لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا، عالمی کرکٹ
ٹیموں نے پاکستان کا بائیکاٹ کردیا۔ نانگا پربت پر ایک کوہ پیما ٹیم پر
حملہ ہوا تو عالمی سیاحوں نے پاکستان سے رخ پھیر لیا، اب کراچی ائر پورٹ پر
حملہ ہوا ہے اور عالمی پروازوں نے پاکستان کو خدا حافظ کہہ دیا ہے، اب کہنے
کو اور کچھ لکھنے کو کیا باقی رہتا ہے، دل غموں سے چور ہے دل میں آگ لگی
ہوئی ہے آنکھیں نم ہے، وزیر اعظم کے بھائی چین میں میٹرو ٹرین کے منصوبے کو
تکمیل تک پہنچا چکے تھے کہ سنکیانگ کے دارلحکومت میں صبح سویرے دہشت گردی
کا ارتکاب کیا گیا۔ اس کی ذمے داری اسی گروپ نے قبول کی جس نے کراچی ائر
پورٹ حملے کی دہشت گردی کا ذمہ اٹھایا ہے۔ اس تنظیم کے دو روپ ہیں ایک ترک
اسلامی تحریک دوسرا ازبک اسلامی تحریک ، ان جنگجووں کا تعلق ایسے علاقے سے
ہے جہاں سے عالمی فاتحین نے جنم لیا تھا۔ تاتاری اور مغل حکمرانوں نے بچھرے
ہوئے طوفان کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
کیا ازبک اور ترک تحریک والے اسی دور کا احیا چاہتے ہیں۔
ان کا مقابلہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ہے، دنیا کی ہر آزاد خود مختار
جغرافیائی ریاست سے بھی، چین ان کی شر پسندیوں کو دیکھ رہا ہے اور بھارت
خوف کا شکار ہے، ان کے راستے میں ایک رکاوٹ باقی ہے وہ ہے پاکستان کی مسلح
افواج، پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی مانی ہوئی بہادر پروفیشنل افواج کا
درجہ رکھتی ہیں۔ یہ ایٹمی اسلحے سے بھی لیس ہیں اور قربانی کے لازوال جذبے
سے بھی سرشار ہیں،
میرے فوجی جواں جراتوں کے نشاں،
سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کو یہ ترک ازبک اور نمک حرام افغانی کس جرم
کی سزا دے رہے ہیں، انہوں نے پاک فوج کو رگیدنے کا ایجنڈا کہاں سے ادھار
لیا ہے، روس کے خلاف جہاد میں پاکستان نے چالیس سے ساٹھ لاکھ افغانی
مہاجرین کا بوجھ اٹھایا، آج بھی ان کی تعداد ستائیس لاکھ سے کم نہیں۔ اس کے
ساتھ ساتھ ہر رنگ و نسل کے مجاہدین کو مادر وطن نے اپنی آغوش میں پناہ دی
اپنا بھائی سمجھ کر انسانیت کے ناطے، مگر آج یہ افغان پناہ گزین دہشت گردوں
کے روپ میں مادر وطن کے دشمن ہیں، یہ نمک حلال نہیں نمک حرام قوم ہیں افغان
حکومت پاکستان کی دشمن ہیں افغان میڈیا پاکستان کے خون کا پیاسا ہے یہ جس
ہانڈی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں، ازبک چیچن قازق تاجک جہادی بھی
چالیس برس پاکستان کا رزق کھانے باوجود اس مملکت خدا داد مادر وطن کی تباہی
کے درپے ہیں، اب ذرا بھر بھی شک نہیں ہونا چاہیے بھارت ان کی پشت پر ہے اور
امریکہ بھی ہمارے ہاتھ پیروں کو توڑنے کے لیے ان دہشت گردوں کو بھر پور
طریقے سے استعمال کررہا ہے۔
امریکی منافقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اجزائر تیونس مصر
اور شام میں وہ اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ کی مکمل پشت پناہی کررہا
ہے۔ الجزائر میں کرنل قذافی کو نیٹو کے طیاروں نے نشانہ بنایا، بھارت میں
مودی کی حکومت بننے سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا گھنائونا عمل تیز
ہوگیا ہے،
کراچی کے ائیر پورٹ سے ازبک دہشت گردوں کو کیا نقصان پہنچ رہا تھا کچھ بھی
تو نہیں تو پھر کیوں وہ ہماری ملکی املاک اور ہماری جانوں کو نقصان پہنچا
رہے ہیں بھائی لوگوں۔ ان ازبکوں نے امریکیوں سے انتقام لینا تھا جنہوں نے
ڈرون طیاروں سے ازک اسلامی تحریک کا صف اول قیادت کا صفایا کردیا تھا،
