کل چودھویں کی رات تھی

میں تب بہت چھوٹا تھا۔اکلوتا بھی تھا۔بہت چلبلا اور شرارتی۔تین سال کا بچہ لیکن کتنا شرارتی ہو سکتا ہے۔ ایک دن میں اماں کے ساتھ لگ کے بیٹھا تھا۔اماں اپنے کام میں مگن تھیں۔میری طرف دھیان نہیں تھا لیکن میرا پورا دھیان اماں کی طرف تھا۔ جب بچے میں طاقت نہیں ہوتی تو اس کا سارا دھیان ہمیشہ ماں ہی کی طرف لگا رہتا ہے اور جب ماں میں طاقت نہیں رہتی تو بچے کا دھیان کسی اور کی ماں کی طرف ہو جاتا ہے۔یہ المیہ ہے لیکن آج کا موضوع نہیں۔میں بیٹھے بیٹھے تھوڑا ساڈگمگایا تو اماں نے مجھے زور کا دھکا دیا۔ میں نیچے پتھروں پہ گرا اور میرا سر پھٹ گیا۔کیا کوئی ماں ایسا کر سکتی ہے۔تین سال کی عمر میں بھی یہ سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھتا رہا۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ بظاہر حد درجہ پیار دکھانے والی ماں بھی اپنے بچے کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے۔اس دن کے بعد مجھے ماں پہ وہ اعتبار نہیں رہا جو اس سے پہلے تھا۔میں نے سیکھا کہ جب آپ لڑکھڑا جاتے ہیں تو کوئی آپ کی مدد نہیں کرتاماں بھی نہیں۔ہر کوئی آپ کو دھکا ہی دیتا ہے۔

اماں کے خلاف دل میں بغض رکھے میں بڑا ہوتا رہا۔اسی بغض کی وجہ سے میں نے بچپن میں اماں کو بہت تنگ کیا۔دس سال کا ہوا تو کسی بات پہ اماں نے پیار جتایا تو میں پھٹ پڑا۔اماں رہنے دو! میں تمہارا پیار جانتا ہوں۔تم وہی ہو ناں جس نے ایک بار مجھے دھکا دیا تھا اور میرا سر پھٹ گیا تھا۔میرا خیال تھا کہ میرے منہ سے یہ بات سن کے اماں کا سر جھک جائے گا۔اماں لیکن مسکراتی رہی۔میں نے وہاں موجود اپنی بہن کو اپنی آواز میں زمانے بھر کا درد اوردکھ سمیٹ کے یہ کہانی سنائی۔بہن نے اماں کا میرے لئے والہانہ پن دیکھ رکھا تھا۔ اسے یقین نہ آیا۔وہ پوچھنے لگی اماں! کیا واقعی تم نے بھائی کو دھکا دیا تھا اور بھائی کا سر پھٹ گیا تھا؟۔اماں نے اثبات میں سر ہلایا لیکن اماں کی مسکراہٹ کم نہ ہوئی ۔میرے زخم ہرے ہو گئے تھے۔میں چڑ گیا اور کہنے لگا کہ مائیں کیا ایسی ہوتیں جو خود اپنے ہاتھ سے اپنے اکلوتے بچے کا سر پھاڑ دیں۔اماں کے چہرے پہ میری بات سن کے بھی محبت کے رنگ بکھرتے رہے۔میں چپ ہوا تو اماں نے بہن کو بتایا۔ تیرا یہ بھائی جیسا اب ہے بچپن میں اس سے زیادہ چلبلا تھا۔ اکلوتا تھا تو میں اسے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔میں ایک دن تندور پہ روٹیاں لگا رہی تھی۔اسے میں نے ساتھ بٹھایا ہوا تھا۔میں روٹی بنانے کو دوسری طرف متوجہ ہوئی تو شہزادہ تندور کے اندر گرنے لگا۔ میرے پاس اسے پکڑنے کا وقت نہیں تھا۔پکڑنے کی کوشش کرتی تو یہ اپنی حرکت کی وجہ سے تندور میں گر جاتا۔اسے تندور میں گرنے سے بچانے کے لئے میں نے اس دھکا دیا۔نیچے پتھر تھے اسے سر پہ ہلکی سی خراش آگئی۔اسی بات کا اب یہ بتنگڑ بنائے پھرتا ہے۔

