چند سوالات٬ آپ کا معاشی مستقبل کیسا ہوگا؟

کبھی کبھی تو یہ بات المیے سے زیادہ کرشمہ محسوس ہوتی ہے کہ آخر حالات نے ایسی کیا کروٹ لی ہے کہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی آمدن و اخراجات میں پائی جانے والی خلیج کے سبب روز و شب کی اذیت کا شکار ہیں۔ حالت یہ ہے کہ جن کی سالانہ اور ماہانہ آمد برابر ہیں وہ بھی اپنی اپنی جگہ حالات ہاتھ تنگ ہونے کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں عام طور پر ہم ساری ذمے داری قیمتوں میں اضافے ، منافع خوری اور محدود ذرائع آمدن پر ڈال کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن کبھی اپنے ذاتی طرز عمل کا جائزہ نہیں لیتے۔ اس تحریر میں ہم چند ایسی باتوں کا ذکر کررہے ہیں جو معاشی مسائل میں گھرے افراد کے غلط رویوں کی نشان دہی بھی کرتی ہیں اور ان مسائل کے شکار افراد کے مستبقل میں مزید معاشی پریشانی کی علامت بھی ہیں۔ ہم سب ہی کو اپنا اپنا جائزہ لے کر ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔
 

1- واجبات کی ادائیگی میں تاخیر
اگر کسی سبب بجلی ، گیس یا پانی کا بل جمع کروانا بھول جائیں تو یہ الگ بات ہے۔ لیکن ایسے بلوں کی آخری تاریخ قریب آنے پر بھی آپ کے پاس جمع کروانے کے لیے رقم ہی نہ ہو تو یہ تشویش کی بات ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ان اداروں کی کارکردگی اور ان کے بھیجے جانے والے بلوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن یہ بل ادا کیے بنا بھی تو کوئی چارہ نہیں۔ تو ان محکموں کو کوسنے کے بجائے اس بات کا جائزہ لیجیے کہ اگر یہی بل آج سے کچھ ماہ قبل وقت پر ادا ہورہے تھے اور اب ان میں تاخیر ہورہی ہے یا انھیں ادا کروانے کے لیے رقم ہی موجود نہیں تو کہیں نہ کہیں تو مسئلہ ہے۔ مہنگائی اپنی جگہ، لیکن ممکن ہے کہ آپ نے بھی کچھ ایسے اضافی خرچے کیے ہوں جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی۔ یاد کیجیے اس مہینے شاپنگ، بیوٹی پارلر، یا دوستوں کے ساتھ باہر کھانے پینے کے کسی پروگرام تو نہیں بنایا تھا، بلا ضرورت۔۔؟؟

image


2- بچت ندارد
اگر ہر ماہ کے آخر میں ہم کچھ نہ کچھ بچت نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلا رہے ہیں۔ کسی بھی ہنگامی یا خدا نخواستہ حادثے کی صورت میں آپ کی بچت ہی آپ کے کام آتی ہے۔ ملازمت سے اچانک فراغت یا کاروبار میں نقصان کی صورت میں کل کا بچایا آج کام آتا ہے۔ جب ہم اپنے وسائل سے زیادہ اخراجات کررہے ہوتے ہیں تو ایسی ہی صورت میں ہمارے لیے بچت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس پر اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی آمدن ہی اتنی محدود ہے کہ بچت نہیں ہوپاتی، تو سوچنے کی بات ہے کہ بچت کا تعلق تو وسائل کو اس منظم انداز میں استعمال کرنا ہے کہ کم سے کم استعمال اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ اس بات کا تعلق آمدن کی ”مقدار“ سے زیادہ خرچ کرنے کے ”معیار“ سے ہے۔ ہم کسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی خرچ ایسا کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ ہماری پورے مہینے کی بچت کو چٹ کر جاتا ہے۔ ہر کوئی ایسے خرچ کی تشخیص خود کرسکتا ہے۔

image


3- ادھار بھی ایک پیمانہ ہے!
عزیز رشتے دار کال سننا چھوڑ دیں، دوست کسی بھی رابطے کا کوئی جواب نہ دیں تو بہت سی دیگر وجوہ کے ساتھ ایک بنیادی وجہ ادھار بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے وسائل پر مکمل انحصار وہ کرسکتا ہے جو ان وسائل کو استعمال کرنا کے لیے درست حکمت عملی اپنائے۔ اس لیے جب کوئی اس میں ناکام ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے مرہون منت ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کی موجودہ آمدنی آپ کے لائف اسٹائل کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے تو سوچیے، آپ سے کہیں تو چوک ہورہی ہے جس کی وجہ سے آپ جلد یا بہ دیر کسی بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔

