بدقسمتی ہے کہ میں جب بھی ریاست کی خاطر شریفوں کی اس
منحوس حکومت کے حق میں کچھ لکھتا ہوں اس کے اگلے ہی روز یہ کچھ ایسا کرتے
ہیں کہ اپنے لکھے لفظوں پہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔قوم کو اس وقت اتحاد و
اتفاق کی جتنی ضرورت ہے اتنی کبھی نہ تھی۔قوم یکسو تھی بھی حتیٰ کہ عمران
خان بھی جو طالبان کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے اپنے کارکنوں کو
آپریشن کی حمایت کا واضح پیغام دے چکے تھے کہ اس حکومت کے اندر چھپے طالبان
کے حامیوں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں تحریک منہاج القرآن کے آٹھ کارکنوں کو
شہید کر کے نہ صرف ملی یکجہتی اور یکسوئی کو پارہ پارہ کیا بلکہ وزیرستان
میں مصروفِ عمل فوج کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپنے کی دانستہ کوشش کی۔ خبر
کے مطابق راناثناء اﷲ کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ طاہر
القادری کی وطن واپسی کو روکنے کے لئے ان کے اعلان کردہ احتجاج کوآہنی
ہاتھوں سے کچل دیا جائے۔انتظامیہ نے ملکی حالات کے پیشِ نظر اس آپریشن کی
مخالفت بھی کی لیکن دشمن کے ایجنڈے پہ عمل پیرا پنجاب کے وزیرِ قانون نے
بذاتِ خود ہر قیمت پر تمام روکاوٹیں روند دینے کا حکم دیا۔
شریفوں میں شرافت میاں شریف تک ہی تھی۔شریف چلا گیا اور اس خاندان کی شرافت
کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔اب یہ حکمران ہیں لیکن گلی کے کن ٹٹوں کی طرح ان
کا طرز عمل ہے۔ حکمران باپ کے جیسا ہوتا ہے۔وہ منقم مزاج نہیں ہوتا۔ہمارے
حکمران لیکن منتقم مزاج ہیں۔اپنی راہ میں آنے والی ہر چیونٹی کو بھی توپ سے
مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔کمینے آدمی کی نشانی ہے کہ وہ کمزور کو دبانے کی
کوشش کرتا اور طاقت ور کے تلوے چاٹتا ہے۔ماڈل ٹاؤن میں ان کی وحشت و بر
بریت اور مودی سرکار سے ان کی والہانہ محبت ان کے کردار کی اس جہت کی طرف
اشارہ کرتی ہے۔ ملک بھی یہ اتفاق فونڈری کی طرح چلا رہے ہیں۔سنا ہے کہ
مخالف مزدوروں کو اس فونڈری کی بھٹی میں ڈال دیا جاتا تھا۔طاقت انسان کو
کرپٹ کرتی ہے اور اندھی طاقت بالکل اندھا۔بد معاش خاندان اس ملک میں لمیٹیڈ
کمپنی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا۔اب یہ ہمارے گلے گھونٹے کے
درپے ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں شہید کئے جانے والے سارے شہیدوں کو منہ سر اور گلے
پہ گولیاں لگیں۔پولیس کبھی ٹانگ سے اوپر فائر نہیں کرتی۔ اس کی یہ تربیت ہی
نہیں ۔یہ پولیس کی موجودگی میں گاڑیاں توڑنے والے گلو بادشاہ جیسے غلاموں
کی کارستانی ہے۔ آپ کسی نفسیات دان سے پوچھ لیں وہ میری بات کی گواہی دے گا
کہ اس طرح کی فائرنگ اندر کے انتقام اور نفرت کو ظاہر کرتی ہے۔
شریف خاندان نے بلاشبہ اپنی حفاظت کے لئے کتے پال رکھے ہیں۔بد قسمتی سے یہی
کتے اب بڑے بڑے حکومتی عہدوں پہ براجمان ہیں۔ جب بھی کوئی شریف کسی کو سبق
سکھانے کا ارداہ کرتا ہے یہ کتے اس پہ چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔پگڑی سے لے کے
جان تک لینے کی یہ وحشی طاقت رکھتے ہیں۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ
جانور نہ ملک کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی جان اور عزت نفس کی۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری بے وقت کی راگنی چھیڑنے کے بادشاہ ہیں
