کریم بخش صاحب‘ سابقہ فوجی تھے۔ بچوں کی شادی سے فارغ ہو
چکے تھے۔ اب دونوں میاں بیوی‘ اپنے آبائی مکان میں‘ زندگی بسر کر رہے تھے۔
شدید بڑھاپے کے باوجود‘ بڑے الرٹ اور رکھ رکھاؤ کی زندگی‘ بسر کر رہے تھے۔
جہاں کہیں‘ کوئی مسلہ اٹھتا‘ اس کے حل کے لیے‘ پیش پیش رہتے۔ ڈسپلن‘ ان کی
رگ وپے میں رچ بس گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا‘ کہ ڈسپلن کے بغیر زندگی متوازن
نہیں ہو سکتی۔ آج بےچینی‘ بےسکونی اور چھینا جھپٹی‘ ڈسپلن سے انحراف کے
باعث ہے۔ وہ صرف کہتے ہی نہیں تھے‘ بلکہ ان کی اپنی زندگی بھی‘ اسی کے تحت
گزری۔
سلام دعا والے تھے‘ کوئی کام بھی‘ پہلے کروا سکتے تھے۔ قطار میں کھڑے ہوتے‘
اور اپنی باری پر‘ کام کرواتے تھے۔ ٹائم کے بڑے پابند تھے۔ جہاں جانا ہوتا‘
مقررہ وقت پر جاتے۔ لوگ لیٹ جانے میں‘ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا‘
جو وقت کی قدر نہیں کرتا‘ کامیاب زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔ غرض ڈسپلن اور
ٹائم کے معاملہ میں‘ بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ وہ صرف کہنے کی حد تک نہ تھے۔
اور کوئی پرواہ کرے یا ناکرے‘ خود کوتاہی نہ کرتے تھے۔
صبح ٹھیک پانچ بجے آٹھ کر‘ جملہ حاجات سے فارغ ہو کر‘ بیٹھک کی صفائی کرتے۔
مجال ہے‘ گرد یا کوئی تنکا تک‘ کہیں نظر آ جاتا۔ پھر نہا دھو کر‘ دھلے اور
استری شدہ کپڑے پہن کر‘ بیٹھک میں جا بیٹھتے۔ یوں جلدی جلدی تیاری کر رہے
ہوتے‘ جیسے دفتر جانا ہو اور کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔ بیٹھک میں‘ میز کرسی
لگی ہوتی‘ جس پر کتاب‘ قلم اور ایک ڈائری پڑی ہوتی۔ لوگوں کا‘ ان کے پاس
آنا جانا رہتا تھا۔ کوئی‘ خط لکھوانے کے لیے آ رہا ہے‘ تو کوئی خط پڑھانے
کے لیے۔ لوگ‘ اپنے کاموں کے سلسلے میں‘ درخواستیں لکھوانے کے لیے آنے۔ غور
وفکر کے بعد‘ درخواستیں لکھتے۔ درخواست میں‘ کمال کے نقطے اٹھاتے۔ پڑھ کر‘
عقل دنگ رہ جاتی۔ وہ لوگوں کے یہ چھوٹے موٹے کام‘ مفت میں کرتے تھے۔ جب
فارغ ہوتے‘ کتاب پڑھنے بیٹھ جاتے۔ ان کے پاس‘ کتابوں کا اچھا خاصا‘ ذخیرہ
تھا۔ ان میں‘ شاعری‘ ناول اور تاریخ کی بھی کتابیں تھیں۔
اصولی باتوں پر سمجھوتا کرنا‘ انہوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ایک بار‘ وہ اپنے
بیٹے سے بھی خفا ہو گیے۔ ہوا یہ‘ کہ ان کا بڑا بیٹا‘ جو بڑا ماڈرن قسم کا
تھا‘ الله کا‘ اے چھوٹا ڈالتا تھا۔ انہوں نے اسے‘ کئی بار‘ الله کا اے‘ بڑا
ڈالنے کے لیے کہا۔ اس کے باوجود‘ وہ الله کا اے چھوٹا ڈالتا رہا۔ انہوں نے
اسے بڑے سخت انداز میں ڈانٹا۔
جوابا طاہر نے کہا: ابو بڑا ہو یا چھوٹا‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
کیا فرق پڑتا ہے‘ یہ تم کیا پکتے ہو۔ کیا الله اسم خاص نہیں ہے! اگر ہے تو