image


4- قرض اتارنے کے لیے قرض
واجب الادا بلز بھی قرض ہی کی صورت ہوتے ہیں۔ ان میں ہونے والی تاخیر سے واجب الادا رقم میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ صرف قرض کے آسرے پر ان کی ادائیگی میں تاخیر نہ کریں۔ ہم کئی مرتبہ ایک قرض دار سے وعدہ پورا کرنے کے کسی دوسرے سے قرض لیتے ہیں اور اس طرح وقت تو کم ہوتا چلا جاتا ہے اور قرض کی رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرض کے چنگل میں پھنسے بعض افراد کریڈٹ کارڈ یا بینک سے قرضے لے کر بھی اپنی مشکل کا وقتی حل نکال لیتے ہیں لیکن یہ کنواں چھوڑ کر کھائی کا انتخاب کرنے والی بات ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ اول تو اخراجات اس سطح پر پہپنچنے ہی نہ پائیں کہ قرض کی ضرورت پڑے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی ضرورت یا خواہش قرض کی امید سے نتھی مت کریں۔ زور بازو ہے پہ بھروسہ بہتر ہے!

image


5- کریڈٹ کارڈ، ایک لٹکتی تلوار
اگر کسی کی آمدن اوسط سطح پر ہے اور اس کے باوجود اس نے کریڈٹ کارڈ بنوا رکھا ہے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ وہ فضول خرچ ہے۔ متوسط طبقے میں کریڈٹ کارڈ بنوانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو خرچ کرنے کے معاملے میں کسی شدید خواہش کے زیر اثر غیر محتاط ہوجاتے ہیں۔ طرز زندگی میں کوئی ایک بہتری یا کسی سہولت کے لیے وہ خود کو قرض کے چنگل میں پھنسا لیتے ہیں۔ اول تو چادر اور پاؤں کی لمبائی والا فارمولہ یا پر بھی پوری طرح درست ہے لیکن اگر کسی نے کریڈٹ کارڈ بنوا ہی لیا ہے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ اس عرصے میں اس کے (کریڈٹ کارڈ کے ذریعے) خرچ کی حد کتنی بار پار کی گئی ہے؟ اس سوال کے جواب سے بھی اندازہ ہوجائے گا وہ جلد یا بدیر شدید معاشی پریشانیوں کا شکار ہوسکتا ہے یا نہیں؟

image


6- کیسی برابری
ہماری آمدن کی سطح کچھ بھی ہو لیکن ہمارے تعلقات ہر طبقے کے افراد سے ہو سکتے ہیں۔ ملازمت کرنے والوں ہم کار افراد اور کاروباری افراد کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے میل جول ہوتا ہے، اسی طرح عزیز رشتے داروں میں معاشی طور پر خوش حال افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ان کے طرز زندگی کو دیکھ کر کبھی کبھی حرص اور رشک کے جذبات ضرور سر ا ±ٹھاتے ہیں۔ رہی سہی کسر آسائش سے بھرپور طرز زندگی پیش کرنے والا ملکی و غیر ملکی تفریحی مواد پوری کردیتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی کئی مرتبہ ہم اپنی آمدن کی حدود کو نظر انداز کرکے اخراجات بڑھا لیتے ہیں۔ تفریح سب کا یکساں حق ہے لیکن وہی کام اچھا ہے جو ہماری دسترس میں ہے۔ اپنی استطاعت سے بڑھ کر کوئی خوشی حاصل کرنا محض حرص و طمع کا نتیجہ ہے جس کے حصول کے بعد آنے والے مسائل اس بات کا ادراک کروا دیتے ہیں۔ اس لیے خوشی وہی جو آنگن میں سما جائے، ایسی وقتی خوشی کا کیا فائدہ جو جیب پر بھی بھاری ہو اور دل پر بھی۔

