گراماں کہیں ملے تو یہیں ملے
(Muhammad Touqeer Badar Ul Qasmi, )
جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے
اس وقت تو شب برا ت کی دھوم یا دھمک نہیں سنائی دے رہی ہے البتہ جب تک یہ
آپ کے ہاتھوں میں ہوگی اس وقت تک ،اﷲ نہ کرے! کوئی منحوس خبر ہمیں حسب سابق
سننے کو ملے تاہم بہت کچھ ہم اپنی ملی شعور اور بیجا دینی غیرت کے افسانے
سن چکے ہونگے!
اس ماہ میں اس موقع سے چونکہ نوجوانوں کے لئے کئی سارے پروگرام ہوتے ہیں اس
لئے سب سے پہلے میں اپنی عمر اور منصب کے لحاظ سے اسی طبقہ سے رو برو ہونا
چا ہتاہوں؛کیونکہ نوجوان وہ ہوتا ہے، جو کسی بھی قوم و معاشرے کے لئے ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت رکھا کرتا ہے، وہ نہ صرف اس کا عظیم سر مایہ حیات ہوتا ہے
؛بلکہ افتاد کی گھڑی میں وہی ان کارکھوالاہواکرتا ہے ۔
میرے مخاطب بلا شبہ وہ نوجوانان اسلام ہیں ،جو کبھی بزبان اقبال ؒ’شاہین
ــ‘تو کبھی ’چیتے کا جگر ‘ رکھنے والے مردان جفا کش کہلاتے تھے ۔جی ہاں !جن
کی ذات سے وابستہ کچھ ایسی صفات جڑی ہیں کہ وہ آج ہر زبان میں ضرب المثل بن
کر ادب کی لے تیز کر رہی ہیں۔جن کی داستانیں نہ صرف’ طلسم ہوشربا ‘و’الف
لیلی ٰ ‘جیسی مشہور زماں کتابوں کی زینت ہیں ؛بلکہ ہمیشہ ہمیش رہنے والی
کتاب مقدس قرآن کریم،جس کے تقدس کی قسم اپنے ہی نہیں بلکہ غیر بھی کھاتے
ہیں ـ،میں کبھی جاہ جلال کی علامت حضرت موسی ٰ ؑکے ذریۃ (نوجوان):(سورہ
یونس:۸۳) تو کبھی اصحاب کہف (فتیۃ):(سورہ کہف: ۱۳)کے قصص پاکیزہ عنوان سے
معنون ہوکر مفسرین حضرات کی تفسیری روشنی میں ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ
وجاوید بن گئے ہیں ۔
مذکورہ حقیقت کے ساتھ ساتھ آج پوری دنیا پہ حکمرانی کا خواب دیکھنے والے
،اپنی ہی تہذیب کا سبھی پہ سکہ چلانے والے ،خود کو انسان اور غیروں کو غیر
انسان سمجھنے والے افراد نے پوری قوت سے جس طبقہ پہ نشانہ لگا کر اسے مرغ
بسمل بناڈالاہے وہ کوئی اور نہیں یہی ’طبقہ نوجوان‘ ہے ۔ اور ان کی مشاقی
دیکھئے! نشانہ اس سادگی سے لگا یا ہے کہ ’راضی رہے صیاد بھی اور باغبان بھی
خوش ‘ والا مصرعہ بروقت ذہن میں کوند جاتا ہے ۔
حقیقت بیں حضرات پہ یہ بات مخفی نہیں کہ مغربی قوموں اور بے قید وبے ہنگم
طاقتوں،جسے مرعوب قوم اپنا حکمران بھی تسلیم کرتی ہے، نے اپنا تسلط
ِجابرانہ ونظامِ فاسقانہ کو اپنے ماسوا پہ نافذ کرنے کے لئے، اپنی ابلیسی
ذہن کو کام میں لاتے ہوئے ،اپنے محکوم قوموں کے نوجوانوں کوکچھ ایسی ویسی
حرکات وافعال کا خوگر بنا رہی ہیں،جنکا خلاصہ 3D یعنی ڈانس ،ڈرنک(ازمباح
