زندگی ۔۔۔ اس لفظ کو بہت سی تصانیف و تالیف میں مختلف
انداز سے بیان کیا گیا ہے ، کہیں تو بہت خوشگوار اور کہیں ناخوشگوار ،
دونوں ہی پہلوؤں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ ہے۔
جہاں بات آتی ہے ناخوشگوار اور نا پسندیدہ حالات سے بچنے یا یہ کہا جائے کہ
بھاگ جانے اور جان بچانے کی تو ہم اکثر ایسے راستے کو اپناتے ہیں جس میں
ہمیں جلد فائدہ اور کم محنت کرنا پڑے۔ زندگی کی تلخ حقیقت سے گریز کرنے
والا شخص اِسکیپسٹ(Escapist) کہلاتا ہے۔
|
|
مشکل حالات سے نمٹنے کے کئے طریقے ہوتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان
کو نظر انداز کردیا جائے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہم اپنی ابتدائی زندگی
یعنی بچپن میں ہی سیکھ جاتے ہیں، جیسے جھوٹ بولنا یا سچ کو چھپانا، اسی طرح
زندگی میں آگے چل کر یہ سب ہماری زندگی کا ایک حصہ اور ہماری عادت بن جاتے
ہیں ۔
سوچئے کہ آپ اپنے مقصد کی جانب رواں دواں ہیں لیکن بیچ میں ایک دریا آجاتا
ہے، کوئی کشتی بھی موجود نہیں اور آپ کو ہر حال میں دریا پار کرنا ہے، آپ
تیرنا بھی جانتے ہیں لیکن آپ تیر کر نہیں جانا چاہتے۔ اب کیا اس حال میں آپ
اپنے مقصد کو نظر انداز کر دیں گے۔۔۔؟
|
|
کیا آپ اپنا راستہ بدل لیں گے صرف اس لئے کہ آپ تھوڑی سی مشکل کو اٹھانا
نہیں چاہتے۔۔۔؟ میرا سوال ہے کہ اور کتنی بار آپ اپنے ہی ساتھ سمجھوتہ کریں
گے؟ حاصل کیا ہوگا کچھ نہیں۔
آج کل ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنی مشکلات کو قنوطی نقطہ نظر (Pessimistic
Approach) سے دیکھتے ہیں، ہم لوگوں کو اس کی عادت پڑ چُکی ہے ، ہم لوگوں
میں یقین کی کمی ہے، جبکہ کوئی ایسا کام نہیں جو ہو نہیں سکتا، کوئی ایسی
مشکل نہیں جو حل نہیں ہو سکتی، ہر مشکل اپنے ساتھ پنا حل بھی لے کر آتی ہے۔
جو افراد مشکلا ت سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان میں زیادہ تر ایسے
اشخاص پائے جاتے ہیں جو صرف اپنی زندگی میں ایسے حالات سے پیچھا چھڑانا
چاہتے ہیں یا بچ کر بھاگنا چاہتے ہیں۔
|
|
حالات کا سامنا کرنے کے بجائے ان سے بھاگ جانے میں مختصر مدت کا فائدہ تو
نظر آتا ہے لیکن آخر میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے کیونکہ جب بھی ہم آسان
راستہ اپناتے ہیں تب تب نا صرف ہم خود اپنے آپ سے سمجھوتہ کرتے ہیں بلکہ
اپنے خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ بھی ناانصافی کرتے ہیں اور نتیجہ معمولی
ہی نکلتا ہے۔
اُوپر ذکر کیا گیا تھا دریا کو پار کرنے کا، آپ سوچ رہے ہونگے کہ آپ دریا
کیسے پار کریں گے، کشتی بھی نہیں ہے اور تیرنا بھی نہیں ہے، لیکن اگر آپ
مثبت سوچ رکھتے ہیں تو آپ کسی ایسی جگہ کو تلاش کریں گے جہاں آپ درختوں کی
لکڑیوں سے ایک کشتی تیار کر سکیں ، لوگ ضرور اس خیال کو پاگل پن کہیں گے،
لیکن لوگوں کی پرواہ نہ کریں ایک بار آپ اپنے عزم میں کامیاب ہو گئے تو یہی
لوگ آپکی تعریفوں کے پُل باندھیں لگیں گے۔
میں اس آرٹیکل کا اختتام ایک نامور شخصیت کی کے بارے میں ذکر کرکے کرنا
چاہوں گا۔
’’میں اپنی ٹریننگ کے ہر لمحہ سے نفرت کرتا تھا ، لیکن میں نے کہا ہار نہیں
ماننی ابھی محنت کر لوں تاکہ باقی کی زندگی ایک چیمپئن کی طرح گزاروں ‘‘۔
محمد علی
|