بالآخر وہی کچھ ہوا دور اندیش شخصیات جس کا خدشہ روز اول
سے ظاہر کر رہی تھےں، طاقت کی بجائے بات چیت کے ذریعے قیام امن کی تمام
کوششیں رائیگاں گئیں۔ ایک عرصے تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈھونگ رچاکر
عوام کو شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا رکھنے کے بعد وزیرستان میں”ضرب عضب“
کے نام سے باقاعدہ اور بھرپور آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج نے
اتوار کے روز اعلان کیا کہ شمالی وزیرستان میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز
کردیا گیا ہے، جو کہ مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف کیا جائے گا۔ آئی
ایس پی آر کے مطابق یہ آپریشن حکومت کی ہدایت پر شروع کیا گیا ہے۔ اطلاعات
ہیں آپریشن شروع ہونے کے بعد سے شمالی وزیرستان میں پاک فضائیہ کی کارروئی
جاری ہے، جس میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر
چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق آپریشن کے پیش نظر جڑواں شہروں اسلام آباد اور
راولپنڈی میں سیکورٹی خدشات کے باعث اڈیالہ جیل کے اطراف فوج تعینات کردی
گئی ہے۔ اڈیالہ، اٹک، جہلم، چکوال اور دیگر جیلوں کی سیکورٹی بھی ریڈ الرٹ
کرکے جیلوں کو فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی سمیت تمام بڑے
شہروں میں ریڈ الرٹ کردیا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن
کا فیصلہ وقت کی ضرورت تھی اور ”دہشت گردوں“ کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی جائے
گی۔ فیصلہ کن جنگ کی ابتدا ہوچکی ہے اور دشمنوں کے منطقی انجام تک آپریشن
جاری رہے گا۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کے اجلاس
میں آپریشن کی منظوری دی تھی، وزیراعظم نے حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ
آخری ”دہشت گرد“ کے خاتمے اور قیام امن تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ ذرائع کے
مطابق وزیراعظم نواز شریف آپریشن کی منظوری دینے کو تیار نہیں تھے، ان کو
خدشہ تھا کہ اگر وزیرستان میں آپریشن کیا گیا تو اس کا سیاسی طور پر مسلم
لیگ (ن) کو بے حد نقصان ہو سکتا ہے، لیکن پھر کچھ واقعات اور مقتدر قوتوں
کے دباﺅ پر اس آپریشن کی منظوری دینے پر رضامندی ظاہر کرنا پڑی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حالات میں ملک پر آپریشن کے منفی اثرات مرتب
ہو سکتے ہیں۔ انتظامات کیے بغیر شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ حیران
کن ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک بے شمار بحرانوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے،
وزیرستان میں آپریشن شروع کردینا ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
حالات و واقعات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وزیرستان آپریشن کی کامیابی کے
امکانات انتہائی کم ہیں۔ اس سے پہلے بھی متعدد آپریشن ہوچکے ہیں، لیکن کسی
میں بھی فوائد کی بجائے نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔ راہ راست، راہ نجات اور
کوہ سفید جو کہ سوات اور مالا کنڈ، جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی میں کیے
گئے تھے، کیا ان سے سوات، ملا کنڈ ڈویژن، جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی
میں امن قائم ہو گیا ہے؟ نہیں۔ اگر یہ آپریشن بھی ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے
اثرات کیا ہو ں گے اور کتنے خطرناک ہو ں گے، اِس کا تصور بھی محال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے ہونے والے آپریشنز کا نقصان ہمیشہ بے گناہ عوام
کو ہی ہوتا ہے، فوج جن کے خلاف آپریشن کرنا چاہتی ہے وہ تو آپریشن سے پہلے
ہی محفوظ مقامات تک پہنچ جاتے ہیں، جبکہ نشانہ ہمیشہ بے گناہ عوام ہی بنتے
ہیں۔ غیر ملکی میڈیا سمیت متعدد ذرائع یہ بتا چکے ہیں کہ طالبان کی اہم
شخصیات محفوظ مقامات میں منتقل ہوچکی ہیں، بعد میں عوام ہی پیچھے رہ گئے
ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ان میں سے بہت سے بمباری کی زد
میں بھی آرہے ہیں، دوسری جانب اس آپریشن سے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا
ہوگئی ہیں، وزیرستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد سخت گرمی اور مشکلات جھیل کر
نقل مکانی کرنے پر مجبور ہے۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کی شام سے علاقے میں
کرفیو نافذ ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد گھروں کے اندر محصور ہیں، جبکہ
بے گھر افراد کے لیے تاحال کوئی باقاعدہ کیمپ بھی قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آپریشن کے اعلان کے ساتھ ہی
مقامی باشندوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ شمالی وزیرستان میں گزشتہ ماہ
ہونے والی فضائی کاروائیوں کے بعد مقامی لوگوں نے علاقے سے نقل مکانی کا
سلسلہ شروع کیا تھا۔ بیشتر بے گھر افراد قبائلی علاقے سے متصل خیبر پختون
خوا کے ضلع بنوں اور آس پاس کے شہروں کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ بنوں میں