ماکولات تا ناجائز مشروبات) اور ڈنر اور اسی طرح 3S یعنی سیکس ،اسپورٹس( از
گیم تا ہاکی وکرکٹ وغیرہ) اور سیٹیلائٹ( انٹر نیٹ پہ از فحش سائیٹس تا فحش
کلپس وسانگز) کا پنجہ نکلتا ہے ،جسے دشمنوں کی چال ہونے میں ذرا سا بھی شک
کرنا خود کو صدیوں پیچھے نہیں ؛ بلکہ منصوبہ خداوندی کے پیشِ نظرآہستہ
آہستہ نیست ونا بود کرنا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں! (سورہ محمد ۳۸)
ممکن ہے کچھ احباب کو ہماری باتیں دقیا نوسی یا کٹھ ملائی لگے مگر اسے کیا
کہئے کہ یہ احساس و شعور کی باتیں ان کی ہیں،جن کو ہم پہ مسلط رہنے والے
اور شکست کھانے کے بعد ایک ایماندارنہ صلاحیت سے لیس ،خود پہ بروقت تنقید
یں کرنے اور سہنے والے افراد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ، جن کو ہمارے طلبہ
تو رہنے دیجئے !اساتذہ بھی اپنا آئیڈیل مانتے ہیں!
گذشتہ صدی کی ہی بات ہے ۲۲جون ۱۹۴۰ کی رات ساڑھے نو بجے کی ریڈیو نشریات
میں فرانس کے صدر نے ہٹلر سے شکست کھانے کے بعداعترافِ شکست کے ساتھ جو وجہ
شکست بتائی تھی، اس کے بین السطور میں نہیں بلکہ سطور میں ہی جھانک کر
دیکھئے ’’ہمیں شکست ہٹلر نے نہیں دی ہے ؛بلکہ اپنے نوجوانوں نے دی ہے جن کا
کام کھانا ،پینا اور عیش اڑانا تھا ‘‘۔اسی قسم کا ایک اورا عترافِ شکست جو
ڈنکرک کے محاذکے بعد ابھرا ،اسکی وجہ (۲۹مئی۱۹۴۰) لندن کے مشہور ومعروف
اخبار کے ایڈیٹر کے قلم سے پڑھئے ! ’’افسوس کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو صرف
دو چیزیں سکھائی ہیں ،ایک ٹینس اور دوسرے گولف ،ہم نے انہیں جہاد زندگانی
کے لئے تیار نہیں کیا ،اس لئے آج ہمیں اس کی سزا بھگتنی پڑی!‘‘۔
درج بالا دونوں اقتباسات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں؛کیونکہ یہ
اعتراف دنیا کی اس قوم نے کیا ہے جس کی تہذیب ،جس کا کلچراور ہاو بھاو نہ
صرف ہمارے نوجوانوں کے دل ودماغ میں ڈیراجمائے ہوئے ہے بلکہ خارجی سے لیکر
باطنی سطح تک اسی کا بسیرا ہے ۔ جس کی ہر ایک ادا کی نقالی میں یہ سر سے
پیر تک ڈوبے ہوئے رہتے ہیں ۔ جن کو دیکھ کر ایک دوست کی بات یاد آتی ہے ،کہ
زیادہ ایڈوانس بنیں گے تو ان کا مسکن انٹر نیٹ کیفے ،سنیما گھر ،ویڈیوپارلر
اور مالز کی تھری ڈی سنیما کمپلیکس ہونگے اور خالی الذہن والدماغ ہوئے
توپھر کسی چوک چوراہے کی نکڑ میں یاسڑکوں پہ، ورنہ پھر گلیوں میں فلمی خان
برادرس اور عصمت باختہ ہیرویئنوں کی فلمی سوا نح عمریاں میں ڈوبے ہوئے گپ
ہانکتے ہوئے نظر آئینگے ! اورجن کے بارے میں مشہور صحافی یاور خا ن صاحب کا
