طاہر القادری کی آمد....ایک بار پھر انقلاب کا نعرہ ؟

ڈاکٹرطاہر القادری کینڈین شہری ہیں، وہ جب بھی پاکستان واپسی کا اعلان کرتے ہیں تو پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں میں ”بھونچال“ آجاتا ہے۔ ان کے ماضی و حال کے معاملات و تنازعات کا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے، بعض ان کی شخصیت کو کرشماتی اور بعض پراسرار سمجھتے ہیں، ان سے متعلق سیاسی و غیر سیاسی اور مذہبی حلقوں میں بھی دلچسپ بحثیں چھڑ جاتی ہیں۔ اس بار ان کی پاکستان آمد ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے، جب ایک طرف سخت گرمی کے موسم میں کوئی بھی تحریک چلانا انتہائی مشکل ہے، جبکہ دوسری جانب پاک فوج نے وزیرستان میں آپریشن شروع کیا ہوا ہے، جس کے باعث ملک میں بدامنی بڑھنے کا شدید خدشہ ہے۔ اگرچہ خفیہ اداروں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد سے قبل ہی متنبہ کردیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا اسلام آباد ائیرپورٹ سے لاہور تک بذریعہ زمینی سفر سیکورٹی کے پیش نظر ٹھیک نہیں ہے، اگر طاہر القادری جی ٹی روڈ پر سفر کرنا چاہتے ہیں تو ان کو فل پروف سیکورٹی دینا ہوگی، کیونکہ طاہر القادری کی جان کو خطرات ہیں۔ جس کے پیش نظر حکومت کی جانب سے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی راولپنڈی آمد سے قبل بے نظیر ائیرپورٹ اور اس کے نواح میں ہر قسم کے جلسے جلوسوں ، ریلیوں پر پابندی عاید کر دی گئی تھی، راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ایئرپورٹ میں جھنڈے اور بینرز لے جانے ،اس دوران اسلحے کی نمائش، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی عاید کردی گئی تھی، جبکہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے طیارے کا رخ موڑنے کی سازش کررہی ہے، لیکن وہ 23 جون کو وطن واپس ضرور آئیں گے۔ پولیس نے گرفتار کرنا چاہا تو ایسا نہیں کرنے دیں گے، پاک فوج نے پکڑنا چاہا تو مزاحمت نہیں کریں گے۔ اگر حکومت نے تشدد کا راستہ اپنایا تو انقلاب آج ہی آجائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طاہر القادری ایک بار پھر انقلاب اورموجودہ سیاسی نظام کے خاتمے کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک میں وارد ہورہے ہیں۔ سانحہ لاہور کے بعد نہ صرف ڈاکٹر طاہرالقادری بلکہ ان کے حامی بھی بڑے مشتعل ہیں۔ بعض سیاسی عناصر جو طاہرالقادری کے ساتھ ہیں یا جنہوں نے ان کے ساتھ زبانی طور پر یکجہتی کا اظہار کیا وہ نواز شریف حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی غرض سے کشیدگی کو ہوا دینا چاہتے ہیں، تاکہ صورتحال کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ 17جون کو لاہور میں تباہ کن بدانتظامی کے بعد پنجاب انتظامیہ کسی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے میں نہایت محتاط ہے۔ جو دفاعی پوزیشن میں چلی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ سانحہ لاہور کے براہ راست ذمہ دار نہیںہیں۔ ان حالات میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی اسلام آباد آمد وفاقی اور پنجاب انتظامیہ کے لیے حقیقی چیلنج ہے۔ کینیڈا سے طاہرالقادری کی آمد پر ان کے پرجوش حامیوں کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر قابو پانا انتظامیہ کی اہلیت، مہارت اور پیشہ ورانہ قابلیت کی کڑی آزمائش ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری بڑی دھوم دھام سے یہ نعرہ لگا کر اور اس دعویٰ کے ساتھ وطن واپس پہنچ رہے ہیں کہ ان کی آمد پر ملک میں ”پرامن جمہوری انقلاب کا آغاز“ ہو گا۔ علامہ طاہر القادری ایک مدت سے ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ “ کی بات کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی تمام تر تحریک نہ صرف پر امن ہے، بلکہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن اپنے رہنما کی اس آمد کو ملک میں پرامن جمہوری انقلاب کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔اگرچہ طاہر القادری بڑے محترم ہیں۔ مغرب کے گڑھ میں بیٹھ کر اپنی تنظیم اور تحریک کو کامیابی سے چلانا قابل تحسین بھی ہے، لیکن وہ چاہتے کیا ہیں، یہ بات کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ وہ کس انقلاب کی بات کرتے ہیں اور کس طریقے سے چاہتے ہیں، یہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ ان کی سیاسی جماعت کے پاس نہ تو انتخابی نشان اور نہ ہی انہوں نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا، طاہر القادری کی پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں ہے جو ایک غیر ملکی بھی ہیں۔ قادری صاحب کے انقلابی مارچ جس کی کوئی سمت بھی مقرر نہیں ہے کہ یہ مذہبی انقلاب ہوگا، سیاسی انقلاب ہوگا یا پھر معاشی یا کسی اور نوع کا انقلاب ہوگا۔ کینیڈا میں مقیم طاہر القادری اس سے پہلے دسمبر 2012ءمیں پاکستان آکر ملک کی موجودہ سیاست کے خلاف شدید انداز میں آواز اٹھاتے ہوئے انقلاب کا نعرہ لگا چکے ہیں،لیکن ناکام لوٹے تھے۔ اب ایک بار پھر انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے پاکستان وارد ہورہے ہیں، لیکن اب کی بار بھی وہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے، کیونکہ وہ سیاست میں ناکام شخصیت ہیں۔ طاہر القادری نے عملی سیاست میں قدم رکھتے ہوئے 1989ءمیں پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ 2002ءمیں وہ وزیراعظم بننا چاہتے تھے۔ پاکستانی صحافی محسن رضا خان کے مطابق ڈاکٹر قادری کا یہ منصوبہ ناکام ہوا، کیونکہ انتخابات میں ان کی جماعت صرف ایک نشست ہی حاصل کر سکی۔ بعد ازاں سابق صدر پرویز مشرف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ اس ناکامی کے نتیجے میں ڈاکٹر قادری نے اپنا مینڈیٹ واپس کرتے ہوئے کینیڈا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ گو کہ ڈاکٹر طاہر القادری اس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، لیکن کب تک؟ کرسٹیان واگنر کے بقول ڈاکٹر قادری زیادہ عرصے تک اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

سیاست دانوں کا کہنا طاہر القادری غیر آئینی مطالبات کر کے عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں، ڈاکٹر طاہر القادری کی باتیں بڑی خوبصورت ہیں مگر ان سے کچھ نہیں ہونے والا، بہتر ہے، وہ پاکستان آنے کی بجائے کینیڈا میں ہی رہیں۔ بعض سیاست دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاہر القادری جمہوریت کے خلاف سازش کر رہے ہیں ،لیکن وہ گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی ناکام ہوں گے۔ جو لوگ لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں، وہ اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ملک میں جب بھی بحران آئے اورعوام قدرتی آفات سے دوچار ہوئے تو لاشوں کی سیاست کرنے والے سیاستدان عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے بیرون ممالک برفانی فضاؤں کا لطف اٹھاتے رہے ،عوام ان کے اس کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو سانحہ لاہور پر عوامی تحریک سے ہمدردی ہے، لیکن وہ طاہر القادری کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ طاہر القادری کے احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے۔ دوسری جانب اگرچہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے درمیان خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف عوامی تحریک کے غم میں برابر کی شریک ہے ، لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ تحریک انصاف اتنی جلدی عوامی تحریک کے گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنے گی۔ ان کے علاوہ عوامی تحریک کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق رہ جاتی ہے ، جو خود بے یارومددگار ہے، وہ انقلاب کی راہ کیسے ہموار کرسکتی ہے۔ لہٰذا اس بار بھی وہ ملک سے ناکام لوٹیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنے لیڈر کا ساتھ دینے کی اگرچہ مکمل آزادی حاصل ہے۔ عوامی تحریک کے رہنماءاور کارکن اپنے لیڈر کا ساتھ ضرور دیں، لیکن اس بات کو بہرطور مدنظر رکھا جائے کہ ملکی قوانین کا پوری طرح احترام کیا جائے اور درپیش حالات میں ملک کی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق جن احتیاطوں کی ضرورت ہے، انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ ملک کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ عوامی تحریک ہی نہیں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن شروع کردیا ہے۔ اس وقت قومی اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت قومی اتحاد کو ہر صورت برقرار رکھا جائے اور ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جائے، جس سے اس اتحاد میں دراڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.