ساری رات جنرل راحیل شریف جاگتے رہے۔ کور کمانڈر کراچی ڈی
جی رینجرز سے رابطے میں رہے فوجی جوان رینجرز اے ایس ایف کے سرفروشوں نے
جان سے گزر کر دہشت گردوں کو روکے رکھا۔ ائر پورٹ بچا لیا آسمانوں پر ستارے
اور زمینوں پر طیارے محفوظ رہے، جان قربان وطن کے لیے ہمارے آنسو مسکرارہے
ہیں،
میرے فوجی جواں جراتوں کے نشاں،
میرا ایک ایک سپاہی ہے خیبر شکن
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
رات بھر وزیراعظم نواز شریف بھی جاگتے رہے وہ اپنے وزیر داخلہ چوہدھری نثار
کو تلاش کرتے رہے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے میاں نواز شریف کو مشورہ
دیا ہے کہ وہ ملکوں ملکوں دورے کرنے کی بجائے شمالی وزیرستان جائیں اور
وہاں جاکر دہشت گردوں سے یعنی ظالمانوں سے مذاکرات کریں بے شک پرویز رشید
کو بھی ساتھ لے جائیں، وزیر اعظم رات بھر وفاقی داخلہ سے رابطہ نہیں کرسکے
صبح سویرے اسے حکم دیا کہ سیدھا کراچی ائرپورٹ پہنچیں صبح چوہدھری صاحب ان
کے سامنے نہیں گے، ورنہ وہ کہتے اک سوہنا نے دوجا ستا اٹھیا۔ رات کو
وزیراعظم کو رپورٹ دی گئ تھی کہ طیارے بچ گئے ہیں۔ بھارت پر براہ راست
الزام لگا سب اچھا ہے، شکر ہے پرویز رشید نے اتنا تو کہا کہ کراچی ائر پورٹ
پر حملے میں غیر ملکی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، چوہدھری نثار نے
بھی کہا ہے کہ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ آور غیر ملکی تھے۔ کوئی وزیر
یہ نہیں کہے گا کہ وہ بھارتی تھے اتنا ہی کہہ دو صاحب کہ وہ بھارتی ایجنٹ
تھے-
نواز شریف نے فورا قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا ہے یہ وہی نیشنل
سکیورٹی ہے جس کی تجویز سابق جنرل جہانگیر کرامت نے پیش کی تھی، اور ان سے
استعفی لے لیا گیا تھا، الطاف بھائی نے ضمانت پر رہائی کے بعد پہلا بیان
دیا ہے کہ میرے اختیار میں ہوتا تو ملک میں ایمرجنسی لگا دیتا، بات اچھی ہے
پر موجودہ حکمران گھسے پٹے بیانات سے معاملات کو سبنھال لیتے ہیں کیونکہ یہ
یہی تو سیاست اور جمہوریت کے کھلاڑی ہے، حالات زیادہ خراب ہو تو جمہوریت
بھی ختم ہوجاتی جب جب بھی ملک مشکلات کا شکار ہوا ہے پاک فوج نے ہی سبنھالا
ہے جمہوریت کرنے والوں نے نہیں وہ تو اپنے محلات میں سکیورٹی حصار ٹھنڈے
ٹھار کمروں میں بیٹھے کانفرنسوں سے کام لیتے ہیں، فوج کی حمایت کرو اور
انہیں اپنا کام کرنے دو-
کراچی ائر پورٹ پر پاک فوج آئی تو لوگوں کی جان میں جان آئی فوج نے دہشت
گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیے، کور کمانڈر کراچی ڈی جی رینجرز پتہ
نہیں کب ائر پورٹ پہنچے اس سے ظالمانوں کا زور ٹوٹ گیا، ظالمان کہتے ہیں کہ
یہ ابتدا ہے ان وحشی درندوں کو معلوم ہی نہیں کہ ابتدا ہی انتہا ہوتی ہے یہ
کہتے ہوئے انہیں کچھ خیال کرنا چاہیے کہ ہم نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا
بدلہ لے لیا ہے اسے تو امریکیوں نے ڈرون سے مار کر ہلاک کیا تھا تو امریکہ
پر حملہ کرو ان کی گاڑیوں اور املاک پر حملے کرو، معصوم لوگوں پر حملے کرکے
کس کا بدلہ لیا جارہا ہے، کیا ان معصوم لوگوں نے حکیم محسود کو مارا ہے-
حکمران تو اپنے محلات میں محفوظ ہیں۔ پروفیسر ابراہیم ظالمان کمیٹی کےممبر
ہے بدلہ لینے کی روایت قبائلی لوگوں کے خمیر میں ہوتی ہے، لگتا ہے ان کا
خمیر بدل گیا ہے، اور ضمیر مرگیا ہے،کمزور پر ہاتھ اٹھانا بہادروں کا کام
نہیں ہوتا۔ تم اپنی روایت سے ہٹ رہے ہوں تمہاری حکایت باقی نہیں رہے گی۔