ہزاروں ازبک افغانی امریکیوں کے خلاف لڑتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جو
باقی بچے وہ فاٹا میں گھس گئے، یہاں بھی امریکی ڈرون نے انہیں نہیں چھوڑا
مگر اس میں کراچی کا کیا قصور تھا۔ ازبکوں کے ملک پر شروع ہی سے اسلام
کریموف مسلط ہے اسے پاکستان کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے، وہ اپنے ملک کو تو
زیرو زبر نہیں کرسکی مگر پاکستان کو تاراج کرنے پر تلی ہوئی ہے اور وہ بھی
سولہ اٹھارہ سال کے بانکے لڑکوں کے ہاتھوں ان کی تصویریں ہر ایک نے دیکھ لی
ہیں ایسے کچے ذہن کے نوجوانوں کو خود کش بمبار کے طور پر تباہی پھلانے کے
لئے استعمال کیا جاسکتا ہے وہ پاک فوج کے سامنے چند گھنٹے بھی نہیں ٹھہر
سکتے، قدم جما کر لڑنا ان کا مقصد نہیں وہ تو بس افرا تفری پھیلانا چاہتے
ہیں۔ پاکستان کو تار عنکبوت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
تاکہ کوئی چینی برطانیہ امریکی عرب سرمایا کار پاکستان کا رخ نہ کرسکے،
ہماری حکومت بظاہر یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ
کاری لا رہی ہے،روز فتیے کٹ رہے ہیں سنگ بنیاد رکھے جارہے ہیں، ایم او یوز
پر دستخط ہورہے ہیں، میٹرو ٹرین کے خوشنما خواب دکھائے جارہے ہیں، لیکن
دوسری طرف لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں
وہ امن کے لیے ایک اور موقع ایک اور موقع کی گردان رہی ہیں، کوئی ازبکوں سے
پوچھے کہ یہ کیا چاہتے ہیں، کیا دو شنبے کا اقتدار اسلام آباد پر قابض ہونا
چاہتے ہیں یا یہیں ڈیرے لگانے کے خواہاں ہیں، اس صورت میں ان ظالمانوں کو
کیا ملا سوائے تباہی رسوائی کے نہ خدا نہ وصال صنم وہی افغانستان جہاں تین
عشروں سے جنگ و جدل جاری ہے-
ملک کی تقدیر یا تو حکومت کے ہاتھ میں ہے یا دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہے جو
بزعم خویش جہاد کے علم بردار ہیں، امریکہ پہلے انہیں خوب مارتا ہے پھر ان
کے لیے خطہ خالی کرجاتا ہے عراق کو القاعدہ نے تسخیر کرلیا۔ اب ہمارے یہاں
بھی یہ بحث چل رہی ہیں کہ ہماری فوج 1971ء کی طرح سرینڈر کرکے اپنی جانیں
بچا لے ورنہ ایک ایک کرکے خودکش بمباروں کا نشانہ بنے۔
ہماری فوج ایسا کرنا تو ہہت دور کی بات ہماری مسلح افواج ایسا سوچ بھی نہیں
سکتی اس دھرتی کا کوئی فرزند سرینڈر پر سمجھوتہ بھی نہیں کرسکتا، کیا ان
دہشت گردوں ازبکوں نے ہماری مسلح افواج کو اعراقی ایرانی یا افغانی فوج
سمجھ رکھا ہے۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بدرجہا
بہتر ہے، سارا ملک شہیدوں کے خون سے جگمگا رہا ہے، ان کے جذبوں کی خوشبو سے
مہک رہا ہے، شہیدوں نے اس قوم کو حیات تازہ سے سرفراز کیا ہے سڑکوں پر
ڈیوٹی پر ڈیوٹی پر مامور پاک فوج کے جوانوں کو یا انٹر نیٹ کی تصویروں پر
دیکھ کر ہر پاکستانی کا ہاتھ خود بخود سلامی کے لیے ماتھے کو جا چھوتا ہے،
دل بے اختیار جھوم اٹھتا ہے، یہ کالم لکھتے لکھتے آپریشن ضرب عضب شروع ہونے
کی اطلاعات موصول ہوگی، پوری قوم نے اس آپریشن ضرب عضب کا خیر مقدم کیا ہے،
اب ایک ایک دہشت گرد کو چن چن کر ٹھکانے لگانا ہوگا، بھارت ہماری سرحد پر
باڑ لگا چکا چین نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہماری سرحد پر بھی دیوار کھڑی کی
جائے، ہمیں بھی ڈیورنڈ لائن پر سد اسکندری کھڑی کردینی چاہئے آج یہ دیوار
سیمنٹ اور پتھروں سے کھڑی کی جاسکتی ہے ذرا دیر ہوگئ تو اس میں ہماری خون
آلود لاشیں ہوگئ ۔ آپریشن ضرب عضب جہاد عظیم ہیں، انشااللہ فتح یابی میرے
جوانوں کا مقدر ہیں، نعرہ تکبر اللہ اکبر |