بعض نافراموش واقعات جو اخبارات
و رسائل میں شائع ہوتے ہیں ،ان کی کوئی منطق،دلیل اور گواہی تو ہوتی نہیں
ہے،اس لیے لکھنے والے پر ہی یقین کرنا پڑتا ہے کہ اس واقعہ میں جھوٹ وسچ کی
کتنی آمیزش ہے اس کا عذاب و ثواب اسی پر ہے ۔ایک نا قابل فراموش واقعہ میں
نے ایک جگہ پڑھا تھاکہ ایک صاحب پنجاب میں بس کا طویل سفر کر رہے تھے رات
کا وقت تھا شدید بارش ہو رہی تھی ،بجلی چمک رہی تھی بس اپنی مناسب رفتار سے
چل رہی تھی کہ اچانک بس کے آگے تھوڑا فاصلے پر بجلی گری بس کو آہستہ کر کے
ڈرائیور نے رو ک دیا پھر سفر کا آغاز کیا اب یہ سلسلہ مستقل ہو گیا کہ کبھی
بجلی بس کے آگے گرتی کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف گرتی سب مسافر اس
صورتحال سے پریشان تھے کہ ڈرائیور نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں
سے کسی فرد پر بجلی گرے گی اس لیے میرا مشورہ ہے کہ ایک جگہ گاڑی روک دی
جائے اور ہم میں سے ہر فرد باری باری باہر جائے اور جب بجلی ایک بار چمکے
اس کے بعد وہ واپس آجائے تا کہ جس پر بجلی گرنا ہو تو گر جائے باقی لوگ تو
محفوظ ہو جائیں ۔کچھ نے کچھ تبصرے کیے کسی نے کچھ کہا بہرحال اکثریت نے یہ
مشورہ قبول کرلیا اور ڈرائیور سے کہ پہلے تم جاؤ چونکہ ڈرائیور ہی اس تجویز
کا محرک تھا چنانچہ وہ پہلے خود بس سے اترا اور بس سے ایک فاصلے پر جا کر
کھڑا ہو گیا بجلی چمکی پھر وہ واپس آگیا ۔اس کے بعد باری باری سب لوگ اسی
طرح اتر کر جاتے اور واپس آتے گئے جوں جوں لوگوں کی کثیر تعداد اس مرحلے سے
گزرتی گئی میری کیفیت عجیب سی ہونے لگی خوف کے مارے برا حال ہورہا تھا
زندگی بھر کے کرتوت نظروں کے سامنے فلم کی طرح چل رہے تھے جتنی دعائیں یاد
تھیں وہ پڑھ لیں تا آنکہ تمام مسافر اس مرحلے سے گذر گئے ۔آخر میں میں بچا
سب مسافروں کے نزدیک میں اب موت کے منہ میں جارہا تھا میں بھی یہ سمجھتے
ہوئے کہ بس اب میری زندگی اتنی ہی تھی کلمہ پڑھتے ہوئے بس سے اترا اور اسی
مقام پر جہاں سب لوگ جا کر کھڑے ہوتے تھے آنکھ بند کر کے میں بھی کھڑا ہو
گیا مجھے احساس ہوا کہ بجلی تو چمکی ہے لیکن مجھے کچھ نہیں ہوا میں نے
گھبرا کر فوراَ آنکھیں کھو لیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ پوری بس آگ کی لپیٹ
میں ہے ۔بجلی بس پر گری تھی قدرت کو کسی ایک پر بجلی گرانا مقصود نہ تھا
بلکہ کسی ایک کو بچانا مقصود تھا ۔
1968کی بات ہے پی آئی اے نے کراچی سے قاہرہ کی پرواز کا آغاز کیا اور کراچی
سے دو سو سے زائد صحافیوں اور تاجروں کوافتتاحی پرواز میں کراچی سے قاہرہ
لے گئے ۔قاہرہ میں لینڈنگ کرتے ہوئے جہاز کریش ہو گیا پائلٹ اور عملے سمیت
تمام مسافر سوائے ایک فرد کے جاں بحق ہو گئے ۔جو ایک صاحب زخمی ہوئے تھے وہ
روبصحت ہو کر کافی دن زندہ رہے پھر اپنی طبعی عمر پوری کرکے اﷲ میاں کے
یہاں گئے۔
2005میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں بہت زبردست زلزلہ آیا تھا جس میں
ہزاروں لوگ ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئے تھے ۔ملبے تلے آدمی چند گھنٹوں تک ہی
زندہ رہ سکتا ہے ۔یہ خبر میں نے خود اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک شخص 19دن
بعد ملبے سے زندہ نکلا اور ایسے بہت سے محیرالعقول واقعات ہیں جو ہمارے علم
میں آتے رہتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ طور پر گئے تو اﷲ میاں نے ان سے کہا کہ اے