مجھے ماں کی بات کا کچھ یقین آیا کچھ نہیں۔بہن کو البتہ پورا یقین آ گیا۔وہ مجھ سے چھوٹی تھی لیکن وہ ماں کی بات کا فوراََ یقین کر لیتی تھی۔یہ میں ہی تھا جسے لگتا تھا کہ ماں اس سے پیار نہیں کرتی۔میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے سمجھ آئی کہ ماں اپنے بچوں کے لئے کن کن مشقتوں سے گذرتی ہے۔ جوں جوں سمجھ آتی گئی ماں مجھے اچھی لگنے لگی۔پھر جب میں خود صاحب اولاد ہو گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میری ماں کے میرے لئے کیا جذبات تھے ۔مجھے افسوس ہوا کہ میں ماں کے بارے میں کیسا کیسا بغض رکھتا تھا۔کیسی کیسی سوچیں۔میں سوچا کرتا کہ شاید یہ میری سوتیلی ماں ہیں۔غربت تھی اس کے باوجود میری ہر خواہش اماں پوری کیا کرتی۔کبھی کبھار کوئی ایک آدھ چیز نہ ہو پاتی تو سنپولئے میرے ذہن میں کلبلانے لگتے۔ابا کی ہاتھ بہت بھاری تھا۔میرے حصے کی ساری مار بھی اماں خود سہا کرتیں۔اماں اماں ہی ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

آج یونہی مجھے کبھی کی سنی ہوئی بات یاد آئی کہ اﷲ ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ اﷲ سان و گمان میں نہیں آتا۔ اس کی محبتوں عظمتوں رفعتوں اور مہربانیوں کو ناپا یا تولا نہیں جا سکتا۔نہ اس کی ذات کو نہ صفات کو۔ وہ انسان کی سوچ کے دائرے میں نہیں آتا۔اس نے جب انسان کو سمجھانا چاہاتو ایک ہی پیمانہ استعمال کیا اور وہ پیمانہ تھا ماں۔ماں کی ممتا اور اس کی محبت۔آج میں سوچتا ہوں کہ میری ماں اگر مجھے دھکا نہ دیتی تو میں تندور میں گر کے کباب بن گیا ہوتا۔ مجھے جو وقتی تکلیف ہوئی اس نے میری جان بچا لی۔مجھے معذور یا بدصورت ہونے سے بچا لیا۔میں ساری حیاتی یہی سمجھتا رہا کہ ماں نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی اور یہ کہ یہ میری ماں نہیں سوتیلی ہے۔میں نے بد گمانی کے ان دنوں میں اپنے دل کیسے کیسے وسوسے پال کے بیٹھا تھا۔

کل عام معافی کی رات تھی شب برات۔مجھے یاد آیا کہ میرا رب بے حدو بے حساب مہربان ہے۔ اسے اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے۔یہ دھکے یہ ٹھڈے جو زندگی میں ہمیں پڑتے ہیں یہ ہماریبد اعمالیوں کی سزا کے طور پہ پڑتے ہیں ہمیں کسی بڑی تکلیف سے بچانے کے لئے کہ کہیں ہم جہنم کے بڑے تندور میں نہ گر جائیں۔ ماں ہی کی طرح وہ ہر قدم پہ ہماری حفاظت کرتا ہے۔ہمیں نظر میں رکھتا ہے۔میرا دل اپنے اﷲ کریم کی محبت سے بھر گیا۔ مجھے یقین کی دولت حاصل ہوئی کہ میری تمام تکلیفیں اور مصیبتیں مجھے بڑے خطرات سے بچانے کے لئے ہیں۔ مجھے اپنے مالک پہ بے طرح پیار آیا اور اعتبار بھی۔وہ مجھے کبھی جہنم کے تندور میں گرنے نہیں دے گا۔ میری ماں کی طرح اس کا پیار رحمت اور شفقت جوش میں آئے گی اور میرے اعمال کی بناء پہ واجب ہوئی جہنم کے کنارے سے اس کی رحمت کا ہلکا سا دھکا مجھے بچا لے گا۔میں مجب ماں پہ بہت پیار آتا ہے تو میں اپنی ماں کو زور سے گلے لگا لیتا ہوں۔مجھے میرے مالک پہ پیار آیا تو میں اس کی توفیق سے سجدے میں گر گیا۔ مجھے لگا کہ میں اپنے معبود کے دو قدموں کے درمیان سر رکھے ہوں اور میرا اﷲ اپنے کرم کے مہربان ہاتھوں سے میرا سر سہلا رہا ہے۔میرے دل سے ساری بد گمانیاں سارے وسوسے اور سارے غم جاتے رہے۔ میں نے دل سے دعا مانگی۔ میرے مالک میرے ایمان میرے وطن میرے ہم وطنو اور میرے دوستوں ساتھیوں عزیزوں رشتہ داروں سب کا خیال رکھنا۔مجھے محسوس ہوا کہ میرے مالک کے چہرے کی مسکراہٹ اور گہری اور محبت بھری ہو گئی ہے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268443 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More