شعبان میں پانچ حرف ہیں: ش، ع، ب
،ا، ن۔ ان میں سے ہر حرف ایک ایک بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے، ش کا اشارہ شرف
کی طرف ہے، ع بلندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، ب سے مراد بر یعنی نیکی ہے، الف
سے مراد الفت اور ن کا حرف نور کی جانب اشارہ کرتا ہے، یہ پانچوں انعامات
اس ماہِ شعبان میں اﷲ کی جانب سے بندوں کو عطا کئے گئے ہیں۔
حبیب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے، شعبان میرا مہینہ ہے۔
ماہ شعبان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور اس
کو اپنی جانب منسوب کیا ہے، اس کے بعد شعبان کے دیگر فضائل ذکر کرنے کی
حاجت نہیں رہتی، کیونکہ جو مہینہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہوگا وہ عظمت و
بزرگی میں بھی غیر معمولی مقام رکھتا ہوگا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے
دریافت کیا گیا کہ روزوں میں بہتر روزے کون سے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا شعبان کے روزے، رمضان کے روزوں کی تعظیم کیلئے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو یہ بات بہت زیادہ پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملا
دیں۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
سے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول آپ شعبان کے مہینے میں جتنے روزے رکھتے ہیں میں
نے آپ کو کسی اور مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل
ہوجاتے ہیں، اور اسی مہینے میں بارگاہ رب العلمین میں اعمال لے جائے جاتے
ہیں، تو میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال لے جائے جائیں تو میں روزے سے
ہوں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح
ہے جس طرح مجھے تمام نبیوں پر بزرگی دی گئی ہے۔
ماہ شعبان اور شاگردانِ رسولِ خدا
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے
بزرگ اصحاب شعبان کا چاند دیکھ کر قرآن کریم (زیادہ) پڑھا کرتے تھے، مسلمان
اپنے مال سے زکو بھی نکالا کرتے تھے تاکہ غریب اور مسکین لوگ فائدہ اٹھا
سکیں اور ماہ رمضان کے روزے رکھنے کیلئے ان کا کوئی وسیلہ بن جائے، حاکم
لوگ قیدیوں کو بلا کر ان میں سے جو حد جاری کرنے کے لائق ہوتے تھے ان پر حد
جاری کرتے تھے، باقی قیدی رہا کردئیے جاتے تھے، کاروباری لوگ بھی اسی ماہ
میں اپنا قرض ادا کیا کرتے تھے اور دوسروں سے جو کچھ وصول کرنا ہوتا تھا
وصول کرلیا کرتے تھے۔
عظمتوں والی رات شبِ برات
حم oوالکتب المبینo انا انزلنہ فی لیل مبرک اناکنا منذرینoفیھا یفرق کل امر
حکیمo امرا من عندنا انا کنا مرسلینo
قسم ہے اس کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک
برکت والی رات میں اتارا ہے (کیونکہ) ہم (بوجہ شفقت کے اپنے ارادہ میں اپنے
بندوں کو) آگاہ کرنے والے تھے (یعنی ہم کو یہ منظور ہوا کہ ان کو مضرتوں سے
بچانے کیلئے خیر و شر پر مطلع کردیں، یہ قرآن کو نازل کرنے کا مقصد تھا،
آگے اس شب کی برکات و منافع کا بیان ہے کہ ) اس رات میں ہر حکمت والا
معاملہ ہماری طرف سے حکم (صادر) ہو کر طے کیا جاتا ہے (یعنی سال بھر کے
معاملات جو سارے کے سارے ہی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں جس طرح انجام دینے اﷲ کو
منظور ہوتے ہیں اس طریقے کو متعین کر کے ان کی اطلاع متعلقہ فرشتوں کو کرکے
ان کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، چونکہ وہ رات ایسی ہے اور نزول قرآن سب سے
زیادہ حکمت والا کام تھا اس لئے اس کے لئے بھی یہی رات منتخب کی گئی۔
ان آیات میں لیل مبارک سے مراد حضرت عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کے
نزدیک شب برات ہے (روح المعانی ) چنانچہ اس تفسیر پر مذکورہ آیات سے ماہِ
شعبان کی پندرہویں شب کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ارشاد فرماتے ہیں کہ مشہور
تفسیر اس آیت کی اکثر کے نزدیک یہ ہے کہ لیل مبارکہ سے مراد لیل القدر ہے
شب برات مراد نہیں، کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد ہے انا انزلناہ فی لیل
القدر کہ ہم نے قرآن لیل القدر میں نازل کیا اور یہاں فرما رہے ہیں کہ ہم
نے لیل مبارکہ میں نازل کیا اور یہ ظاہر ہے کہ نزول سے مراد دونوں جگہ نزول
دفعی ہے تدریجی نہیں کیونکہ وہ تو سال میں ہوا، اور نزول دفعی ایک ہی مرتبہ
ہوا ہے اس لئے لیل مبارکہ سے مراد لیل القدر ہوگی یہ قرینہ قویہ ہے اس بات
کا کہ یہاں بھی لیل القدر ہی مراد ہے۔