ذیل میں ذکر کردہ تبصرہ سو فیصد درست معلوم ہوتا ہے ’’جیب میں مال ہے تو
مہنگی تفریح گاہوں اور ریستورانوں وکافی ہاؤ سوں میں کسی جز وقتی حسینہ کے
ساتھ غلط انگریزی میں گپیں ہانکنا ،اور جب جیب بے حال ہے تو ایک روپے والی
سگریٹ کے کش لے لے کر اسمارٹ فون پر حواس باختہ عورتوں کے گندے ویڈیو کلپس
سے جی بہلانا ان کا معمول ہے ‘‘۔
ہمیں نہیں معلوم ہمارے ان تبصروں کا ہم نوجوانوں پہ کیا اثر پڑ سکتا ہے
،تاہم راقم کااپنا احساس تو یہی ہے کہ ان میں اب بھی ماننے اور صحیح راہ پہ
چلانے کی کوشش کی جائے تو چلنے کی کافی سکت موجود ہے ۔اس دعوے کی تصدیق ان
فون کالز سے ہوتی ہے جو راقم کو اپنے منصب کے پیش نظر موصول ہوتے ہیں اور
اس کی بنیاد پہ جہاں ان سے دین داری اور ایک ذمہ دارانہ زندگی کی امیدیں
بندھتی ہیں وہیں اپنی زیر تربیت کچھ کر گذرنے کا حوصلہ رکھنے والے طلبہ میں
یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو انگریزی زبان وادب اور کمپیوٹر سے بالکل نابلد
ہوتے ہیں،ذراسی تحریک پاکر وہ افتاو قضا کے ساتھ ساتھ اس لائق بن جاتے ہیں
کہ قومی خزانہ پر بوجھ بنے بغیر اپنی محنت وصلاحیت سے اپنے آپ کو ملک وملت
کی خدمت کے لائق بنا کر اپنی اہمیت بھی وقتافوقتا تسلیم کرواتے رہتے ہیں ۔
نوجوانان ملت سے روبرو ہونے کے بعد اب آخر میں ان حضرات کی خدمت میں جو قوم
کی فلاح وبہبود کے لئے تنظیمیں چلاتے ہیں ،جن کی شخصیتات ’بہی خواہان ملت
کے ‘عنوان سے معنون ہیں،جن کی تقریروں اور تحریروں کا جادونہ سہی تاہم ایک
اثر ملت کے طبقہ پہ ہے ،چند معروضات پیش کرناچاہتاہوں اول: یہ کہ وہ اپنے
مواعظ حسنہ اور مسند ارشاد سے نشر ہونے والے بیانات میں وہ تمام تر عاقلانہ
وفاضلانہ نکتے بروئے کار لائیں جن سے ان میں مسلکی تعصب اور جماعتی گروہ
بندی کے بجائے ایسا جذبہ پروان چڑھے کہ ان کی یہ دنیا بھی کامیاب ہو اور
آخرت کی کھیتی بھی ہری رہے !ثانی :ان میں حسن عقیدہ وقوت عمل کی ایسی جوت
جگایئں کہ جہاں ان میں دین داری اور شریعت کا سارا فلسفہ چلتا پھرتا نظر
آئے وہیں ان میں تجارت وحرفت اور سائئنس جسے شاہ ولی اﷲ ؒ کی زبانی’’ علوم
نافعہ‘‘کہاجائے اس کی دھمک بھی سنائی دے ! ثالث: ان میں فکر وشعور کی وہ لے
پیدا ی جائے جس سے ان میں وہ شعور آسکے کہ ایک طرف اپنے وجود سے اپنے اطراف
کی دنیا کو نہ صرف ایک پر سکون ماحول دے بلکہ اپنی خوبیوں سے اسے ایک معطر
گلستاں بنائے ،تو دوسری طرف نہ کسی سے ہراساں ہوں اور نہ کسی کو ہراساں
کرے، والی حالت میں مگن ہوکرمستقبل کے لئے بے چین اور کنفیوژن کا شکارنہ
ہوں!
