جنرل وی کے سنگھ (سبکدوش) کے باغیانہ تیور نے نریندر مودی
کا غرور چکنا چور کردیا۔ وزیر مملکت سنگھ نےنامزد کمانڈر انچیف دلبیر سنگھ
کی مخالفت کیلئے جو الفاظ استعمال کئے ہیں خود وزیراعظم اور امیت شاہ اس کی
زد میں آجا تے ہیں ۔ وی کے سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’اگر کوئی (فوجی)
اکائی معصوموں کا قتل کرے ۔ڈکیتی میں ملوث ہو اور اس تنظیم کا سربراہ ان کو
تحفظ فراہم کرے تو کیا اس کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جائے؟ مجرموں کو
کھلا چھوڑ دیا جائے!‘‘۔ اس سوال کو اگر گجرات کے پس منظرپر چسپاں کیا جائے
تو وہ حرف بحرف نریندر مودی پر صادق آتا ہے۔ دلبیر سنگھ تو خیر اس زمانے
میں ڈیوٹی پرموجود ہی نہیں تھے جب یہ قابلِ مذمت ّ وارداتیں رونما ہوئیں
لیکن نریندر مودی نےتو وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نہ صرف گجرات قتل عام کی
نگرانیکی بلکہ اس کے بعد ریاستی انتخاب میں اس کا بھرپور سیاسی فائدہاٹھا
یا ۔ ایسے میں اگر چندافراد کے قاتلوں کو تحفظ دینے والا دلبیر سنگھ سہاگ
مجرم ہے تو ہزاروں کے قتل عام کا ذمہ دارنریندرمودی کاوزیراعظم ہونااور اس
کی وزارت میں وی کے سنگھ کی شمولیت ،اگر سیاسی منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جنرل وی کے سنگھ کو فی الحال شمال مشرقی صوبوں کا
قلمدان سونپا گیا ہے اور مذکورہ واقعات اسی علاقہ میں رونما ہوئے ہیں اس
لئے ان کی حقیقت جان لینا ضروری ہے؟ ۲۰ مارچ ۲۰۱۰ کو دیما پور میں تین
لاشیں ملیں اور اسے آپسی چپقلش کا نتیجہ قرار دے دیاگیا۔ اس واقعہ کے
تقریباًدوسال بعد۲۵ جنوری ۲۰۱۲ کو میجر روی کرن نے مشرقی کمانڈ ہیڈ کوارٹر
کو شکایت بھیجی اورفوجیوں پر اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا
کہ اس نے طعام گاہ کے پیچھے گولیوں کی آواز سنی تھی۔ اس شکایت کی ایک نقل
فوجی سربراہ وی کے سنگھ کو روانہ کردی گئی۔ جن لوگوں کواس معاملہ میں گواہ
بنایا گیا تھا ان سب نےجون ۲۰۱۲ میں اس کا انکار کردیا اس لئے شکایت خارج
کرکے تفتیش بند کردی گئی۔ اس کے بعد منی پور عدالت میں ایک عوامی شکایت
داخل کی گئی جس میں جنرل دلبیر سنگھ پر اس فرضی انکاؤنٹر میں شامل ہونے کا
الزام لگایا گیالیکن جب عدالت کو بتلایا گیا کہ وہ ۲۰۱۰ میں وہاں نہیں تھے
تو ان کا نام ملزمین کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔
دوسرا ڈکیتی کاواقعہ ۲۰ دسمبر ۲۰۱۱کی رات کو جورہاٹ میں پیش آیا۔ اس میں
دلبیر سنگھ اور تین فوجیوں پر ایک ٹھیکیدار سرجیت گوگوئی کے گھر پرچھاپہ
مارنے کا الزام ہے۔ اس کی تفتیش ۲۹ دسمبر کو دلبیر سنگھ کے دفتر سے رجوع
کرنے کے بعد شروع ہوئی۔۳فروری کو مقامی عدالت نے اپنا کام ختم کیا اور کئی
فوجیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ گوگوئی نےاپریل کے اندر ہائی کورٹ سے رجوع
کیا۔اکتوبر میں فوج نےعدالت سے کورٹ مارشل کی یقین دہانی کرواکر مقدمہ اپنے
قبضے میں لے لیا۔اکتوبر ۲۰۱۳کوفوج نے حولدار تھاپا کو تین مہینے کی سزا
سنائی جو چرایا ہوا موبائیل استعمال کررہا تھا ۔مزید دو جونیر نوجوانوں کے
خلاف تادیبی کارروائی کی گئی۔ روبینہ کور نامی خاتون افسرکو جس کے
