خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ
(Mir Afsar Aman, Karachi)
عبداﷲ نام،ابوبکرکنیت،صدیق اور عتیق لقب
ہے۔حضرت ابوبکر ؓ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں ’’مرہ‘‘ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم سے مل جاتا ہے۔ ایک ربّ ہے جس نے تمام کائنات کو وجود بخشا اور اُس کو
چلا رہا ہے اور کیونکہ ہم اس کی مخلوق انسان ہیں اور اس کائنات کے ایک حصےّ
زمین میں رہتے ہیں دنیا میں انسان رہتے ہیں اس لیے ان کی ہدایت کے لیے ان
ہی میں سے اﷲ تعالیٰ نے ایک انسان ہی کو اپنا پیغام ان تک پہنچانے کے لیے
منتخب کرتا ہے جوپیغمبر ہوتاہے،جو اﷲ کی خصوصی نگرانی کے اندر اﷲ کے پیغام
کو اﷲ کے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ اﷲ کے رسول معصوم ہوتے ہیں۔ اﷲ کے بعد ان کا
رتبہ ہوتا ہے۔ بقول شاعر ’’بس از خدا تو ہی قصّہ مختصر‘‘ والی بات ہے۔اس کے
علاوہ باقی سب انسان ہیں۔صحابہ ؓ سب انسان تھے اﷲ ان سے راضی ہوا وہ اﷲ سے
راضی ہوئے۔اﷲ کے نزدیک انسان کے نیک ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اﷲ کا
بندہ ہے۔اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو
ایمان لاوٗ‘‘ مسلمانوں سے کہنا اسلام لاوٗکیا معنی، اس سے مراد یہ ہے کہ اﷲ
کے آگے مطیع ہو جاوٗ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ ۔صحابہ ؓ پورے کے
پورے اسلام میں داخل ہو گے ٗ تھے۔اﷲ اَن سے راضی ہو گیا تھا اور وہ اﷲ سے
راضی ہو گےٗ تھے۔رہتی دنیا میں صحابہ ؓ جیسے انسان پیدا نہیں ہو سکتے ۔مگر
وہ انسان تھے اس لیے ثقیفہ رسول ؐ کی وفات کے بعد بنی ساعدہ میں انہوں نے
ایک دوسرے کے مقابلے میں خلیفہ ہونے کے دلائل دیے۔ پھر اتفاق رائے سے حضرت
ابوبکر ؓ کو اپنا خلیفہ اول منتخب کر لیا ۔ حضرت عمر ؓ نے ثقیفہ بنی ساعدہ
میں حضرت ابو بکر ؓ کا نام تجویز کیا تھا پھر مدینہ کے اندر موجود لوگوں نے
،جو امتِ مسلمہ کی نمائندگی کرتے تھے بغیر جبر اور اپنی آزاد راےٗ سے اپنے
خلیفہ کو منتخب کیا۔ خلفا ئے راشدینؓ کی خلافت انتخاب کے ذریعے عمل میں آئی
تھی خلفائے راشدین ؓ ؓکے دور میں سب سے پہلی بات یہ کہ حاکمیت اﷲ تعالیٰ کی
تھی نہ کہ خلیفہ، کسی قبیلے یا قوم کی ۔ دوسرا شوریٰ کا نظام تھا آپس میں
مشورے سے حکومت چلائی جاتی تھی نہ کہ بادشاہوں جیسے آڈرسے۔تیسری بات کہ
خزانے کو عوام کی امانت سمجھا جاتا تھا اسی رُوح سے خرچ بھی کیا جاتا تھا ۔چوتھی
بات کے قانون سب کے برابر تھا چائے خلیفہ ہو چائے عام آدمی، استثنیٰ کسی کے
لیے نہیں تھا۔ رواداری تھی بھائی چارا تھا امن امان تھا زمین نے اندر سے
خزانے باہر اُگل دیے تھے اورآسمان سے رزق برس رہا تھا عوام میں خوشحالی تھی
لوگ زکوٰۃ کا مال اپنے ہاتھوں میں لیے لیے پھرتے تھے کوئی لینے والا نہیں
تھاسب سے بڑی بات انسانوں کا رب انسانوں سے خوش تھا۔کیا آج کل ہماری
حکومتیں آزاد رائے سے منتخب کی جاتیں ہیں یا 4 کروڑ جعلی ووٹوں والی ووٹر
لسٹوں کے ذریعے منتخب کی جاتیں ہیں؟ حضرت ابوبکر ؓ اولین اسلام لانے والوں
میں شامل تھے ۔غلاموں کو خرید کر آزاد کرواتے تھے۔ واقعہ معراج کی تصدیق
کرنے والے تھے۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓؓرسول ؐ کی زندگی میں نماز بھی
پڑھاتے تھے۔اور رسولؐ کو مشورے بھی دیتے تھے۔ بخاری کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
ایک خاتون رسول ؐ کے پاس آئی اور ہدایت حاصل کی ،جاتے ہوئے کہا اگر میں
دوبارا آوٗں اور آپ نہ ملیں تو کیا کرو ں رسول ؐ نے کہاا حضرت ابوبکر ؓ سے
مل لینا۔اس سے حضرت ابوبکرؓ کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ایک دفعہ رسول ؐ نے
فرمایا تھا کہ جس جس نے اﷲ کے دین کو قائم کرنے میں میری مدد کی،میں نے اس
