کارٹون

جب ہم بچپن کی وادی سے گزر رہے تھے تو ہمیں کارٹون اسقدر پسند تھے کہ ٹی وی سکرین کی کوئی چیز ان بے ڈھنگے کارٹونوں سے زیادہ مزیدار نہ تھی۔ہم ہمسائیوں کے گھر ٹی وی دیکھنے جایا کرتے تھے۔ گلی کے بچے شام کو ان کے گھر چلے جاتے اور ٹی وی پر جو بھی لگا ہوتا دیکھتے۔ دو ہی چینل ہوتے تھے ایک انڈیا کا اور ایک پاکستان کا ۔کبھی انڈین فلم ،کبھی پاکستانی فلم کبھی خبریں۔ فلموں میں لڑائی کے سین بہت مزیدار لگا کرتے اور جی چاہتا کہ بس ہیرو، ولن کو مارتا ہی رہے ۔ لیکن ان مناظر سے بھی زیادہ کارٹون پسند آتے۔ پتہ نہیں کیوں۔مجھے یہ بات آج کل اس وجہ سے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ میرے بچے بھی کارٹون میری جیسی دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور مجھے ٹی وی کے قریب بھی نہیں آنے دیتے خبریں سننے کے لیے۔آخر کارٹونوں میں ایسی کون سی بات ہے جو بچوں کو اس حد تک گرویدہ بنا لیتی ہے کہ وہ کچھ اور سننے یا دیکھنے کے روادار ہی نہیں رہتے ؟

سوچتے ،سوچتے،سوچتے ہم فلسفہ کے ریگستان میں پہنچے کہ اس کی خاک چھان کے دیکھتے ہیں شاید کچھ پلے پڑ جائے۔سوچ اس نتیجے پر پہنچی کہ کارٹون تو انسان کے اندر ہوتا ہے۔ بچہ فطرت کو چھپاتا نہیں بلکہ من وعن ظاہر کر دیتا ہے ، اس لیے اسے کارٹون پسند ہوتے ہیں اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ہم جیسے جیسے بڑے ہو جاتے ہیں نقاب پوش بن جاتے ہیں۔ ہم اپنا کارٹون چھپا لیتے ہیں۔کارٹون رہتا ہمارے اندر ہی ہے۔لیکن ہم چونکہ مہذب ہونے کا اظہار کرنے لگتے ہیں اس لیے کارٹون کو تہذیب کی رسی سے جکڑ دیتے ہیں ل لیکن وہ تو جبلت میں ہے اس لیے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن اگر ہم کارٹون کی یہ عینک لگا کر اپنے آس پاس اور بے شک خود کو بھی دیکھیں تو ہمیں اکثرو بیشتر کارٹون ہی نظر آئیں گے۔پہلی توجہ سیاستدانوں کا حق ہے۔ تو ان کی اکثریت اسی کارٹون پارٹی میں فال کرتی ہے ویسے وہ کس بھی پارٹی میں ہوں:اتنی لمبی چوڑی جائیدادیں،شہرت اور کرسی کی ہوس، جائز اور ناجائز کی تمیز سے آزاد۔صنعت کاروں کو دیکھیں تو کارٹون:اتنی ملاوٹ، اتنی ہیرا پھری کہ بس خدا کی پناہ۔عدالتوں کو دیکھیں تو کارٹون: اتنا جھوٹ، اتنی رشوت، بے ایمانی کہ بس الامان۔ہسپتالوں کو دیکھیں تو کارٹون: کوئی شخص اپنی ڈیوٹی دینے کے لیے تیار ہی نہیں، جعلی ادویات اور میڈیکل افسروں کے تعاون سے۔سکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں تو کارٹونوں کی بھی انتہا : اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کر چراغ سے۔انتظامی اور عسکری محکوں میں بھی بین الاقوامی سطح کے کارٹون: عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے ٹیکسوں کا کیا حشر ہو رہا ہے۔مذہبی اوراصلاحی جماعتوں میں بھی کارٹون:دین نہیں فرقہ،قول و فعل کا تضاد۔ فلم ،موسیقی وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا کرنا ہے:لگتا ہے کارٹون بھی ان سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔ الغرض ہر جا کارٹون ہی کارٹون۔