زیرنگرانی یہ کارروائی کی گئی تھی محض ڈانٹ لگائی گئی اور کمانڈنگ افسرسری
کمار چونکہ چھٹی پر تھے ان لئے اس کے تئیں صرف ناراضگی پر اکتفاء کیا گیا۔
سرجیت گوگوئی نے ایک ملاقات میں بتلایا کہ اس کی غیر موجودگی میں اس گھر پر
دہشت گردوں کے چھپے ہونے کا جھوٹا الزام لگا کرڈاکہ ڈالا گیااس میں سب سے
اہم ملزم روبینہ کو کوئی سزا نہیں دی گئی اور ایسا دلبیرسنگھ کو بچانے
کیلئے کیا گیا۔ ان فوجیوں نے اس کےگھر سے ڈیڑھ لاکھ روپئے اور زیورات بھی
چرائے تھےمگرفوج نے انہیں لوٹائے بغیر دھمکا کراس کی رسید حاصل کرلی۔
گوگوئی کے مطابق جورہاٹ تیزپورکا علاقہجس فوجی دستے کے تحت آتا ہے وہ
روبینہ کور کے دستے سے مختلف ہے۔ فوجیوں کو جورہاٹمیں تفتیش سے قبل پولس کو
بتانا پڑتا ہے جو نہیں کیا گیا ۔ گوگوئی یہ بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں
ہے کہ روبینہ کا فوجی دستہ کربی آنلونگ ، گولا گھاٹ نامی دو ضلعوں سے گزر
کر جورہاٹ کارروائی کرنے کیلئے پہنچ جائے اور ان کے کمانڈر دلبیرسنگھ کو اس
کا علم نہیں ہو ؟اسی کے ساتھ روبینہ کورکو بچانے کا الزام تو ان پر لگتا ہی
لگتا ہے ۔ اس واقعہ نے شمال مشرقی ہندوستان میں دہشت گردی کے نام پر ہونے
والی فوجی لوٹ مار کو طشت ازبام کردیا ہے ۔ جنرل وی کے سنگھ نے انہیں
واقعات کے سبب دلبیر سنگھ پر تادیبی کارروائی کی اور ان کی ترقی پر روک
لگادی جسے ان کے بعد آنے والے جنرل منسوخ کردیا۔
جنرل وی کے سنگھ کی نظر میں توجنرل دلبیر سنگھ مجرم ہو سکتے ہیں لیکن
نریندر مودی کیلئے نہیں اس لئے کہ نریندر مودی نے نرودہ پاٹیہ میں معصوم
عورتوں اور بچوں کا قتل عام کروانے والی مایا کوندنانی کو وزیر فلاح و
بہبودبرائےخواتین و اطفال بنادیا تھا ۔ ریاستی حکومت کے تمام تر بچاؤ کے
باوجود گجرات کی عدالت نے اس مجرم تسلیم کرلیا اور ۳۰ سال کی سزا سنادی۔
گجرات سے تڑی پار امیت شاہ وزیراعظم کا دست راست ہے ۔ عشرت جہاں اور پرجا
پتی فرضی انکاؤنٹرکیس میں ملوث ضمانت پر رہا پولس افسران کو بی جے پی کی
ریاستی حکومتوں نے حال ڈیوٹی پر بلا لیا ہے ایسے میں وی کے سنگھ کا موقف اس
کلین چٹ والے مفروضے کی دھجیاں اڑاتا ہے جس کی دہائی آئے دن بی جے پی والے
دیتے رہتے ہیں اس لئے کہ اسی طرح کی کلین چٹ تو دلبیر سنگھ کی جیب میں بھی
ہے۔ وی کے سنگھ کی اس بغاوت سے نریندر مودی کو اس شعر کی مصداق سمجھ میں آ
گیا ہوگا کہ سارے ہندوستان کو گجرات سمجھ کر اس ماڈل میں ڈھالنے کی کوشش
کرنا ایک احمقانہ خوش فہمی ہے ؎
جب سے اپنے گھر کے بام و در سے نکلے ہیں
کیسے کیسے منظر، پس منظر سے نکلے ہیں
جنرل وی کے سنگھ کو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے متنازعہ کمانڈر ہونے کا
امتیاز حاصل ہے۔ انہوں نے نہ صرف دلبیر سنگھ پر کارروائی کی بلکہ اپنی
تاریخ پیدائش کا معاملہ لے کر یوپی اےحکومت کے خلاف عدالتِ عالیہ کا دروازے
پر دستک دی یہ اور بات ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ ان کے خلاف تھا لیکن بہرحال
ایسا پہلی بار ہوا تھا ۔وی کے سنگھ نے اودھیش کمار بدعنوانی کے الزام میں
کورٹ مارشل کرایااور ایک سابق فوجی افسر پرخودکو ٹھیکے کے عوض رشوت کی
