کیا اسے حکمرانی کہتے ہیں؟

ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کے طرزِ سیاست سے بھی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ان کے سیاسی پسِ منظر پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے۔ ان کے مذہبی عقائد سے اختلاف بھی برتا جا سکتا ہے ۔لیکن لاہور میں ماڈل ٹاؤں میں جو کھیل کھیلا گیا وہ انتہائی بھیانک ، وحشیانہ اور تکلیف دہ ہے۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ اس سارے طرز عمل پر انھیں افسوس ہے ۔ کیا افسوس کا اظہار تلافی تصور کیا جائے۔ ایک معمولی سا کام جس کو بنیاد بنا کر آٹھ افراد کی جان لے لینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ کیا حکومت اور طرزِحکومت اسی کو کہتے ہیں۔چند روپے کے عوض کیا زندگیاں لوٹائی جا سکتی ہیں۔ جس عدلیہ کے بنچ کے تقرر کے یقین دہانی وزیر اعلی پنجاب کر رہے ہیں وہ ان معصوموں کے لہو پر مٹی ڈالنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے نہ کہ شفاف تحقیقات کی غرض سے۔اس طرح کے اندازِسیاست کی قوم تو اب عادی ہوتی جا رہی ہے۔ کئی گھنٹے موت کا کھیل جاری رہا اور حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے انسانوں کے مقدس لہو کی پروا بھی نہ ہوئی۔ پھر جس طرح عورتوں ، بزرگوں اور بچوں پر بلاتخصیص گولیاں چلائی گئی، ان کی تذلیل کی گئی اس طرح کی کہانیاں تو گجرات کے تصادم میں نرنیدر مودی کی سنا کرتے تھے یا کشمیر کے اندر بھارتی فوج کے مظالم کی داستانیں بیان کی جاتیں تھیں۔ حکمرانوں کا بنیادی کام عدل کی بروقت فراہمی اور امن کا قیام ہوا کرتا ہے مگر شائد یہاں اس کے معانی بیرونی ملکوں کے دوروں اور جذباتی تقریروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ وہ معاشی ترقی جس کے عقب میں انسانی خون کی ہولی کھیلی جائے وہ کس طرح تعریف کے قابل ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا معاملہ کتنے خاندانوں میں موت کا سماں پیدا کر گیاشائد حکمران اس بارے میں بے حس ہی رہیں گے ۔ پولیس کی فائرنگ ، آنسو گیس اور بد تر ین تشدد سے دو خواتین سمیت8افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت 93 زخمی ہو گئے۔کیا حکمت اسے کہتے ہیں؟ اس موقع پرپولیس نے 150 کے قریب لوگوں کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کر دیا۔ اب ان پر مقدمے چلائے جائیں گے اور عوامی تحریک اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ان مقدمات کے ذریعے انہیں بلیک میل کیا جائے گا۔ پولیس اور عوامی تحریک کے افراد میں تصادم کے باعث ماڈل ٹاؤن 12 گھنٹے میدان جنگ بنا رہا اور رہائشی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ اس ساری کاروائی کے دوران حکومت کو آپریشن کے خبر تک نہ ہوئی۔ پولیس نے بھاری مشینری کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں رکاوٹیں ہٹانے کے لئے آپریشن کی کوشش کی تو مزاحمت کے ذریعے پولیس کو روک دیا گیا۔ کیا آپریشن کے لیے رات کی تاریکی کے علاوہ انہیں کوئی مناسب وقت نہیں مل سکتا تھا؟پولیس اور سیکرٹریٹ منتظمین کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن ناکامی کے بعد پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہو گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ عوامی تحریک کے ترجمان کے مطابق پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ پولیس 12 گھنٹے بعد رکاوٹیں ہٹانے میں کامیاب ہو گئی ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہے کہ’’ لاہورمیں عوامی تحریک کے کارکنوں پرتشددانتہائی شرمناک ہے ۔واقعہ پر جوڈیشل انکوائری کسی صورت قابل قبول نہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب فوری استعفی ٰ دیں۔ شہریوں پرتشددکی یہ حرکت پہلی دفعہ نہیں بلکہ کئی بار ہوئی،پنجاب پولیس کو دونوں بھائیوں نے ہمیشہ غلط استعمال کیا۔کیا ماڈل ٹاؤن،رائے ونڈ اور دیگر علاقوں میں شریف برادران کی رہائش گاہوں کے باہر بیریئر نہیں؟عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس کا تشدد اورفائرنگ قابل مذمت ہے ۔حکمرانوں کو جمہوریت کی قدر نہیں،پنجاب حکومت کے حکم پر پولیس نے نہتے لوگوں اور خواتین پر ڈنڈے برسائے اور گولیاں چلائیں،بربریت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی؟افسوسناک واقعہ پروزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیرقانون رانا ثنا اﷲ کوفوری استعفیٰ جبکہ آئی جی پولیس اورچیف سیکرٹری کو فوری طورپرفارغ کرکے جیل میں ڈال دیناچاہئے۔