گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے 2009میں پیپلز پارٹی
کے چیئر مین آصف علی زرداری نے اسے اور اس کی متنازعہ حیثیت کو برقرار
رکھتے ہوئے ایک صوبائی سیٹ اپ دیدیا جس سے پاکستان کے شائقین سیاست اور
ہیوی ویٹ چیمپیئنز حیران ہوکر رہ گئے صوبائی سیٹاپ ملنے کے بعد علاقہ کے
لوگوں کا خیال تھا کہ اس قسم کے نئے پیکج سے یقینامعیار زندگی بہتر ہوگا
اور احترام آدمیت سکون کی سانس لیگا 2009کو ہی وفاقی حکومت نے اس پیکج کے
تحت اختیارات کی منتقلی کیلئے انتخابات منعقد کرائے جس میں عوام نے بھرپور
انداز میں اپنے اظہار رائے کااستعمال کیا جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں
پہلی بار صوبائی طرز کی قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی اور سکردو سے پیپلز
پارٹی کے صدر سید مہدی شاہ نے اس اسمبلی میں قائد ایوان کی حیثیت سے قدم
رکھا اورگلگت بلتستان صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ بن گئے آصف علی زرداری صاحب
کی حکومت نے ایک احسن قدم اٹھایا خطے کے عوام کو شناخت دی اوار وزراء اور
مشیروں کے ساتھ جی بی کے عوام کو اپنائیت کا موقع فراہم کیا لیکن یہ بات
انتہائی افسوسناک رہی کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں معاشی اصلاحات پر
قدم تک نہیں اٹھایا 20فیصد غیر ترقیاتی بجٹ اور 80 فیصد ترقیاتی بجٹ تبدیل
ہوکر 20فیصد ترقیاتی اوار 80فیصد غیر ترقیاتی بجٹ بن گیا گلگت بلتستان کے
اس صوبے کو بجٹ میں بھی یقینا نظر انداز کردیا گیا کل ترقیاتی بجٹ 8ارب سے
زیادہ نہیں تھا مگر تاریخ کے پہلے وزیر اعلیٰ نے اسے من و سلویٰ سمجھ کو
فوراً قبول کرلیا -
وزیر اعلیٰ نے اپنی چادر دیکھے بنا ہی پاؤں پھیلانا شروع کردیا اور وزراتوں
کی بندر بانٹ شروع کردی کئی اراکین اپنی صوابدید پر جبکہ کئی اراکین کے
ہاتھوں یرغمال ہوکر بھی وزیرا علیٰ نے وزارتیں دیدئے مسلم لیگ ق،جے یو آئی
،تحریک اسلامی،اور ایم کیو ایم سے بھی ایک ایک وزیر لینے کا فیصلہ کرلیا
جسے وزیر اعلیٰ نے مفاہمتی پالیسی کا خطاب دیا عوام کی حالت بہتر ہونے کی
بجائے خراب ہوتی گئی سنبھلنے کے بجائے بگڑتی گئی عوام میں سے کوئی پکارتا
تو دروازہ نہیں کھلتا تھا کوئی بھاگے تو کمند موجود نہیں تھی کہ پکڑ سکے
قانون طلب و سعی سے کوئی انکاری نہیں لیکن بے طلبی پر ہاتھ پکڑا نہیں جاسکا
علم بے خبر،افتاد و عقل بے حس شد
سال 2013کے بجٹ پاس ہونے کے ساتھ ہی مسائل نے اپنے بل سے سر اٹھانا شروع
کیا یوں لگا جیسے منحوس پرندہ موسم راس نہ آنے کی وجہ سے کہیں چھپ گیا تھا
اور موسم کے بدلنے کے ساتھ ہی واپس لوٹ گیا ہو اور پورے جنگل کو اپنے لپیٹ
میں لے لیا ہو ۔پہلی بار کایبنہ،پہلی بار اسمبلی،پہلا وزیر اعلیٰ، پہلی بار
گورنری اور پہلی بار تاریخی تبدیلی کے ساتھ ہی تاریخ دانوں نے اس بات کا
بھی سختی سے نوٹس لیا کہ اس پردہ اور برقعہ کی ثقافت والے علاقہ (حال ہی