اصولی طور پر‘ اے بڑا ہی ڈالنا چاہیے۔ یہ اصول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دوسرا جو شخص‘ اپنے الله کی‘ عزت نہیں کرتا‘ گویا وہ اپنی عزت نہیں کر رہا
ہوتا۔ ایسا شخص‘ دوسروں کی خاک عزت کرے۔ زندگی کا ہر قرینہ‘ ادب سے وابستہ
ہے۔ ۔۔۔۔۔۔باادب بامراد‘ بے ادب بے نصیب۔
اس سے‘ انہوں نے‘ بول چال ہی بند کر دی۔ طاہر نے‘ توبہ کی اور اس گستاخی
کی‘ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ دیکھنے میں‘ یہ کوئی‘ ایسا بڑا معاملہ نہیں
لگتا‘ لیکن اپنی اصل میں یہ معاملہ معمولی نہیں ہے۔
ایک دن میں اور فتح خاں‘ ان کی بیٹھک میں جا بیٹھے۔ وہ مطالعہ کر رہے تھے۔
سلام کا جواب دینے کے بعد‘ بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ پیرہ ختم ہونے کے بعد‘
انہوں نے ہماری طرف بڑی شفقت اور پیار سے دیکھا۔ اس کے بعد‘ چائے پانی کا
پوچھا۔
ہم نے کہا: نہیں جناب‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
پھر مجھے مخاطب کرکے بولے: جی ماسٹر صاحب‘ آج آنے کی کیسے زحمت اٹھائی۔
سر ایک مسلے پر‘ آپ سے گفت گو کرنے کا‘ ارادہ لے کر حاضر ہوئے ہیں۔
تو پھر بلاتکلف کہیے
بچپن میں ایک کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیاسا کوا۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھا کرتے تھے۔ آج بھی‘ وہ
ہی کہانی‘ کورس میں شامل ہے۔
ماسٹر صاحب‘ یہ کہانی‘ ہمارے کورس میں بھی شامل تھی اور اس کہانی کو‘ کورس
میں شامل رہنا ہے۔ کوئی عام آدمی ہوتا‘ تو ہمیں ڈانٹ پلا کر کہتا‘ یہ بھی
کوئی سوال ہے۔ ہوش کے ناخن لیں‘ اور کوئی ڈھب کا سوال کریں۔ انہوں نے تو
دانش کے دریا بہا دیے۔ ان کی گفت گو میں‘ کمال کی روانی تھی۔ سچی بات ہے‘
میں عش عش کر اٹھا۔ مجھے اپنی کوڑ مغزی پر‘ دکھ ہوا۔ مجھے تو‘ ہفتے میں ایک
دو بار‘ ان کے پاس بیٹھنا چاہیے تھا۔
کہنے لگے تمہیں یا مجھے‘ گنتی کے سالوں سے‘ کوا پیاسا نظر آ رہا ہے۔ کوا تو
ہزاروں سال سے‘ پیاسا ہے اور اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ وہ اس مشقت میں پڑا آ
رہا ہے۔ الله تمیں‘ مزید سو سال زندگی دے۔ لکھ لو‘ سو سال بعد بھی‘ تم کوے
کو‘ پیاسا ہی دیکھو گے۔ محنت کے بعد بھی‘ کنکریاں چوسنے کو ملتی ہیں۔ وہ
بھی تو پیاسی ہوتی ہیں۔ پانی سے مالاقات کے بعد‘۔۔۔۔۔۔۔ اول خویش بعد
درویش۔۔۔۔۔۔ کے مصداق‘ وہ اپنی پیاس بجھائیں گی۔ اہل ثروت‘ گھڑا خالی کرکے‘
گیے تھے۔ گھڑا انہوں نے‘ خود سے نہیں بھرا تھا۔ گھڑا بھر کر لانے والا‘
کوئی اور ہوتا ہے۔ بھرنے والے کو‘ اس میں سے‘ ایک گھونٹ نہیں ملتا۔ حالاں
کہ پہلا استحقاق‘ اسی کا ہوتا ہے۔ استحقاق کا تسلیم نہ ہونا‘ ہی تو معاشی
ڈسپلن کو ڈسٹرب کرنے کے مترادف ہے۔
کیا شداد نے‘ اپنے خون پسینے کی کمائی سے‘ ارم تعمیر کیا تھا۔
نہیں‘ بالکل نہیں۔ کمائی تو لوگوں کی تھی۔