لیکن جمہوریت کے یہ نام نہاد بد بودار چمپیئن ایک طرف تو احتجاج کو ہر ایک
انسان کا حق اور اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف
احتجاج کرنے والے پر امن لوگوں پہ گولیوں کی بارش برساتے ہیں۔ کیا طاہر
القادری کے حامی انسان نہیں کیا وہ پاکستانی نہیں۔کیا انہیں اس لئے احتجاج
کا حق نہیں کہ شریف طاہر القادری سے ذاتی طور پہ متنفر ہیں۔کیا لاہور کی
انتظامیہ میں کوئی ایک بھی ایسا افسر نہیں جو امتحان کی اس گھڑی میں قومی
ملی یکجہتی کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے عقل اور شعور کی راہ اپناتا۔کیا
روکاوٹیں ہٹانا اتنا بڑامسئلہ تھا کہ جس کے لئے آٹھ جیتے جاگتے انسان سر
عام قتل کر دئیے گئے۔تحریک طالبان کا امیر فضل اﷲ برا ہے یا تحریک طالبان
کا یہ مشیر ثناء اﷲ۔وہ چھپ کے حملے کرتا اور عوام کے جان و مال کو تباہ
کرتا ہے جبکہ پنجاب حکومت میں بیٹھا اس کا ساتھی ثناء اﷲ جس کی طالبان کے
ساتھ ہمدردی اور تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور نہ ہی اس کی فوج اور آئی
ایس کے ساتھ نفرت کسی سے پوشیدہ ہے ۔یہ بظاہر تو طاہر القادری کے انقلاب کو
کچلنے کی کوشش ہے لیکن دراصل یہ وزیرستان میں مصروف کار فوج کی پیٹھ میں
چھرا گھونپنے کی دانستہ کوشش ہے کہ یکسو اور متحد ہوئے بغیر کوئی قوم کبھی
جنگ نہیں جیتتی۔ پہلی دفعہ قوم ان دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے
یکسو تھی جسے طالبان کے حکومت اور نون لیگ میں چھپے ان کے ہمدردوں اور
دوستوں نے تباہ کر دیا۔
آزمائش کے اس لمحے میں شہید ہونے والوں نے اس ملک اور قوم کے لئے اپنی
جانوں کا نذرانہ دیا۔اقتدار کے سنگھاسن پہ بیٹھے یہ درندے نہیں جامتے کہ
پاکستان میں ایک آدمی کے شہید ہونے کا مطلب پورے ایک خاندان کی شہادت ہے۔اس
طرح کے واقعہ میں مرنے والا تو مر جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس دکھی خاندان
کے ساتھ جو بیتتی ہے وہ یہ پاکستانی لیڈر جاننے کے باوجود نہیں جانتے۔نہ ہی
انہیں اس کی کوئی فکر ہے۔ یہ تو سولہ سولہ لاکھ کے کتوں کے جلو میں رہتے
رہتے خود بھی انہی جیسے وحشی اور بے حس ہو گئے ہیں۔کتے کو بھی اپنے راتب سے
مطلب ہوتا ہے یا اپنے مالک کے دشمنوں پہ بھونکنے اور کاٹنے سے۔یہ بھی تو
یہی کچھ کر رہے ہیں۔حکومت سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ کوئی توقع یا کوئی
مشورہ دینا فضول ہے البتہ اس مشکل گھڑی میں طاہر القادری صاحب سے ہی یہ
درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اﷲ کے لئے اس ملک کے لئے اور
اپنے کارکنوں کی عزت جان و مال کی حفاظت کے لئے پرامن رکھیں۔انقلاب کے
ایجنڈے کو کچھ وقت کے لئے ملتوی کر دیں ۔اسلام اور ملک دشمنوں نے آپ کو ایک
سخت امتحان میں ڈال دیا ہے۔ایک طرف ان بے گناہ شہیدوں کی لاشیں ہیں اور
دوسری طرف ملک کی حفاظت ۔ لاشیں اٹھا کے طوفان بپا کیا جا سکتا ہے اور عام
حالات میں کرنا بھی چاہئیے۔آپ کے سارے مطالبات بھی مبنی بر حق ہیں لیکن خدا
را اس لمحے ملک کسی احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس ملک پہ رحم کریں یہ
ملک ہم سب کا ہے یہ باقی ہے تو انقلاب کی امید بھی باقی ہے یہی نہ رہا تو
کہاں کا نقلاب اور کیسی اصلاحات۔کتوں نے بہرحال کتے کی موت ہی مرنا ہوتا ہے
یہ کتے اپنی اندھی طاقت کے نشے میں خود ہی جہنم واصل ہوں گے۔ |