لیکن ایک قول بعض کا یہ بھی ہے کہ لیل مبارک سے مراد شب برات ہے، باقی رہا
یہ اعتراض کہ اس سے لازم آتا ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ ہوا، تو اس کی توجیہ
یہ ہے کہ نزول دفعی دو مرتبہ بھی اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک رات میں حکم
نزول ہوا اور دوسری میں اس کا وقوع ہوا، یعنی شب برات میں حکم ہوا کہ اس
دفعہ رمضان میں جو لیل القدر آئے گی اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر لیل
القدر میں اس کا وقوع ہوگیا۔۔۔ تو انا انزلناہ فی لیل القدر میں مراد حقیقی
نزول ہے کہ وہ لیل القدر میں ہوا اور انا انزلناہ فی لیل مبارک میں حکمی
نزول ہے کہ شب برات میں ہوا۔ تو احتمال اس کا بھی ہے کہ (لیل مبارکہ سے) شب
برات مراد ہو۔۔۔درمنثور میں بروایت ابن جریر ابن المنذر و ابن ابی حاتم
عکرمہ سے یہ تفسیر منقول ہے۔
ماہ شعبان میں پندرہ کی رات کو خاص فضیلت بزرگی و شرافت حاصل ہے، اور مختلف
روایات میں اس رات کے کئی نام ذکر کئے جاتے ہیں:
لیل المبارک۔۔۔ برکتوں والی رات
لیل الرحم۔۔۔ اﷲ تعالی کی خاص رحمت کے نزول کی رات
لیل الصک۔۔۔ دستاویز والی رات
لیل البرا ۔۔۔ دوزخ سے بری ہونے کی رات
عرف عام میں اسے شب برات کہتے ہیں، فارسی میں شب کے معنی رات کے ہیں اور
برات عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔
چونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس
لئے اس رات کو شب برات کہتے ہیں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ابو سعید بن
منصور کے حوالے سے حضرت ابو موسی رضی اﷲ عنہ سے نقل کیا ہے کہ شب قدر کے
بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا شعبان کی پندرہویں رات کو میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا اے محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم یہ ایسی رات ہے جس میں آسمان اور رحمت کے دروازے کھولے جاتے
ہیں لہذا اٹھئے اور نماز پڑھئے اور اپنے سر اور دونوں ہاتھوں کو آسمان کی
طرف اٹھائیے، میں نے پوچھا اے جبرئیل یہ رات کیسی ہے؟ کہا یہ ایسی رات ہے
کہ جس میں رحمت کے تین سو دروازے کھولے جاتے ہیں، اور اﷲ تعالی ان تمام
لوگوں کو بخش دیتے ہیں جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں، مگر جو
شخص جادوگر ہو یا کاہن، کینہ رکھنے والا ہو یا ہمیشہ شراب پینے والا ، زنا
پر اصرار کرنے والا ہو یا سود کھانے والا، والدین کا نافرمان ہو یا چغل
خور، رشتہ داری توڑنے والا ، ان لوگوں کیلئے معافی نہیں ہوتی جب تک ان تمام
چیزوں سے توبہ نہ کرلیں اور ان برے کاموں کو چھوڑ نہ دیں۔
نظر رحمت
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے
ہیں کہ آپ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو (اﷲ تعالی کی طرف
سے) ایک پکارنے والا پکارتا ہے کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے؟ کہ میں اس کی
مغفرت کردوں کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا دامن گوہر مراد سے بھر دوں،
اس وقت خدا سے جو مانگتا ہے اس کو ملتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک
کے۔حضرت کعب کی روایت ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب اﷲ تعالی جبرئیل کو جنت
میں بھیج کر کہلواتے ہیں کہ پوری جنت سجا دی جائے، کیونکہ آج کی رات آسمانی
ستاروں، دنیا کے شب و روز، درختوں کے پتوں، پہاڑوں کے وزن، اور ریت کے ذروں
کی تعداد کے برابر اپنے بندوں کی مغفرت کروں گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا: شعبان کی درمیانی رات میں جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا اے محمد(صلی
اﷲ علیہ وسلم) اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاو، میں نے سر اٹھایا تو جنت کے سب
دروازوں کو کھلا ہوا پایا، پہلے دروازہ پر ایک فرشتہ کھڑا پکار رہا تھا کہ
جو شخص اس رات میں رکوع کرتا ہے(نما زپڑھتا ہے) اسے خوشخبری ہو ، دوسرے
دروازہ پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کہ جو شخص اس رات میں سجدہ کرتا ہے اسے
خوشخبری ہو ، تیسرے دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا جس نے اس رات میں دعا
کی اسے خوشخبری ہو، پانچویں دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا جس نے اس رات
میں خدا کے خوف سے آہ وزاری کی (رویا) اسے خوشخبری ہو۔چھٹے دروازے پر ایک
فرشتہ کہہ رہا تھا کہ اس رات میں تمام مسلمانوں کو خوشخبری ہو، ساتویں
دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا اگر کسی کو کوئی سوال کرنا ہے تو کرے اس
کا سوال پورا کیا جائے گا، آٹھویں دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کوئی ہے
جو بخشش کی درخواست کرے اس کی درخواست قبول کی جائے گی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا میں نے جبرئیل سے پوچھا، یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے؟
انہوں نے جواب دیا پہلی رات سے صبح ہونے تک کھلے رہیں گے، پھر کہا اے محمد
( صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ تعالی اس رات میں دوزخ کی آگ سے اتنے بندوں کو نجات
دیتا ہے، جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال ہیں۔
عرب کے قبائل میں سے سب سے زیادہ بنو کلب کی بکریاں تھیں، ان تمام بکریوں
کے جسموں پر جتنی تعداد میں بال تھے ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں اﷲ
تعالی لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں، یہاں کوئی خاص تعداد مراد نہیں بلکہ
تعداد کی زیادتی بیان کرنا مقصود ہے، کہ ایک بکری کے جسم پر کتنے بے شمار
بال ہوتے ہیں اور پھر ان کثیر تعداد بکریوں کے جسم پر کتنے بے حساب و بے
شمار بال ہونگے ان سے بھی بڑھ کر اﷲ رب العزت اپنے بندوں کو معاف فرماتے
ہیں کوئی مانگنے والا، جھولی پھیلانے والا تو ہو۔
فرشتوں کی عید
جس طرح زمین پر مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں اسی طرح آسمان پر فرشتوں کی بھی
دو عیدیں ہوتی ہیں مسلمانوں کی عیدیں عید الفطر (یکم شوال) اور عید الاضحی
(دس ذی الحجہ) کے دن ہوتی ہیں اور فرشتوں کی عیدیں شب برات اور شب قدر میں
ہوتی ہیں، فرشتوں کی عیدیں رات میں اس لئے ہوتی ہیں کہ وہ سوتے نہیں،
مسلمان چونکہ سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن میں ہوتی ہیں۔
فیصلے کی رات
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ سرتاج دو
عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں
یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ!
(مجھے تو معلوم نہیں، آپ ہی بتا دیجئے کہ) کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے
اس رات میں لکھدیا جاتا ہے، اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال مرنے
والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے، اس رات میں بندوں کے اعمال اٹھالئے
جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں۔
بعینہ شعبان کی چودہویں اور پندرہویں تاریخوں کے درمیان ہر سال خالقِ
کائنات اپنی وسیع تر مملکت دنیا کے بجٹ کا اعلان کرتا ہے اور یہ بجٹ زندگی
کے ہر زاوئیے پر محیط ہوتا ہے، اس رات میں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ آنے
والے سال میں کتنے لوگوں کو دنیا میں بھیجنا ہے اور کتنے لوگوں کو ان کی
ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کے بعد واپس بلایا جائے گا، کتنا خرچ کرنے کی
اجازت ملے گی اور کس سے کتنا کچھ واپس لے لیا جائیگا، شعبان کی پندرہویں شب
میں عالم بالا میں حکیم و خبیر و دانا مدبر کے حکم کے مطابق دنیا والوں
کیلئے جو روز ازل میں فیصلے کئے گئے تھے ان میں سے ایک سال کا جامع بجٹ
کارکنانِ قضا و قدر یعنی خاص مقرب فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے ، اس دنیا
میں سب کچھ وہی ہوتا ہے جو فرشتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔
حضرت عطا بن یسار رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے
تو خدا کی طرف سے ملک الموت کو ایک فہرست دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے
کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے ان کی روحوں کو اس سال وقت
مقررہ پر قبض کرنا، کوئی بندہ تو باغوں کے درخت لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی
کرتا ہوتا ہے، کوئی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ اس کا نام مردوں کی
فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔
قبرستان
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس
تشریف لائے اور اپنے کپڑے اتارے، تھوڑی دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ آپ نے ان
کو پھر پہن لیا، مجھ کو یہ خیال آیا کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی
اور کے پاس جارہے ہیں اس لئے مجھے بہت غیرت آئی، میں آپ کے پیچھے پیچھے نکل
کھڑی ہوئی، تلاش کرتے ہوئے میں نے آپ کو جنت البقیع میں پایا، آپ مسلمان