کو دنیا میں ہی بدلہ دے دیا ہے مگرابو بکر ؓ ایسے شخص ہیں جن کا بدلہ میں
نہیں دے سکا۔ اس قول سے یہ بات نشر ہو جاتی ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے اسلام
کو قائم کرنے میں رسول ؐ کی سب سے زیا دہ مددکی جس کااعتراف رسول ؐ نے خود
کیا۔جنگ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓ گھر کا سارا سامان رسول ؐ کی اپیل
پر لے آئے تھے پوچھا گیاگھر بھی کچھ چھوڑ آئے ہو۔ کہا! میرے لیے اﷲ اور اُس
کا رسول ؐ بس۔ حضرت ابوبکر ؓ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے والد تھے۔
رسول ؐ نے اﷲ کے حکم سے جو اسلامی فلاحی ریاست مدینے میں قائم کی تھی خلافت
راشدہ اسی طرز کی حکومت تھی ۔ حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ کے منصب پر فائز ہو ئے
تو واقعات میں آتا ہے کہ دوسرے دن کندھے پر کپڑا رکھ کر بازار میں فروخت
کرنے کے لیے گےٗ تو حضرت عمر ؓ سے ملاقات ہو گی،حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر
ؓ سے فرمایا اَب آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں کپڑے فروخت کرنے بجائے خلافت کے
منصب کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور عام مسلمان فرد کے خرچ جتنا بیت
المال سے وظیفہ لیں اور سارے کا سارا وقت خلافت کے کام چلانے میں لگائیں۔
اسی وظیفے سے بچت کر کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیوی نے ایک دفعہ
کھانے میں سویٹ ڈش بنا دی تو خلیفہ ؓنے اپنے وظیفے میں بچت جتنی رقم کم کر
دی اور بیوی سے کہا کہ اس بقایا وظیفے میں ہمارے خاندان کی گزر ہو سکتی ہے
۔ دوسری طرف بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی پاکستانی قوم کے وزیروں کے دفاتروں
اور خود سربراہِ مملکت کے کچن پر کروڑوں کے خرچے کی خبریں تو اخبارات کی
زینت بن چکی ہیں ۔
حضرت ابوبکر ؓ کو سب سے پہلے بڑا امتحان منکرین زکوٰۃ کے ساتھ ہوا ،لوگوں
نے کہا یہ مسلمان ہیں ان سے کیسے معاملہ کرو گے ،کہنے لگے ان سے جنگ کروں
گا جب تک یہ ایک رسی کا ٹکڑاجو رسول ؐ کے زمانے میں دیتے تھے ،دینا شروع نہ
کر دیں ۔ اسطرح ایک اسلام کے ستون کو ختم ہونے سے بچایا ۔یہ تھاپہلے خلیفہ
ہونے کا حق جو ادا کیا۔یہ تھا تفقّہ فی الدین۔ رسول اکرم ؐ اپنی زندگی میں
ایک فوجی مہم پر حضرت اُسامہ ؓ کو ایک فوجی دستے کاکمانڈر مقرر فرما گئے
تھے۔ انکی وفات کے بعد صحابہ ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا اتنے بڑے محاذ
پراُسامہ ؓ کو بھیج رہے ہو جبکہ بڑے بڑے قبیلے کے سردار موجودہیں ان میں سے
کسی کو فوج کا کمانڈر مقرر کرو۔کہنے لگے سبحا ن اﷲ آپ لوگ مجھے یہ مشورہ دے
رہے ہو کہ رسول ؐ نے جو کام کیا ہے اس سے ہٹ کر کام کروں۔ نہیں ایسا نہیں
ہو سکتا،جس کو اﷲ کے رسول ؐ نے کمانڈر مقرر کیا ہے وہ ہی کمانڈر ہو گا یہ
تھا ا طاعت رسول ؐ کا حق جو حضرت ابو بکرؓ نے ادا کیا۔احساس ذمہ د اری کا
یہ عا لم تھا کہا کرتے تھے ،کاش میں ایک چڑیا ہوتا درختوں پر ادھر ادھر
بیٹھتا اور مجھ سے حساب نہ لیا جاتا ایک احسا س تھا اﷲ سے خوف کا ایک احساس
تھاآخرت کے دن کا۔حضرت ابوبکر ؓ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے اﷲ ان سے راضی ہوا
وہ اﷲ سے راضی ہوےٗ، اﷲ نے ان کے گناہ ایڈوانس میں معاف فرما دیے،انہوں نے
رسول ؐ سے براہ راست تربیت حاصل کی تھی ان کی حکومت کی مدت صرف ڈھائی سال
تھی مگر اس حکومت میں فتوحات کافی ہوئیں۔
قارئین ہمارے موجودہ دکھوں کا مدوا اسی صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے
پیارے ملک پاکستان میں پھر سے مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں جسے
خلفائے راشدین نے چلا کر دکھایا جو ہمیشہ اور اس وقت پاکستان ،پوری دنیا
اور امتِ مسلمہ کی ضرورت ہے۔
|
|