عراق لہولہان: ذمہ دار کون؟

یکے بعد دیگرے ایک ایک کرکے مسلم ممالک تباہی و بربادی کے انجام سے دوچار ہوتے جارہے ہیں. عیش وعشرت اور نفس پرستی کے شکار مسلم حکمراں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے کوسوں دور جاچکے ہیں. مغربی طاقتوں کی اسلام مخالف ساز ش کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔صدام حسین کے خاتمہ اور امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد عراق کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اندرونی کشمکش اب شیعہ سنی جنگ میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شدت پسند سنی تنظیم دولت اسلامیہ عراق وشام ’’داعش‘‘ کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکنے کے لئے ایران میں رضاکار شیعہ جنگجوؤں کی بھرتی کا عمل بھی جاری ہے۔ ایک خبر رسا ں ایجنسی’’فارس‘‘ کے مطابق ایران میں ہزاروں افراد کربلا نجف، بغداد اور سامراء کے مقدس مزارات کے دفاع کے نام پر بغداد جانے کو تیار ہیں۔ ’’داعش‘‘ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر اب مغربی طاقتیں بھی سرگرم ہوگئی ہیں۔ امریکہ کا جنگی بیڑا خلیج کی طرف روانہ ہوچکا ہے اس کے علاوہ تقریبا 275 فوجیوں کو امریکہ نے بھیجنے کاوعدہ کیا ہے ۔ دوسری طرف امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر عراقی لیڈر آپسی اختلافات کو ختم کرکے متحد ہوجائیں تو امریکی مدد ممکن ہے۔ واضح ہوکہ امریکہ نے عراق کو 12ملین ڈالر امداد دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تازہ اطلاع ہے کہ راجدھانی بغداد اور دوسرے شہروں کی جانب کئی دنوں سے جاری برق رفتار پیش قدمی کے بعد شدت پسندوں نے تیل کی سب سے بڑی کمپنی پر حملہ کردیا ہے اور فوج اس حملہ کو روکنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے ۔ دوسری طرف سرکاری دستوں نے بھی باغیوں کے قبضہ سے کئی علاقے اپنے قبضہ میں لے لئے ہیں۔ اس سے قبل باراک اوبامہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر یہی صورت حال رہی تو شدت پسندو ں کو پسپا کرنے کے لئے فوجی کارروائی پر غور کیا جاسکتا ہے۔ باراک اوبامہ کے اس اعلان کے بعد ہی امریکہ کا بحری بیڑا خلیج فارس کی طرف روانہ کردیاگیا ہے۔ امریکی وزیردفاع نے یہ اعتراف کیا ہے کہ بحری بیڑے کو خلیج کی طرف بھیجنے کا قدم شدت پسندوں کی تیزی سے دارالحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی کے جواب میں اٹھایاگیا ہے۔ اس جہاز پر سیکڑوں لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ عرب ممالک کی طاقت کو کمزور کرکے اور انہیں آپس میں الجھائے رکھنے کی مغربی ممالک کی سازش اب کامیاب ہوچکی ہے۔ امریکہ کی قیادت میں دوسرے مغربی ممالک ایک طرف اس پورے خطہ میں شدت پسندی کوفروغ دے رہے ہیں دوسری طرف شدت پسندی یادہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ڈرامہ بھی کرتے ہیں۔مصر، عراق اور لیبیا میں آج خانہ جنگی کی صورت حال ہے۔ مصرمیں بھلے ہی ’’السیسی‘‘ کامیاب ہوچکے ہیں لیکن وہاں کے عوام کی اکثریت انہیں قبول نہیں کرتی بلکہ وہ انہیں امریکہ کا پٹھو قرار دیتی ہے۔ امریکہ درحقیقت عرب ممالک کی تیل کی دولت پر قبضہ جمانے کے لئے اپنے اعتمادکے لوگوں کو برسراقتدار دیکھنا چاہتا ہے۔ کل تک مصر کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کے ساتھ خود امریکہ باغیوں کی مدد کررہا تھا مگر اب جب یہی باغی عراق میں پیش قدمی کررہے ہیں تو ان کی سرکوبی کے لئے بحری بیڑا روانہ کردیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عرب رہنما اب تک مغربی ممالک اور خاص طو رپر امریکہ کی سازشوں کو سمجھنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ابھی کل کی ہی بات ہے صدام حسین کے خاتمہ کے لئے سعودی عرب نہ صرف امریکہ کی مدد کررہاتھا بلکہ امریکہ نے اس کی سرزمین کا بھی استعمال کیااور اب جبکہ عراق پر شیعوں کو بالادستی حاصل ہوچکی ہے سعودی عرب اور اس کے دوسرے ہم خیال ممالک وہاں بھی خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کردینا چاہ رہے ہیں نور المالکی نے صاف لفظوں میں سعودی حکومت پر باغیوں کا ساتھ دینے کا الزام بھی عائد کردیا ہے دوسری طرف ایرانی صدر حسن روحانی یہ کہ کر پورے خطے میں اور مسلکی جنگ کی فضا قائم کردی ہے کہ ہم شیعہ قوم کی حفاظت کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں . یہ مہم امریکہ کے مفاد کے خلاف ہے اس لئے امریکہ ان شدت پسندوں کی سرکوبی پر آمادہ نظر آتاہے۔اس کی وجہ بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ عراق تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے رکن ممالک میں تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اسی لئے امریکہ وہاں اپنی پسند کی حکومت چاہتا ہے.

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164480 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More