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک کوئی ساٹھ ہزار افراد گھر بار چھوڑ کر خواتین اور
بچوں سمیت محفوظ مقامات پر پناہ لے چکے ہیں اور کوئی چھ ہزار کے قریب افراد
نے سرحد پار کرکے افغانستان کے صوبے خوست میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں
کے ہاں پناہ لی ہے، تاہم لاکھوں افراد اب بھی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کی طرف سے ابھی تک بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کوئی
باقاعدہ متاثرین کیمپ قائم نہیں کیا گیا ہے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ایف
آر بکاخیل کے علاقے میں پناہ گزین کیمپ بنایا گیا ہے، لیکن مقامی لوگوں کا
کہنا ہے کہ وہاں بنیادی ضروریات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے
اس علاقے کی طرف ابھی تک ایک متاثرہ خاندان بھی نہیں جاسکا ہے۔ سرکاری
اہلکار اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ فنڈ کی عدم دستیابی اور سہولیات کی
کمی کے باعث متاثرین کیمپ میں کوئی نہیں جارہا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپریشن کرنا ہی ہے تو ٹھوس شواہد کی بنیاد
پر ان غیر ملکی شرپسند عناصر کے خلاف کیا جائے جو ملک میں شرپسندی پھیلا
رہے ہیں اور مختلف کاررائیوں میں ملوث ہیں۔ اگر یقینی طور پر اس آپریشن کا
نشانہ ایسے شرپسند عناصر ہی بنیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ آپریشن ملک کے
لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے، لیکن اگر آپریشن کی لپیٹ میں شرپسند عناصر کی
بجائے عوام آتے رہیں تو یہ ملک و قوم کے مفاد کی بجائے نقصان میں ہے۔ ایک
ایسے وقت میں جب پوری قوم اور آپریشن سے متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی
سیاسی جماعتیں اس آپریشن پر خدشات کا اظہار کر رہی ہیں، یہ آپریشن کس طرح
کامیاب ہوسکتا ہے؟ جے یو آئی (ف) کے مطابق اگر آپریشن ضروری ہے تو اسے
محدود ہونا چاہیے۔ اطلاعات ہیں کہ اس میں گناہ گار اور بے گناہ دونوں مارے
جارہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں وقتاً فوقتاً آپریشن جاری رہے ہیں، آپریشن سے
دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، کمی نہیں ہوئی۔ مفاہمت اور مذاکرات کے راستے
سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن
کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے شمالی وزیرستان میں طاقت کا استعمال کرنا تھا تو
پھر مذاکرات کا ڈھونگ کیوں رچایا۔ حکومت پر حیرانی ہے کہ شمالی وزیرستان
میں مذاکرات کرتی ہے تو کبھی آپریشن کردیتی ہے، حکومت مذاکرات کی بجائے
طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہے، جس سے ہمیشہ خرابیاں ہوتی ہیں۔ حکومت
غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس خوف کا اظہار
کیا گیا ہے کہ آپریشن کا نشانہ صرف معصوم لوگ بنیں گے۔ اس سارے معاملے میں
دہشت گردوں کے ساتھ کوئی نہیں، لیکن قبائلیوں کو ایک بار پھر بے گھر ہونا
ہوگا اور حکومت نے انھیں بالکل نظر انداز کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر
سراج الحق نے کہا ہے کہ” حکومت شروع ہی سے مذاکرات کے حوالے سے مخلص نہیں
تھی۔ یہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ملک کی سیاسی
قیادت اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ مشاورت کرتی۔“ پی ٹی آئی کے
سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ایک
مریضانہ مشورہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف ان گروپس کے خلاف کارروائی
کرے جو مذاکرات پر آمادہ نہیں تھے۔ تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک مختصر پیغام میں کہا ہے کہ کس قدر
شرمناک بات ہے کہ حکومت شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے سیاسی لیڈر
شپ کو اعتماد میں لینے میں ناکام ہوئی۔ جب عوام اور بااثر جماعتوں کی اس
آپریشن کو حمایت حاصل نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ فیصلہ قوم پر مسلط
کیا گیا ہے اور یہ سب کچھ اغیار اور بیرونی قوتوں کے دباﺅ پر کیا جارہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک طرف تو عوام اور بااثر جماعتوں کی حمایت نہ ملنے
سے اس آپریشن کی کامیابی کے آثار انتہائی کم ہیں اور معصوم عوام اس سے
زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب اس آپریشن سے پورے ملک کو خطرات
لاحق ہوگئے ہیں، طالبان وزیرستان سے نکل کر محفوظ مقامات میں منتقل ہوچکے
ہیں اور وہ پورے ملک میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے
ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جیٹ طیاروں کی
بمباری سے معصوم لوگ نشانہ بنے، ظلم کا ایک ایک باب محفوظ ہے، مؤثر جوابی
کارروائیاں مظالم کا بدلہ اور رد عمل ہوں گی۔ اب ایک ایسے وقت میں جب حکومت
کراچی ائیرپورٹ جیسے حساس مقام کی حفاظت نہیں کرسکتی، وزیرستان میں آپریشن
شروع کر کے اس کے رد عمل میں ہونے والے حملوں سے ملک و قوم کو کیسے محفوظ
رکھ سکتی ہے؟ |