فلسفہ اسلام اور مقام انسانیت(قسط اوّل)

اسلام دین فطرت ہے ۔ اس کا ہر قانون ،ہر ضابطہ فطرت کا عظیم نمونہ ہے ۔جب ،جہاں اور جیسے انسان کی فلاح مقصود تھی اسی ترتب کے ساتھ قوانین کی وضاحت گئی ۔اسی اعتبار سے زندگی گزارنے کاسلیقہ سیکھایاگیا۔اسلام کی نظر میں ایک انسان فقط راست قامت چلنے ،پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیں بلکہ اس کی رفعت و معراج کو قران اپنی شان و عظمت کے مطابق بیان فرمایا۔اس نہایت حساس ،اہم اور قابل فکر عنوان پر چند جملے یا سطریں کفایت نہ کریں گیں ۔اسلام افراط و تفریط سے پاک دین ہے۔ جس میں نہ تو شدت ہے اور نہ ہی انسان کومکمل چھوٹ ہے بلکہ معاملہ بین بین ہے ۔یعنی اعتدال کی عظیم نظیر ہے ۔اﷲ عَزَّوَجَلَّنے اپنی لاریب کتاب میں جہاں اپنی مخلوق جس کے سر اس نے اشرف المخلوقات کا تاج سجایا ،جہاں اس کی تعریف و توصیف کو ذکر کیاوہاں اس کی مذمت پر بھی اپنی صفت قہاری کا اظہار فرمایا۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے ۔وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔آئیے تعارف انسانی قران کی زبانی جانتے ہیں ۔

﴿﴾کائنات عالم میں انسان کا مقام ﴿﴾
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے یعنی انسان کا کرداراس کی بقاء اور اس کی منزل کے حصول میں ایک اہم محرک ہے۔

﴿﴾ انسانی اقدار﴿﴾
اﷲ عزوجل نے انسان کو اپنی تخلیق کا شاہکار بنایا۔جسے دیکھ کر اس کی عظمت و شان کاپتاچلتاہے۔جب خالق ارض و سمٰوٰت نے انسان کو پیدافرمایامنصب و مسند سے نواز تو پھر اس کی جانچ پڑتال ،اس کے احتساب اور اس کی فکری ،شعوری ،مذہبی وملی تربیت کے لیے ایک منظم نظام عطافرمایا۔اپنے پیغام ،اپنے احکام کی بجاآوری کے لیے انسان کو اعلٰی مقام عطافرمایا اس شان و عظمت سے نوازا۔بلندمرتبہ ،بلند شان انسان کے حصّہ میں آئی۔

﴿﴾ربّ تعالیٰ کا خلیفہ ﴿﴾
مومنین پر کرم فرمانے والے خدائے احکم الحاکمین نے انسان کو اپنا خلیفہ بناکر مبعوث فرمایا۔جس کا ذکر اس نے اپنی ذیشان کتاب میں فرمایا:
()وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآء َ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ()
’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔‘‘( سورہ بقرہ، آیت ۳۰)۔

﴿﴾مرتبہ کا احساس﴿﴾
مراتب و درجات سے اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے سرفرازفرمایاپھراس منصب کی ذمہ داری کا بھی احساس دلایا۔اﷲ عزوجل اپنی لاریب کتاب میں ارشاد فرماتاہے :
وَ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰیکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّہ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ()’’اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بے شک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بے شک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(سورہ انعام ،آیت ۱۶۵)۔

مذکورہ آیت کے تفسیر خزائن العرفان میں مفسر بیان فرماتے ہیں کہ:کیونکہ سیدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم خاتَم النبّیِین ہیں۔ آپ صَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ کی اُمّت آخرُ الاُمَم ہے اس لئے ان کو زمین میں پہلوں کا خلیفہ کیا کہ اس کے مالک ہوں اور اس میں تصرُّف کریں ۔شکل و صورت میں ، حسن و جمال میں ، رزق و مال میں ، علم و عقل میں ، قوّت و کمال میں ۔یعنی آزمائش میں ڈالے کہ تم نعمت و جاہ و مال پا کر کیسے شکر گزار رہتے ہو اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کے سلوک کرتے ہو ۔‘‘
﴿﴾انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے﴿﴾

ربّ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں انسان کو دیگر مخلوق پر صاحب شرف رکھا۔علم ایک نعمت اوربے نظیر دولت ہے ۔اس معاملہ میں بھی ربّ نے انسان کو دیگر مخلوق سے بلند مرتبہ فرمایا:چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآء َ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِـُوْنِیْ بِاَسْمَآء ِ ہٰٓؤُلَآء ِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ()’’اور اللّٰہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔‘‘( پ ۱،سورہ بقرہ ِآیت۳۱)۔

ایک اور مقام پر ارشادربانی ہے: قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ()’’بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ ‘‘( پ۱،سورہ بقرہ، ِآیت ۳۲ )

﴿﴾اعلٰی مراتب کے لیے سخت امتحانات سے واسطہ﴿﴾
روایتی زندگی پر غور کریں تو ہم اگر کسی کی اہمیت کو بیان ،کسی کی علمی استعداد کسی کی اہلیت کی تعریف بیاں کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اﷲ عزوجل اعلی مرتبہ و علمی مقام کو ارشاد فرمایا:قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِئْہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّآ اَنْبَاَہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ قَالَ اَ لَمْ اَ قُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ()۔’’فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔‘‘(پ۱،سورہ بقرہ، ِآیت ۳۳)

تفسیرخزائن العرفان:اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیاء و جملہ مسمیات پیش فرما کر آپ کو ان کے اسماء و صفات و افعال و خواص و اصول علوم و صناعات سب کا علم بطریق الہام عطا فرمایا ۔یعنی اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیراور عدل و انصاف ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔ اﷲ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کے ملائکہ پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ علمِ اسماء خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے ۔اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں ۔

﴿﴾انسان فطرت خداکی آشنائی ہے ﴿﴾
انسان کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے اور اس کے وجود سے آگاہ ہے :وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ()۔’’اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔‘‘( سورہ اعراف آیت ۱۷۲)

انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ :اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسٰنُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ()۔’’بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔‘‘( پ۲۲،سورہ احزاب، آیت ۷۲)

﴿﴾ انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے﴿﴾
انسان اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا ۔’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا ۔‘‘(پ۱۵ سورہ بنی اسرائیل آیت۷۰)

مومن اﷲ کے نزدیک ملائکہ سے زیادہ کرامت رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ فرشتے طاعت پر مجبول ہیں یہی ان کی سرشت ہے ، ان میں عقل ہے شہوت نہیں اور بہائم میں شہوت ہے عقل نہیں اور آدمی شہوت و عقل دونوں کا جامع ہے تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ ملائکہ سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ بہائم سے بدتر ہے ۔

محترم قارئین:اس عنوان پر مزید عمدہ اور مفید معلومات آئندہ تحریر میں آپ کے ذوق مطالعہ کی نظر پیش کیا جائے گی۔
 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593705 views i am scholar.serve the humainbeing... View More