غیروں کے لیے استعمال ہونا اور اپنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا کہاں کا انصاف
ہے، دہشت گرد بھارتی ایجنٹ ہیں-
بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ اب کوئی جگہ دہشت گردوں سے محفوظ نہیں۔ پر بلاول
ہائوس تو محفوظ ہے زرداری جہاں رہتے ہیں وہاں دہشت گردوں کی رسائی ممکن ہی
نہیں ہے، پرویز رشید بھی جہاں رہتے ہیں وہاں دہشت گرد نہیں جاتے۔ رائے ونڈ
جاتی عمرا کی طرف تو کوئی دیکھتا بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد کے وزیرستان میں
وہ حملہ نہیں کرتے، شمالی وزیرستان اور اسلام آبادی وزیرستان میں کیا فرق
ہے، ہمارے وزیر محفوظ محلات میں رہتے ہیں وہ بھی تو وزیرستان ہی ہے دہشت
گرد تو بڑے بہادر ہیں بہادر وہ ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر آتے ہیں مرنے کے
لیے آتے ہیں کوئی نہیں مارتا تو خود مرجاتے ہیں-
ہماری حکومتیں ایسے سانحات کے لیے کچھ نہیں کرتی یہ طالبان دہشت گرد کون
ہیں یہ کیوں اپنی جان قربان کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں، یہ مسلمان
پاکستانی ہر گز نہیں ہوسکتے بلکہ یہ انسان ہی نہیں ہے، ان کی سرپرستی ملک
دشمن قوتیں بھارت کے ساتھ ہماری کچھ مذہبی جماتیں بھی کررہی ہیں مہران ائر
بیس اور کراچی ائر پورٹ پر حملہ کیوں ہوا ہے، یہ حکومت اور اس کے وزیروں کے
لیے شرمناک ہے ایسے لوگوں کو حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حکومت
کہیں نظر نہیں آرہی اس کے باوجود مذاکرات ہونگے، بھارت کے ساتھ دوستی کی
سیاست کم نہ ہوگی۔ عسکری قیادت کے ساتھ مفاہمت کی بات منافقت سے زیادہ نہیں
ہے۔ شہید ہونے والے کرنلوں کی نمازیں جنازہ پڑھ لینے سے بات صاف تو نہیں
ہوگی، پرویز رشید کہتے ہیں کہ دہشت گرد لڑنے نہیں پاکستان کو مفلوج کرنے
آئے تھے ایسے لوگ پاکستان کے وزیر بن کر بھی شرمانے والے نہیں ہیں-
پاک فوج کو سرحدوں کے علاوہ ملک کے کونے کونے میں لڑایا جارہا ہے، اس کی بد
ستور توہین کرنے والے میڈیا کی حمایت کی جارہی ہے، یہ پرویز رشید ہی تھے جو
کہتے تھے کہ ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ پر اب
دلیل والے کہاں ہیں، اب شاہد غلیل والے آپ کو بچانے آئے، آپ کے پاس امریکی
غلیل ہے جس میں بھارتی روڑے بھرے پڑے ہوئے ہیں، خواجہ آصف اپنے گریبان میں
جھانکیں وہ وزیر دفاع ہوکر کہتے ہیں ہم بھر پور جواب دیں گے دہشت گرد آئندہ
ایسی جرات نہیں کریں گے یہ جرات تو وہ کئی بار کرچکے ہیں، خواجہ صاحب آپ
کہاں رہتے ہیں دوسرے دن ہی دہشت گردوں نے ائر پورٹ کے ساتھ اے ایس ایف کے
دفتر کو نشانہ بنایا ہمارے جوانوں نے حملہ ناکام بنایا، پر خواجہ صاحب کی
بڑھکیں سننے والی اور لاجواب ہیں-
اس حملے میں ہمارے 20 سے زاہد جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور 10 دہشت
گردوں کو جہنم واصل کیا ایک جوان کی ماں روتے ہوئے میڈیا والوں سے پوچھ رہی
تھی کہ کبھی کسی حکمران کا بچہ مرتے دیکھا ہے تو پھر غریب کے بچے کیوں مرتے
ہیں، یہ دہشت گردوں کے لیے بھی بڑی شرم کی بات ہے ان کا بس بھی غریبوں پر
چلتا ہے، سنا ہے چیف سیکرٹری سندھ فائر بریگیڈ کی گاڑی سے گر پڑے بھائی
لوگوں کوئی ان سے پوچھے کہ آپ وہاں کیا کررہے تھے آگ تو ہمارے دلوں میں لگی
ہوئی ہیں، خون ہمارا جل رہا ہے اس آتش فشاں کو کون بجھائے گا، ہمارے میڈیا
نے یہ تو کہا کہ دہشت گردوں کے پاس بھارتی ساختہ اسلحہ تھا اور پھر کچھ
نہیں کہا،، |