مردوں عورتوں اور شہدا کیلئے استغفار کررہے تھے میں نے دل میں کہا کہ آپ پر
میرے ماں باپ قربان جائیں، آپ خدا کے کام میں مصروف ہیں اور میں دنیا کے
کام میں، میں وہاں سے واپس اپنے حجرے میں چلی آئی(اس آنے جانے میں) میرا
سانس پھول گیا، اتنے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور دریافت
فرمایا یہ سانس کیوں پھول رہا ہے؟ میں نے عرض کیا آپ پر میرے ماں باپ قربان
ہوں، آپ میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے جلدی سے دوبارہ کپڑے پہن لئے، مجھ
کو یہ خیال کرکے سخت رشک ہوا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس
تشریف لے گئے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے آپ کو خود بقیع غرقد میں
جا دیکھا کہ آپ کیا کررہے ہیں، آپ نے فرمایا عائشہ کیا تمہارا یہ خیال تھا
کہ خدا اور خدا کا رسول تمہارا حق ماریں گے؟ (اصل بات یہ ہے کہ ) جبرئیل
علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ رات شعبان کی پندرہویں
رات ہے اور خداوند عالم اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے
جو کہ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر اس میں خدا
تعالی مشرکین، کینہ ور، رشتے ناطے توڑنے والے، ازارٹخنوں سے نیچے رکھنے
والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف نظرِ رحمت نہیں
فرماتے۔
اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم مجھ کو اجازت
دیتی ہو کہ آج رات قیام کروں میں نے کہا کہ بے شک آپ پر میرے ماں باپ قربان
ہوں، آپ نے قیام کے بعد ایک طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ مجھ کو خیال ہوا کہ
آپ کی وفات ہوگئی۔ میں نے چھونے کا ارادہ کیا اور آپ کے تلووں پر اپنا ہاتھ
رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی میں نے آپ کو سجدہ میں یہ دعا مانگتے سنا۔
اعوذ بعفوِک مِن عِقابِک واعوذ بِرِضاک مِن سخطِک واعوذ بِک مِنک جل وجھک
لا احصِی ثنآ علیک انت کما اثنیت علی نفسِک۔
صبح کو میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ
تم اس دعا کو یاد کرو گی؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور، آپ نے فرمایا سیکھ لو،
مجھ کو یہ کلمات جبرئیل علیہ السلام نے سکھائے ہیں اور کہا ہے کہ سجدہ میں
ان کو بار بار پڑھا کرو۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ شب
برات میں قبرستان تشریف لے گئے تھے، لہذا اگر وقت ملے تو قبرستان چلے جانا
چاہئے لیکن اس کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف
علی تھانوی نے شعبان ھ کو جامع مسجد تھانہ بھون میں اپنے بیان کے آخر میں
فرمایا، اس دن میں روزہ ، اس رات میں جاگنا، اپنی حاجت طلب کرنا، مردوں
کیلئے دعا کرنا مستحب ہے۔۔۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ مردوں کو اسی طریق پر نفع
پہنچاو، جس طور جناب رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول ہے یعنی بعد عشا
کے قبرستان میں جا کر مردوں کیلئے دعا کرو، پڑھ کر بخشو، مگر فردا فردا
جاو، جمع ہو کر مت جاو اس کو تہوار مت بناو۔
اور عجب لطف حق ہے کہ پندرہویں شب میں ہمیشہ چاندنی ہوتی ہے، (اکیلے)
قبرستان جانے میں وحشت بھی نہ ہوگی۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں ایک روایت
سے ثابت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے، اس
لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں، لیکن
میرے والد ماجدحضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اﷲ سرہ ایک بڑی کام کی بات
بیان فرمایا کرتے تھے، ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا
چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے، لہذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، چونکہ ایک مرتبہ
جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے۔
لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا اور اس کو ضروری
سمجھنا اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا
لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اس کو
اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے لہذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ سے
قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے میں
بھی آپ کی اتباع میں جارہا ہوں تو انشا اﷲ اجر وثواب ملے گا، لیکن اس کے
ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاو۔ |