پیشکش کا الزام لگایا۔سبکدوش ہونے کے بعدوہ انا ہزارے کی بدعنوانی کے خلاف
تحریک میں بھی شامل ہوئے۔ اس دور میں چونکہ وی کےسنگھ کی لڑائی کانگریس کے
خلاف تھی اسلئے بی جےپی بغض معاویہ میں ان کی حمایت میں آگئی اور اقتدار
کی لالچ میں انکو انتخاب لڑا دیا لیکن وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ کل کو جب
ہوا کا رخ بدلے گا تو وہ خود اس طوفان کی زد میں آجائیں گے۔
اس بار طوفان اس طرح آیا کہ پارلیمانی اجلاس کےدورا ن لیفٹنٹ جنرل روی
دستانہ کا حکومت کے خلاف ۲۰۱۲ میں قائم کردہ مقدمہ زیر سماعت آگیا۔جنرل
روی دستانہ کا الزام ہے کہ گزشتہ حکومت نےطرفداری کرتے ہوئےسنگین الزامات
کے باوجودجنرل دلبیر سنگھ کو سربراہ نامزد کیا ہے۔ دستانہ نے اپنے حق میں
جنرل وی کے سنگھ کی جانب سے دلبیر پر لگاے جانے والے قتل اور ڈکیتی کے
الزامات کو پیش کیا۔ وزارتِ دفاع نے اس کے جواب میں اپنا پرانا حلف نامہ
داخل کردیا جس میں جنرل سنگھ کے اقدامات کو غیرقانونی، مبالغہ آمیز اور
منصوبہ بند تھے۔ چونکہ جنرل سنگھ خود حکومت میں شامل ہیں اس لئے گویا یہ
حلف نامہ ایک وزیر کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہوگیا ۔ اگر جنرل سنگھ عام
سیاستدانوں کی طرح ماضی کی اس وارادت کو بھول کر اپنی کرسی سے چپکے رہتےتو
کانگریس والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا لیکن انہوں نے آبیل مجھے اور میری
سرکار کو مار کی مصداق متنازعہ ٹویٹ کردیا ۔ پھر کیا تھا کانگریس نے اس حلف
نامہ کی بنیاد پر وزیرموصوفکو برخواست کرنے کا مطالبہ کردیا اور مودی سرکار
کھائی اور آگ کے درمیان پھنس گئی۔ اب وہ بیک وقت کمانڈر چیف کی حمایت
کررہی ہے اور اپنے وزیر کو بچارہی ہے جس کے نتیجے میں وہ دونوں تو محفوظ
ہیں لیکن حکومت کی ساکھ داوں پر لگی ہوئی ہے۔ وی کے سنگھ کے ٹویٹ پر
کانگریسی حملے کے بعد مرکزی حکومت کی حالتِ زار پر اشفاق احمد کا یہ شعر
یاد دلاتا ہے کہ ؎
کس سے جنگ لڑیں گے کس کو فتح کریں گے ہم
دشمن کے ہتھیار خود اپنے گھر سے نکلے ہیں
اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وی کے سنگھ نے اس جرأتِ
رندانہ کا مظاہرہ کیوں کیا ؟ اور مودی نے اپنی اس ذلت کو برداشت کیوں کرلیا
؟ اس کی وجہ صاف ہے وی کے سنگھ کو نہیں لگتا کہ وہ مودی کی مہربانی سے
انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں یا انہیں وزیر بناکر کوئی احسان کیا گیاہے۔ اس
بار سب سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے نریندر مودی نے کامیابی توحاصل کی لیکن
وارانسی میں نہیں بلکہ اپنے گڑھ بڑودہ میں ۔ وارانسی میں مودی نے جس فرق سے
کامیابی درج کرائی اس سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے وی کے سنگھ نے غازی آباد
میں کامیاب ہوئے جبکہ غازی آباد عاپ کے گڑھ دہلی سے متصل ہے۔ وہاں اروند
کیجریوال کا گھر ہے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مودی کادست راست ارون
جیٹلی تمام ترکوشش کے باوجوداس امرتسر سے کامیاب نہ ہوسکا جہاں سےسدھو جیسا
مسخرہ بغیر کسی لہر کے کامیاب ہوگیا تھالیکن اس کے باوجود وی کے سنگھ کو