ظاہر سی بات ہے یہ کوئی ہوا میں محل تعمیر کرنا نہیں؛ بلکہ اپنے درخشان
ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے روشن مستقبل کی تیاری ہے ۔ایک ایسا ماضی جہاں
کا صوفی شاعر بھی اور ریاضی داں ،جسے آج کی دنیا کا سائنٹسٹ کہا جائے ! ایک
ایسا دور جہاں مفسر قرآن بھی نفعِ ناس کے جذبے سے لیس ہوکر طب کی دنیا میں
نامورتھا ،جسے آج کی دنیا کا ماہر میڈیسن و میڈیکل کہا جائے ! ایک ایسا وقت
جسمیں فقیہ صرف اصول وجزئیات کا ہی ماہر نہیں بلکہ اس میں ایک کیمسٹ کا سا
را بانکپن دکھائی دے! ٓئیے آج خود سے ایماندارنہ طور پہ خالی الذہن ہو کر
کچھ سوالات کریں ! کیا ہماری صف اول میں بوعلی سینا ،ابن رشد ،حکیم ترمذی
،زکریا رازی ،عمر خیام ،موسی ٰ بن خوارزمی ،ابن بیطار اور ابن مسکویہ رحمھم
اﷲ جیسے حضرات اپنی جگہ نہیں رکھتے ہیں ؟ آخر ہم کیوں ہمت ہار بیٹھے ہیں ؟
کیا ہم دشمن کی تقسیم کردہ علم ِدین ودنیوی کو تقسیم شرعی نہیں سمجھ بیٹھے
ہیں؟ کیا ’’انما الاعمال بالنیات ‘‘ کا درس دینے والے آقاﷺ اور ان کے
شارحین نے ’’ الامور بمقاصدھا ‘‘ کہہ کر ہمیں درست راستہ نہیں دکھا یا تھا
؟ کیاآج ہم اﷲ کی قدرت پہ اس قدر بھروسہ رکھتے ہیں جس قدر کل کے لوگ رکھتے
تھے ؟ کیا ہم مسائل اور وسائل کے لئے درکار جد وجہد نہ کر کے صرف اس کا
رونا روکر اﷲ کی گرفت سے خود کو بچا پائینگے ؟مجھے امید ہے کہ جب ہم میں اس
قدر ہمت آجائیگی کہ خود سے مذکورہ قسم کے سوالات کرسکیں تو پھر یاد رکھئے!
ہم ان کے دئے ہوئے تھری ڈی والے منصو بے کوکچھ اس طرح بدڈالیں گے ۔پہلاDeen
دوسراDeedاورتیسراDeepسے معنون ہوگا ۔ہم پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ
انتہائی پابندِ وقت وعمل ہوکر اس قدر گہرے ثابت ہونگے کہ جو آج جذبات بھڑکا
کر ہم سے کھیل جاتے ہیں ان کو اس کی گہرائی کا پتہ لگانے کے لئے سمند ر میں
چھلانگ لگانے والی ہمت درکار ہوگی ! ان شاء اﷲ! اور اسی طرح ہم تھری ایس کو
اول Simply پھرShunshineاور اس کے بعد Saver of humanبن کر ابھریں گے،
جنہوں نے ہمیں عیاشی وفحاشی پہ لگانا چاہا ہے انہیں ہم سادگی اور اعتدال کا
وہ نمونہ بن کر دکھا یں گے کہ ان کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں اور پھر خود کو
انسانیت کا وہ محافظ بناکر پیش کریں گے کہ ’’گر امان کہیں ملے تو یہیں ملے
‘‘کا مصداق کہلائیں گے ! |
|