موسیٰ اب ذرا احتیاط سے بات کرنا کہ اب تمھاری والدہ حیات نہیں ہیں ۔معلوم
ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے تو ان کی والدہ سجدے میں
گر جاتیں اور گڑگڑا کر اﷲ میاں سے موسیٰ کے لیے دعائیں مانگا کرتیں کہ ایک
ماں کے لیے اس کا بیٹا چاہے وہ وقت کانبی ہو اور عمر چالیس سال سے زائد ہو
بچہ ہی ہوتا ہے ۔
ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ میں سے پوچھا کہ جنت میں میرا پڑوسی
کون ہو گا اﷲ میاں نے کہا فلاں قصائی جس کی بازار میں گوشت کی دکان ہے
تمھارا پڑوسی ہوگا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی دکان پر پہنچے اور اس
قصائی سے کہا کہ آج میں تمھارے گھر پر رہنا چاہتا ہوں وہ خوشی خوشی راضی ہو
گیا ۔حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ اس قصائی نے دکان بند کی اور ایک گوشت کاٹکڑا
ساتھ لے کر گھر گیا ،اس نے اس گوشت کا سالن بنوایا پھر اس سالن میں گھر کی
پکی ہوئی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس میں بھگوئے پھر ایک کمرے میں
گیا جہاں پلنگ پر ایک بوڑھی خاتون لیٹی ہوئی تھیں ۔قصائی نے اس بوڑھی عورت
کو سہارا دے کر اٹھایا اور پیالے میں جو سالن میں بھیگی ہوئی روٹی لے کر
گیا تھا اپنے ہاتھ سے انھیں کھلانے لگا جب وہ کھلا چکا تو اس بوڑھی عورت نے
ہنستے ہوئے خوشگوار انداز میں اس قصائی کے کان میں کچھ کہا اور لیٹ گئی
قصائی بھی مسکرا کر رہ گیا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قصائی سے پوچھا کہ
یہ بوڑھی عورت کون ہے اور اس نے تمھارے کان میں کیا کہا اور تم اس کی بات
سن کر مسکرائے کیوں ۔قصائی نے جواب دیا یہ میری ماں ہے اور میں روز اسی طرح
اسے کھانا کھلاتا ہوں اور کھانا کھانے کے بعد یہ میرے کان میں کہتی ہے کہ
میں نے اﷲ میاں سے دعا مانگی ہے کہ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
پڑوس میں جگہ عطا فرمائے میں اس کی یہ بات سن کر اس لیے ہنستا ہوں کے کہاں
میں اور کہاں وقت کا نبی ۔
ادارہ نورحق میں تین سال تک مرکزی نظم کے ایک رکن کی حیثیت شجیع بھائی کے
قریب رہنے کا موقعہ ملا ہے شجیع بھائی جماعت کی ہر میٹنگ اور ہر اجتماع میں
پابندی سے شریک ہوتے تھے اگر کسی پروگرام میں شریک نہ ہو پاتے تو اس کی دو
وجوہات ہوتیں ۔ایک یہ کہ یا تو وہ کراچی میں نہ ہوتے دوسرے یہ کہ وہ اپنی
والدہ کے علاج کے سلسلے میں مصروف ہوتے شجیع بھائی اپنی والدہ کو خود
اسپتال یا ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے اور انھیں دوا وغیرہ دلا کر واپس گھر لاتے
پھر و یسے بھی وہ ان کی دن رات بڑے شوق سے خدمت گزاری کرتے تھے ۔
اگر شجیع بھائی کی والدہ ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کررہی ہیں تو یہ ان
کا حق ہے ،آج بھی دنیا میں معجزات نما واقعات ہوتے رہتے ہیں گلیشیر کے
پگھلے ہوئے یخ پانی میں پانچ منٹ کے اندر دل بند ہوجا تا ہے ۔کسی کے بچنے
کی امید صفرہوتی ہے ۔ہو سکتا ہے کہ کہیں ممتا اور قدرت میں مجادلہ ہورہا ہو
اور پھر ایک نہیں دو ماں کی ممتائیں نوجوان طالب علم عاصم کی بھی تو والدہ
ہیں ،قدرت ممتا کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہو اور ممتاؤں کی اپنی گڑگڑاہٹ
ہو ۔جب ممتا اور قدرت کے درمیان معاملات طے ہو جائیں گے توشجیع بھائی اور
طالب علم عاصم دونوں مل جائیں گے۔ |