وزارتِ دفاع کی ذمہ داری دینے کے بجائے جس کے وہ بجا طور پر حقدار ہیں شکست
خوردہ ارون جیٹلی کو نہ صرف وزیر خزانہ بلکہ کارگزاروزیر دفاع بھی بنا دیا
گیا ۔جہاں اس طرح کی بے اعتمادی اور ناانصافی کی فضا ہو اس میں وی کے سنگھ
جیسے لوگوں کے غم و غصے پر حیرت کا اظہار چہ معنی دارد ۔
نریندر مودی کے اند رپائی جانے والی انانیت کے چلتے اس طرح کے مزید واقعات
کی توقع کرنا بیجا نہیں ہے۔ وزیراعظم کے دفتر سے حال میں تمام وزارتوں کویہ
فرمان جاری ہوا ہے کہ پی ایم او سے بھیجی جانے والی ہر فائل کا ۲۴ گھنٹوں
کے اندر جواب آنا لازمی ہے اور اس پر متعلقہ وزیر کی توثیقضروری نہیں ہے ۔
اس میں وزراء کی توہین اپنی جگہ ہے لیکن اس طریقۂ کار ایک نقصان یہ ہے کہ
اگر کسی معاملے میں تنازعہ کھڑا ہو جائے تو وزیر اپنا ہاتھ جھٹک کرالگ ہو
جائیگا اور ساری ذمہ داری وزیراعظم پر آجائیگی۔ اس فیصلے کی حکمت یہ
بتلائی گئی ہے کہ اس سے کام میں تیزی آئیگی لیکن اس کے برعکس وزراء کو
تیزی دکھانے کیلئےوزیراعظم کی توثیق کے بغیر فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
اس طرح گویا اختیارات لئے تو گئے ہیں لیکن دئیے نہیں گئے۔
بی جے پی کو جب سے نریندر مودی کی قیادت میں اکثریت حاصل ہوئی مسلمانوں کے
اندر پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا ہوا
ہے۔ محسن شیخ کی شہادت نے اس میں اضافہ کیا لیکن اسی کے ساتھ دہلی سے متصل
نوئیڈا میں بی جے پی رہنما وجئے پنڈت کو اروند شرما نے قتل کروادیا اور
مظفر نگر میں بی جےپی کے نائب صدراوم ویر سنگھ کو دن دہاڑے گولی مار کر
ہلاک کردیاگیا۔یہ واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ بی جے پی خود اپنے لوگوں
کی حفاظت کرنے میں بھی ناکام ہے۔ خیر سے سیاسی مفاد کے پیش نظر فی الحال اس
قتل و غارتگری کیلئے ملائم سنگھ کو موردِ الزام ٹھہرا یا جارہاہے لیکن اگر
بی جے پی کی ریاستی حکومت میں یہ ہونے لگے توخدا نا خواستہ اچانک انڈین
مجاہدین یالشکر کےنام پر فرقہ وارانہ کشیدگی اوربے قصور مسلم نوجوانوں کی
گرفتاریاں شروع ہو سکتی ہیں خدا کرے ایسانہ ہو۔
آرایس ایس کے نیم عسکری تنظیم ہونے کا دعویٰ اپنی جگہ ہےاس کی شاکھاؤں
میں ہر صبح برسوں سے ہوا میں لاٹھی چلائی جارہی ہےلیکن اس کے بغل بچہ بی جے
پی پہلی مرتبہ خود اپنے بل بوتے ایوانِ پارلیمان میں اکثریت حاصل ہو جانے
کے بعد یہ قابلِ شرم باتہے کہ تاریخ میں پہلی بار قوم ایک قائمقام وزیر
دفاع سے کام چلا رہی ہے۔ کیا سنگھ پریوار ملک کو ایک قابل وزیردفاع دینے کا
اہل بھی نہیں ہے اور وزیراعظم کو ڈیڑھ سو کروڈ عوام میں ایک آدمی بھی ایسا
نظر نہیں آتا جس کو یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ دراصل یہ نریندر مودی کے اندر
پائی جانے والی خوداعتمادی کی کمی کا بلاواسطہ اظہار ہے ۔نریندر مودی کی
قوت فیصلہ پر رطب اللسان ذرائع ابلاغ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے
کہ واضح اکثریت کے باوجود یہ اہم قلمدان کسی کو کیوں نہ دیا جا سکا ؟ ایسا
لگتا ہے کہ وزیراعظم کو لاحق اقتدار کا خوف مسلمانوں کے اندر پائے جانے