image


7- جیب سے اجازت لیں۔۔۔
ہر ماہ اخراجات کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہمارے ذہن میں ہوتا ہی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ اسے باقاعدہ بجٹ کی شکل دی جائے۔ کئی مرتبہ اخراجات اور آمدن کے تخمینے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم اشیا کی خریداری کرجاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان میں ایسی اشیا بھی شامل ہوتی ہیں جن کی ضرورت یا تو وقتی ہوتی ہے یا پھر ان کے بغیر بھی کام چلانا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن ہم محض ”خریداری کی شدید خواہش“ پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور ایسی کوئی بھی شے خرید کر اپنے ماہانہ بجٹ تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی دل کوئی شے خریدنے کے لیے بے تاب ہونے لگے تو اس کے عین اوپر جیب میں جھانک کر اس کی اجازت طلب کریں۔ اگر آپ اس کی بات پر دھیان دیں گے تو کئی مسائل جنم ہی نہیں لیں گے۔ اس کے علاوہ ہر ماہ خریداری کے لیے کچھ خاص رقم مختص کردیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگلے ماہ کے آغاز پر کون سی ایسی چیز ہے جس کا خریدنا انتہائی ضروری ہوجائے گا۔ بس ایسی اشیا کی فہرست بنا لیں اور اہم ترین، اہم، اور کم اہم جیسی درجہ بندی کرکے خریداری کی منصوبہ بندی کریں۔

image


8- ذائقے کی تباہ کاری
بہت سی عادات انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوپاتا ہے کہ وہ کب ہماری صحت اور معاشی حالت پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ گھر سے باہر کھانے کھانے ، ہوٹلنگ یا آو ¿ٹ ایٹنگ کا رجحان رفتہ رفتہ ہمارے روز مرہ معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ اب تو گھر والے چھوٹی موٹی خوشیوں کی تقریبات بھی ریستورانوں میں منانے کو ترجیح دیتے ہیں، گھروں میں ہونے والی دعوتیں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں منتقل ہورہی ہیں۔ دوست احباب محض تفریح کے لیے باہر کھانے کے لیے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب اگر کسی نے زمانے کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر رکھا ہے تو بس اسے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بار اپنے اخراجات کا جائزہ لے، اگر ہمارے اس طرح کے تفریحی کھابے ہماری ماہانہ آمدن کے پچیس فی صد سے تجاوز کررہے ہیں تو یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔

image


09- ریٹارمنٹ کے لیے کچھ بچایا!
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موت اور زندگی کا کیا بھروسا، لیکن جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ ہمیں کب تک دنیا میں رہنا ہے تو اگر آئندہ کے لیے کچھ منصوبہ بندی کرلی جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ یعنی اگر یہ وقت تھوڑا ہے یا زیادہ اس بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے لیکن منصوبہ بندی کرنے کی صورت میں ہمیں دونوں صورتوں ہی میں فائدہ ہوگا۔ بعض معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ہر فرد کو اپنے کیرئیر کے آغاز ہی سے سالانہ طور پر آمدنی کا دس فی صد ریٹائرمنٹ کے لیے بچانا چاہیے، اور اسے وہ مستحکم معاشی مستقبل کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص سالانہ کی یہ دس فی صد بچت نہیں کرپاتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فضول خرچ ہے۔

image

10- بجٹ تیار ہے یا نہیں؟
اگر آپ اخراجات اور آمدن میں عدم توازن سے پریشان ہیں، آپ کو یہی معلوم نہیں ہوپاتا ہے کہ آپ کا پیسہ خرچ کہاں خرچ ہوجاتا ہے اور آپ چاہتے ہوئے بھی بچت نہیں کرپاتے تو ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ایک سوال کا جواب خود بھی دیجیے! کیا آپ نے اپنے روز مرہ اخراجات کے حوالے سے کوئی بجٹ بنا رکھا ہے؟ اگر نہیں تو آپ ان پریشانیوں کا حل بھی تلاش کرسکتے۔ سب سے پہلے اپنے اخرجات اور آمدن کے توازن معلوم کرنے اور موازنہ کرنے کے لیے آپ انھیں لکھنا ہوگا اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی تحریری شکل میں کرنا ہوگی۔ اگر آپ ایسا نہیں کررہے تو تیار رہیے، مالی مسائل آپ کا تعاقب کرتے رہیں گے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Sailing around the world, gardening from sunup to sundown, long walks on the beach... Thinking about retirement can seem surreal and even silly when most of us are so caught up in the day-to-day grind of life. However, it is important to take time to think about it -- and the earlier the better! -- to develop a plan that will truly help you make your dreams for retirement a reality.