‘‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس واقعہ کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔وہ کہتے ہیں’’دل خون کے آنسو رورہا ہے ۔واقعہ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ ہوا ۔سوگوار خاندانوں کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہوئے دعا گو ہو ں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں صبرجمیل دے اوریہ غم برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت عالیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ عدالتی کمیشن روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات کرے اورحقائق جلد سے جلد قوم کے سامنے لائے جائیں۔ وعدہ کرتا ہوں عدالتی کمیشن کی تحقیقات سے سامنے آنے والے حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے گااورجب تک دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہیں ہوجائے گا چین سے نہیں بیٹھوں گا اگر مجھے ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو فوری استعفیٰ دیدونگا ۔ادارے کے سربراہ طاہر القادری سے بھی واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں بھی جن لوگوں نے ظلم کیا ہے میں ان کے خلاف بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنوں گا۔‘‘ کیسی دلچسپ منطق ہے وہی پرانے مقولے وہی سابقہ بیانات اور وہی پرانا اندازِ بیاں۔ بارہ گھنٹے آپریشن جاری رہا اور خادم اعلی کا دل خون کے آنسو روتا رہا۔ پھر جب لاشیں گر گئیں تب دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔یہ کام حکمرانوں کے نہیں ہوتے ۔ نیرو بانسری بجاتا رہے اور قوم مرتی رہے یہ طرز سیاست آج کے دور میں کامیاب نہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ’’ میں نے کبھی لاٹھی اور گولی کی سیاست نہیں کی اور نہ ہی کبھی سیاسی مخالفین سے ناجائز سلوک روا رکھاہے لیکن جو لوگ خائن ہیں،لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں،خواتین سے زیادتی کرتے ہیں،معصوموں پر ظلم کرتے ہیں ان کے خلاف میں ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بناہوں ۔ میں نے کبھی سیاسی مخالفت برائے مخالفت نہیں کی اورنہ ہی میری ڈکشنری میں سیاسی مخالفت برائے مخالفت کا لفظ موجود ہے۔ ‘‘ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ یہ جلد ماضی بھول جاتی ہے ۔ شہباز شریف بھی شائد اپنا ماضی بھول گئے ہیں۔زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس سر راہ گزر تذکرے کے طور پر انھیں یاد ہو گا وہ اس وقت وزیر اعلی ہی ہوتے تھے جب بھارتی وزیر اعظم واجپائی پاکستان آئے تھے۔ واجپائی کی لاہور آمد پر جو مظالم جماعت اسلامی کے اسی برس کے بزرگوں پر کیے گئے اور انہیں آلو اور پیاز کی بوریوں کی ماند بھر کر صارق آباد جیل بھیجا گیا۔ دس گھنٹے کے سفر کو بائیس گھنٹے تک بڑھا دیا گیا۔ بکتر بند گاڑیوں میں پابندی لگا دی گئی کہ کوئی باہر نہیں نکلے گا اور نماز پڑھنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ وہ ابھی پرانی بات نہیں۔ رہی بات ڈاکٹر طاہر القادری کے اندازِ سیاست کی تو وہ جس انداز میں بار بار فوجی قیارت کو نظام ِ سیاست میں دخل اندازی کی دعوت دیتے ہیں تو اگر نظام حکومت فوج ہی نے چلانا ہے تو پھر ان کے انقلاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ پھر آرمی کے سپہ سالار اور وزیر دفاع کا کام افراد کو سیکورٹی فراہم کرنا نہیں ہوتا بلکہ ملک کی سرحدوں کے حفاظت اور اس کی سلامتی کا تحفظ ہوتا ہے۔ لاہور کے واقعے پردکھ بجا ، احتجاج بھی ضروری لیکن اسلام آباد میں لال مسجد کے شہداء کے بارے میں قادری صاحب کے خیالات بھی غور کرنے کے قابل ہیں۔ لال مسجد کے واقعے اور خارجیوں کے بارے میں علامہ صا حب لب کشائی کرتے رہے ہیں۔ جنہیں اس وقت کے ایک آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنا پڑی تھی۔ اس وقت کی حکومت بھی ریاست کے اندر ریاست کو جواز بنا کر لال مسجد پر چڑھ دوڑی تھی اور آج لاہور میں بھی اسی کو جواز بنایا جا رہا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا سیکڑیریٹ بھی ’’نو گو ایریا‘‘ بنا دیا گیا تھا۔ حکومتی موقف کے مطابق یہاں بھی ریاست کی رٹ چیلنج ہو رہی تھی۔لاہور میں جو لوگ پاکستانی اداروں اور ریاستی بالادستی سے ٹکراتے رہے وہ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ قادری صاحب اگر اس بارے میں بھی کوئی فتوا دے دیں تو بہت سارے لوگوں کی راہنمائی ہو گی۔
Syed Abid Ali Bukhari
About the Author: Syed Abid Ali Bukhari Read More Articles by Syed Abid Ali Bukhari: 3 Articles with 1788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.