میں صوبائی اسمبلی بھی کہہ چکی ہے)میں پہلی بار خواتین نے اپنے نوکری کے
تحفظ کیلئے سڑکوں کا رخ کرلیا گویا ثقافت اور روایات دریا برد ہوگئے پھر
تاریخ میں پہلی بار یوں بھی ہوا کہ طلباء نے ’علم رسوا ہے سڑکوں پر ‘ کے
نعرے لگانے شروع کئے حکومت نے فی کس تین لاکھ روپے میں نومنتخب اساتذہ کو
سکولوں میں زبردستی تعینات کردیا حالانکہ کئی سکولوں میں پوسٹیں تک نہیں
تھی
صوبائی حکومت کی ایک اور شطرنج 12دن یا 288گھنٹوں کے دھرنے نے بے نقاب
کرلیا صوبائی حکومت نے جسے من و سلویٰ قرار دیا تھا اس سے علاقے میں بحران
اور قحط پیدا ہوگیا 820روپے من آٹا بوری حاصل کرنے والے غریب کو 2700 روپے
کا ٹارگٹ دیدیا گویا ملک کے آئینی علاقوں میں 10سے 20فیصد ٹیکس لاگو کیا
جاتا ہے لیکن اس متنازعہ اور غیر آئینی سرزمین میں تقریباً 350فیصد ٹیکس
لاگو کیا گیا محسوس ہوگیا کہ صوبائی حکومت نے من و سلویٰ میں اضافے کا
مطالبہ کرنے کے بجائے عوام پر بمباری اور گولہ باری کرنا شروع کردیا ہو
لیکن صوبائی حکومت نے سانپ بھی ماردیا اور لاٹھی کو بھی بچاتے ہوئے قیمتوں
میں کمی بھی کروائی اور بقایہ جات بھی وفاقی حکومت کے جھولی میں گرادیا
اب موجودہ حالت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے ان گنت محکمے ایسے ہیں جن میں
5ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کئے گئے ہیں کئی محکموں میں چھان بین کرکے غریب
ملازمین کو فارغ کرنا شروع کیا ہے درجنوں محکموں اور ان کے ملازمین سے
حکومت نے وفا کے وعدے کررکھے ہیں جبکہ حکومت نے اپنی جھولی میں موجود وزراء
اور اراکین اسمبلی بھی دوسال سے اے ڈی پی میں گھپلوں کے شدید الزامات
لگارہے ہیں
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ تقریباً 35ارکان پر مشتمل اس اسمبلی میں علماء بھی
ہیں جو مذہبی منافرت کو کم کرواسکتے ہیں قانون دان بھی ہیں جو قانونی
پہلوؤں پر غور و فکر کرسکتے ہیں سیاح بھی ہیں جو سیر سپاٹے کرسکتے ہیں
ٹھیکیدار بھی ہیں جو مرمتی گٹھ جوڑ میں ہنر دکھا سکتے ہیں جرگہ دار بھی ہیں
جو بچھڑے ہوئے لوگوں کو دوستی پر آمادہ کرسکتے ہیں مگر حیف صد حیف ایک بھی
معیشت دان نہیں ہے جو علاقے کی معیشت کو سنبھال سکتے ہو نہ ہی کوئی
بلندپایہ تاجر ہے جو تجارت کو سہارا دے سکے پاک چین تجارت جو عام لفظوں میں
جی بی چین تجارت ہے بری طرح متاثر ہے چیمبر آف کامرس پر اناڑیوں کا قبضہ ہے
-
حکومت کیلئے صبح امید کا درس یہ ہے کہ وہ اپنی آخری تنخواہلینے جارہی ہے جو
کہ بجٹ کی شکل میں ہے اگر اپنی گزشتہ چار سالوں کی کارکردگی سے سبق سیکھ
سکے اور اپنی ساکھ کو بحال کریں تو یہ تنخواہ ہی نہیں بلکہ انعام و اکرام
بھی ثابت ہوسکتا ہے لیکن غلیطیوں اور کوتاہیوں کا تسلسل جاری رہا تو کل
حکومت کی پہلی وکٹ سپیکر وزیر بیگ اور اور دوسری وکٹ گورنر پیر سید کرم علی
شاہ اڑائیں گے جس کے بعد حادثاتی کھلاڑی بھی وکٹیں اڑاسکتے ہیں - |