ داراور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد وہدایت کی تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لامحدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔

﴿﴾نادان انسان﴿﴾
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ()’’بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔‘‘(پ ۲۲،سورہ احزاب آیت ۷۲)

﴿﴾رب چھوٹ دیتاہے موقع دیتاہے ﴿﴾
وَ اَصْحٰبُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوْسٰی فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ()
’’اور مدین والے اور موسٰی کی تکذیب ہوئی تو میں نے کافرو ں کو ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو کیسا ہوا میرا عذاب۔ ‘‘(پ۱۷،سورۃ الحج ،آیت۴۴)

﴿﴾جلد بازی انسان کی فطرت ہے﴿﴾
انسان جب انسان سے معاملہ کرتاہے ،کوئی کام سرانجام دیتاہے تو ان کے جلد سے جلد ثمرات کا متقاضی ہوتاہے ۔یہی معاملہ وہ بارگاہ الہی میں بھی برتا ہے کہ ادھر دعامانگی ادھر قبول ہوجائے ،اد ھر عرض کیا ادھر تعبیر ہوجائے اسی جلدباز فطرت کا تذکرہ ربّ تعالیٰ نے بھی پیش کیا۔وَیَدْعُ الْاِنْسٰنُ بِالشَّرِّ دُعَآء َہ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْاِنْسٰنُ عَجُوْلًا () ۔’’اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے ۔( پ۱۵،سورہ اسرائیل، آیت ۱۱)

جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔(سورہ یونس آیت ۱۲)

﴿﴾حسین یا بدصورت﴿﴾
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا انسان قرآن حکیم کی نظر میں بدصورت مخلوق بھی اور حسین مخلوق بھی ہے وہ بھی بہت حسین اور بہت بدصورت؟ کیا وہ دو طرح کی فطرتوں کا حامل ہے یعنی اس کی آدھی فطرت نور ہے اور آدھی ظلمت؟ اور ایسا کیوں ہے کہ قرآن حکیم اس کی بہت زیادہ تعریف بھی کرتا ہے اور بے انتہا مذمت بھی۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت۔ قرآن حکیم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنی استعدادی قوت کی بناء پر تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا لازم ہے کہ وہ ان کمالات کو قوت سے فعل میں لائے اور یہ خود انسان ہی ہے جو اپنی ذات کا معمار ہے۔انسان کے ان کمالات تک پہنچنے کی اصل شرط ایمان ہے۔ ایمان ہی سے اس میں تقویٰ نیک عمل اور راہ خدا میں کوشش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ایمان ہی کے ذریعے سے علم نفس امارہ کے ہاتھ میں ناجائز ہتھیار کی صورت سے نکل کر مفید ہتھیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔پس حقیقی انسان جو کہ خلیفۃ اﷲ ہے مسجود ملائک ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے لئے ہے اور وہ تمام انسانی کمالات کا حامل ہے وہ انسان باایمان ہے نہ کہ انسان بے ایمان اور ناقص ہے۔ ایسا انسان حریص اور خونریز ہے وہ بخیل اور خسیس ہے وہ کافر ہے اور حیوان سے پست تر۔قرآن حکیم میں ایسی بھی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جس کی تعریف کی گئی ہے؟ اور وہ کون سا انسان ہے جس کی مذمت کی گئی ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا انسان حقیقی نہیں ہے اگر انسان اس حقیقت یگانہ سے تعلق قائم کر لے جس کی یاد سے دل آرام پاتا ہے تو وہ کمالات کا حامل ہے اور اگر وہ اس حقیقت یگانہ یعنی خدا سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو اپنی جڑوں سے جدا ہو چکا ہے۔اس موضوع پر ہم ذیل میں آیات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:وَالْعَصْرِ ()اِنَّ الْاِنْسٰنَ لَفِیْ خُسْرٍ ()اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ()’’اس زمانہِ محبوب کی قسم ۔بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔‘‘(پ ۳۰،سورۃ العصر)

ایک اور مقام پر اﷲ کریم اپنے بندوں کا تعارف ارشادفرماتاہے ۔
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌلَّایَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعٰمِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ()’’اور بے شک ہم نے جہنّم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں۔‘‘
( پ ۹،سورہ اعراف ،آیت۱۷۹ )

محترم قارئین کرام :اس عنوان پر احقر نے حتی الوسع یہ کوشش کی کہ اﷲ عزوجل کا عطاکردہ انسانی تعارف پیش کیاجائے تاکہ اس ظلم و ستم ڈھانے والے ،اس نفرتوں و عداوتوں کو رواج دینے والے،قوم پرستی ،تعصب کی بھینٹ چڑھنے والے ،انا و خود پسندی میں رچ بس جانے والے ،اﷲ اور اﷲ کے رسول کی رسی کو چھوڑنے والے ،ذاتی مفاد ،ابن الوقت مزاج کو اپنانے والے ،اپنوں و بیگانوں کی تمیز کو پس پشت ڈالنے والے ،علم کو جہالت کی کمان بنانے والے ،معاش و معاشرت کی دھجیاں بکھیرنے والے ،مذہب کو ثانوی حیثیت دینے والے ،وحشیوں کی سی زندگی گزانے والے انسان کو بتاسکوں کہ تیرا منصب ،تیرا تعارف ،تیرا وقار،تیری عظمت ،تیری شان ،تیری ذمہ داری اور تیری پہچان کیا تھی اور تونے کدھر کی راہ لی۔تو اس شاہراہ پر چل پڑا جس کا انجام حماقت ،ضلالت و نقصان ہی نقصان ہے ۔آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ،کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔تعصب ،انانیت کی عینک اتار کرقران کا مطالعہ کیجیے ۔ترجمہ و تفسیر دنیا کی کئی زبانوں میں موجود ہیں مفاہم تک رسائی آسان ہے جہاں دقت ،مشکل محسوس کریں علماء ،اہل علم و دانش سے رجوع کرکے فراخ دلی سے حق و صداقت کو جاننے کی کوشش کریں تو ان شاء اﷲ عزوجل مجھے اپنے کریم رحمٰن و ربّ سے کامل یقین ہے کہ جس جس کے حق میں رشد و ہدایت مقرر ہوگی اسے مل ہی کر رہے گی۔اﷲ کریم ہمیں علم نافع کی دولت سے بہر مند فرمائے ۔آمین

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593670 views i am scholar.serve the humainbeing... View More