کارٹون نارمل یا فطری سطح سے بگڑی شکل کو کہا جائے گا۔ یہ شکل بچوں کو نارمل شکل سے کہیں زیادہ پسند آتی ہے۔بڑے بھی اسی ابنارمل شکل کو پسند کرتے ہیں۔ ہم اپنی خواہشوں کو نارمل سطح پر نہیں رکھ سکے ہم اپنی خواہشات کے کارٹونوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ہم اپنی پسندنا پسند کو فطرت کے نارمل سائز سے بہت زیادہ بڑھا چکے ہیں۔ہم کارٹونوں کی سی زندگی نا کہ نارمل فطری انسانوں والی زندگی گزار رہے ہیں۔
جس طرح بچوں کو کارٹون دیکھنے سے روکنے کا کوئی فائدہ یا کامیابی نہیں اسی طرح آج کے کارٹونوں کو انسان جیسا ہو جانے کا کہنے کا کوئی فائدہ یا کامیابی ہیں۔

سب سے بہتر ہے کہ میں دوسروں کے کارٹونوں کو انسانوں میں تبدیل کروں میں اپنے آپ کو پہلے کارٹون سے انسان بنا لوں ،ہو سکتا ہے کہ مجھے دیکھ کر کوئی اور بھی اس تبدیلی کا سوچے اور یہ دیکھا دیکھی بھی چل نکلے۔اگرچہ اس کا امکان بہت ہی کم ہے کیونکہ اس کا آغاز جو مجھ سے ہونا ہے غیر یقینی ہے۔
ہاں لیکن اگر آپ کرنا چاہیں تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا۔

مجھے اس بات کی سمجھ بھی نہیں آتی کہ مجھے اب کارٹونوں میں دلچسپی کیوں نہیں رہی۔ جبکہ کارٹون تو اب بھی میرے اندر موجود ہے۔ غور کرنے سے عقدہ کشائی ہوئی کہ کاٹون نے اپنی دلچسپی بدل لی ہے۔
اب اسے نئی نئی چیزیں پسند آرہی ہیں جو اس نے پہلے نہیں دیکھیں۔

پھر خیال آتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ کارٹون ہی ہے تو اصل انسان اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ کیا اصل انسان وہی: چار روٹیاں ایک لنگوٹی باقی سب بکواس ہے ، والا انسان ہے۔معاشرہ کس قدر پیچیدگی اختیار کر چکا ہے۔ وہ ایک مگر مچھ کی طرح منہ کھلے انسان کو ہڑپ کر جانے کا عزمِ صمیم رکھتا نظر آتا ہے اور انسان ہے کہ اس کے آگے ٹک ہی نہیں رہا۔تو اس صورتِ حال میں انسان کارٹون نہ بنے تو اور کیا کرے۔معاشرہ ایک طاقتور جادو گر کی طرح ہر کسی کو اپنی مرضی ہر چلانے کا طلسم رکھتا ہے انسان اس کے آگے کارٹون ہی نہیں بلکہ بھوت ہیں کو ان کا اشاروں پر محوِ رقص ہیں۔

تو کیا انسان کارٹونوں سے بھی آگے جا چکا ہے اور بھوت بن چکا ہے۔ بھوت تو مرے ہوؤں کے ہوتے ہیں تو کیا انسان مر چکا ہے اور معاشرہ زندہ ہے اور اس میں انسانوں کے بھوت بس رہے ہیں؟

میرا خیال ہے یہ بات بہت زیادہ مایوس کن ہو جائے گی۔ انسان کو انسان یا پھر کارٹون ہی رہنے دیا جائے۔ کیونکہ کارٹون دلچسپ ہوتے ہیں چاہے بچوں کے لیے ہی سہی۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312914 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More