والے عدم تحفظ کے احساس سے فروتر ہے ۔اس کی وجہ صاف ہے انسانجس شہ سے جس
قدر شدیدمحبت کرتا ہے اسے اس کوگنوانے کا اندیشہ اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔
اقتدارکے جنون میں گرفتار حکمرانوں پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
عجب وحشت میں ہم سب جی رہے ہیں
عجب ڈر ہے کہ ڈر دکھتا نہیں ہے
سیاستداں کی ترجیحات اور خوف نیز فوجی کی نفسیات اورذہنیت مختلف ہوتی
ہیں۔جنرل وی کے سنگھ ویسے تو ہریانوی ہیں لیکن ان کی جائے پیدائش پونے ہے۔
سبکدوشی سے قبل انہوں نے پونے کی کھڑک واسلہ چھاؤنی میں الوداعی خطاب کیا
تھاجس سے ان کے اندازِ فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جنرل سنگھ نے فوجیوں
کو مخاطب کرتے ہوئےکہا تھا ’’ہم جس پیشے میں ہیں اس سے مقدس اور بہتر کچھ
اور نہیں ہے ۔اس کیلئے اخلاقی اور معنوی اقدار کا بہترین امتزاج درکار
ہے۔آپ کبھی بھی اپنے ذاتی فائدے کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر حاوی ہونے کی
اجازت نہ دیں ‘‘ اس پس منظر میں جنرل دلبیر پر لگائے جانے والے قاتلوں و
ڈکیتوں کے تحفظ کے الزام کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا
ہوتا ہے کہ کیا وزیر بن جانے کے بعد وہ اپنے ارشاد’’حق کا ساتھ دینا مشکل
اور باطل کی حمایت آسان ہے۔ ‘‘ اور سرکاری جبرو استبداد کے کے خلاف اپنے
بیان’’گاندھی جی نے کہا تھا ناانصافی کا کرنا اور سہنا دونوں یکساں طور پر
غلط ہے۔‘‘پر قائم رہ سکیں گے؟
جنرل سنگھ نے سابق حکومت اور وزیر دفاع کے بارے میں تو یہ کہا تھا کہ
’’وزارت دفاع اور ہمارے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ فوج حکومت کا حصہ
ہے۔ ہم ایک ہیں ۔ ہم جو کہتے ہیں وہ سنا جاتا ہے۔ضابطوں کے سبب جو تاخیر
ہوتی ہے اس سے کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی نہیں سنتا لیکن یہ
درست نہیں ہے۔ ہمارے وزیر دفاع(انٹونی) ایک صاف ذہن کے آدمی ہیں اور فوج
کی حمایت کرتے ہیں ۔‘‘ کیا وہ موجودہ حکومت اور حالیہ وزیر دفاع جیٹلی کے
بارے میں بھی یہی کہیں گے؟ وی کےسنگھ نے فوج کے بارے میں تو کہا تھا کہ وہ
’’ غیر سیاسی ، خالص سیکولر اور غیر جانبدار ہے۔‘‘ بی جے پی کی حکومت میں
وزیر بن جانے کے بعد کیا وہ خود اپنے بارے میں یہی دعویٰ کر سکیں گے
۔سبکدوش ہونے کے بعدجنرل وی کے سنگھ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنا چاہتے تھے
مگراسے بھول کروہ انتخابی سیاست میں چلے آئے اوروزیر بن کر جنرل دلبیر
سنگھ سے اپنی پرانی دشمنی کا دکھڑا لے بیٹھے۔اگر یہی رویہ رہا تو ان کا
خواب’’ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک فوجی کی حیثیت سے یاد کیا جائے جس نے
فوجی اقدار کو سربلند کیا‘‘ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا اس لئے انہیں چاہئے
کہ بقول شاعر اس خواب کو بھلا دینا چاہئے ؎
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خوابوں کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خوابوں کا کیا ہے
شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اورپھر بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خوابوں کا کیا ہے |