فرعون‘ جس ٹھاٹھ سے رہتے تھے‘ اس کا تصور بھی‘ آج کے حکم ران نہیں کر سکتے۔
مرتے تو‘ ناصرف عمارت تعمیر ہوتی ساز و سامان اور خدام بھی‘ ساتھ میں بند
کر دیے جاتے۔ کیا یہ سب‘ ان کی کمائی سے کیا جاتا تھا۔ انہیں‘ کوے کی پیاس
سے کوئی غرض نہ تھی۔
یونان کے برسر اقتدار طبقے کا‘ رہن سہن کھانا پینا اور شان و شوکت مثالی
تھی۔ یہ سب‘ انہیں ذاتی مشقت کا صلہ مل رہا تھا۔ کوے کو‘ گھڑا تب بھی خالی
ملتا تھا۔ یہ تو کافی پہلے کی باتیں ہیں‘ کیا شاہ جہاں نے‘ پلے داری کرکے‘
پیسے کمائے اور پھر اس سے‘ تاج محل تعمیر کیا۔ لوگوں کا مال تھا‘ اسی لیے
مال مفت دل بےرحم کی سی بات تھی۔
ملکہ نور جہاں‘ جسے جہاں گیر نے‘ اس کے خاوند کو‘ جنگ میں مروا کر‘ حاصل
کیا‘ اس کا مقبرہ اتنی لمبی چوڑی زمین پر تعمیر کروایا‘ جو خرچہ اٹھا‘ کیا
وہ اس کی محنت کی کمائی سے‘
اٹھا تھا۔ نورجہاں ہو‘ کہ ممتاز محل‘ نبی زادیاں تھیں‘ نبی زادی کی تو قبر
بھی بلڈوز کر دی گئی۔ پانی بھرنے والوں کو‘ ایک گلاس پانی نصیب نہ ہوا۔ کوے
کو کس طرح میسر آ جاتا۔ گورا ہاؤس اور اس کے گماشتوں کے‘ ایوان جا کر
دیکھو‘ پھر سوچنا‘ کوا آج بھی‘ ترقی یافتہ دور میں‘ کیوں پیاسا ہے۔
عام آدمی کے حصہ میں‘ جوٹھ میٹھ بھی‘ بڑے سرفہ کی آتی ہے۔ جوٹھ میٹھ پر‘
ایوانوں کے گماشتے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہاں سے‘ جو بچتا ہے‘ وہ لوگوں کو میسر
آتا ہے۔ ایسے حالات میں‘ کوے کی پیاس‘ کس طرح بجھ سکتی ہے۔ یہ سب‘ معاشی
ڈسپلن میں خرابی کے سبب ہوا‘ اور ہو رہا ہے۔
سر آپ جو فرما رہے درست فرما رہے ہیں۔ کیا یہ پیاس‘ آبادی بڑھ جانے کے سبب
نہیں ہے۔
ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور الله کے رازق ہونے سے‘ انکار کے مترادف ہے۔
ہر پیدا ہونے والا‘ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ
اس کا رزق‘ اس کے ساتھ نہ آئے۔ اس کا رزق ارم بنانے والوں‘ یا اس کا رزق
کھا کر‘ مر جانے والوں کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب‘ یہاں شخص ہزاروں
سال سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حالات میں‘ کوے کی پیاس کون دیکھتا ہے۔ اسے
پیاسا ہی رہنا ہے۔ الله نے‘ اس کے حصہ میں پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘
تباہ کرنے کے باعث‘ کوے کی پیاس نہیں بجھ رہی۔
باتیں ہو رہی تھیں‘ کہ فجا آرائیں آ گیا۔ اس نے سلام بولایا‘ اور راشن کارڈ
کے مطابق‘ راشن نہ ملنے کے خلاف درخواست لکھنے کی‘ گزارش کی۔ فوجی صاحب نے‘
بات وہیں ختم کر دی ۔ ہمیں مخاطب ہو کر کہا‘ سوری ماسٹر صاحب‘ معاشی ڈسپلن
کی خرابی کا‘ کیس آ گیا ہے۔ پہلے اسے نپٹانے کی ضرورت ہے۔ پھر وہ‘ درخواست
لکھنے میں مصروف ہو گیے۔ ہمیں یوں نظرانداز کر دیا‘ جیسے ہم وہاں موجود ہی
نہ ہوں۔ |