سانحہ ماڈل ٹاون افسوسناک ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔

سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کے واقعہ کے بعد ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا ہو گیا ہے۔وزیراعلی نے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اﷲ سے استعفی لے لیا۔ڈاکٹرطاہر القادری صاحب کہتے ہیں کہ رانا ثناء اﷲ کا استعفی ناکافی ہے اور شہباز شریف ڈرامہ بند کرکے خود مستعفی ہو جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہے تو ملک میں آگ لگا سکتے تھے (اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ملک ڈاکٹر صاحب کا ہے یا اس نے اس ملک کو آزاد کرایا ہے)لیکن توڑ پھوڑ اور گھیراو جلاو سے ملک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب بہت غُصے میں تھا اور اس کی منہ سے باتیں نہیں بلکہ آگ کے شعلے برس رہے تھے۔وہ یہ کیوں بھول گیا کہ پاکستان کو آگ لگانے کا انجام اچھا نہیں ہوتا اور آپ کون ہوتے ہو جو ہمارے پیارے ملک کو آگ لگا دے؟؟؟پاکستان کسی کا میراث نہیں جواپنی سیاست کیلئے کوئی استعمال کر سکے۔ یہ قائد کا پاکستان ہے اور اس ملک کے عوام اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ کسی کی باتوں میں آکر اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچائے۔پاکستان ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہے اور یہاں ہر کام قانون اور آئین کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ توڑپھوڑ اور گھیراو جلاو سے۔۔۔۔

اب ڈاکٹر صاحب کے انقلاب کی طرف آتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب ان لوگوں سے انقلاب لانے کی باتیں کرتا ہے جو انگلینڈ میں پڑھنا چاہتے ہیں، امریکہ میں کام کرنا چاہتے ہیں، کینیڈا میں رہنا چا ہتے ہیں، انگریزی بولنا چاہتے ہیں، چائنیز چاول اور اٹالین پیزہ کھانا چاہتے ہیں،چاپانی الیکٹرانکس استعمال کرنا چا ہتے ہیں اور یورپ میں چھٹیاں گزارنا چاہتے ہیں۔اب یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کونسا اور کن لوگوں سے انقلاب لانا چاہتے ہیں ؟؟؟انقلاب تو وہ لوگ لا سکتے ہیں جو ملک سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہو نہ کہ ملک سے باہر رہ کر صرف اپنی ذات اوراپنی پارٹی کے بارے میں سوچتا ہو۔۔۔

آج کل پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت تنقید کے سایہ میں ہیں۔وہ اس لئے کہ سانحہ ماڈل ٹاون لاہور میں کئی جانیں ضائع ہوگئی۔ یہ واقعی ایک افسوسناک بات ہے اور شائداس وقت پنجاب حکومت پر تنقید کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو پولیس والے اس واقعہ میں زخمی ہوئے ہیں اور ہسپتال میں پڑے ہیں، کوئی اس کے بارے میں کیوں نہیں پوچھتا؟ کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں؟کیا وہ کسی کے بیٹے نہیں ہیں ؟ خیر آمدم برسرمطلب۔۔۔اس واقعہ کی وجہ سے وزیر قانون مستعفی ہوگیا اور ہونا بھی چاہیے تھا لیکن ایک بات جو میں سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ نقلاب لانے والے خود کینیڈا میں آرام سے بیٹھ کر مزے لوٹ رہے ہیں اور وہاں سے اپنے ورکرز کو احتجاج کرنے کیلئے حکم دیتے ہیں ۔ اب مجھے کوئی یہ تو بتا دے کہ ڈاکٹرصاحب اگر پاکستان سے اتنا محبت کرتے ہیں اور وہ واقعی اس ملک میں اسلامی قانون لانا چاہتے ہیں تو پھر کینیڈا میں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں ؟؟ کیا وہ صرف انتشار کیلئے پاکستان آتے ہیں ؟؟باقی کچھ پارٹیاں اور لوگ بھی ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیں رہے ہیں ، اس لئے نہیں کہ وہ انقلاب لانا چاہتے ہیں پر اس لئے کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت کسی طرح ختم ہو جائے ، چاہے ملک اور عوام کا اس میں فائدہ ہو یا نقصان ، لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کسی بھی قیمت پر ختم ہو جائے۔ڈاکٹر صاحب آئین اور قانون کے اندر انقلاب لانا چاہتے ہیں مگر یہ بھول جاتا ہے کہ وفاقی حکومت آئین کے مطابق منتخب ہوا ہے اور اب آئین اسے پانچ سال مدت پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اور اگر مڈٹرم انتخابات کی بھی ضرورت پڑتی ہے تو بھی اس کا حق وفاق کے ساتھ ہے۔

ڈاکٹر صاحب ایک طرف انقلاب کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف ان لوگوں کو ساتھ میں لینے کی دعوت دیتے ہیں جو اُن کے بقول جعلی اور فراڈ لوگ ہیں۔جنوری 2013 کے ڈی چوک اسلام اباد کے لانگ مارچ میں انہوں نے پی پی پی حکومت کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جعلی پارلیمنٹ عوام کو حقوق دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔سیاسی قیادت کی نا اہلی کے باعث دہشتگردی کے خلاف قومی پالیسی نہیں بن سکی۔70 فیصد ارکان پارلیمنٹ ٹیکس نہیں دیتے۔رحمان ملک نے گزشتہ رات مجھے اغوا کرنے کی کوشش کی ہے۔جن لوگوں نے حکومت کو مینڈیٹ دیا تھاوہ ان کے احتجاج کی صورت میں ختم ہو چکا ہے۔ میں حکومت کو صبح تک کی مہلت دیتا ہوں کہ اسمبلیاں خود تحلیل کر دے ورنہ عوام تحلیل کر دیں گے۔۔۔۔۔کیا ڈاکٹر صاحب یہ تقریر بھول گیا یا اب وہ لوگ ان کی نظر میں اچھے اور ایماندار ہوگئے ہیں؟ کیا انہوں نے اب تک وہ ٹیکس دیا جس کا ذکر ڈاکٹر صاحب کر رہے تھے ؟؟ اگر نہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب کی باتوں اور انقلاب لانے میں تضاد ہے اور ہمیں ایسے انقلاب کا حصہ نہیں بننا چاہئے ، جس میں ہمارے اور ہمارے پیارے ملک کا نقصان ہو۔

شائد لوگ پہلی بار کسی ایسے شخص کو دیکھ رہے ہیں جو باہر بیٹھ کر ملک میں انقلاب لانے کی باتیں کررہا ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی اس انقلاب کا کون کون ساتھ دے رہے ہیں۔ہم عوام کو اس نازک صورتحال میں کسی کی انقلاب کا نہیں بلکہ اپنے ملک کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ یہ ملک عوام کا ہے، کسی سیاستدان یا جھوٹا انقلاب لانے والوں کا نہیں ۔اب وقت اگیاہے کہ ہم ان لوگوں کا ساتھ دیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کا جو ملک میں انتشار پھیلانا چا ہتے ہیں۔اﷲ تعالی ہمارے پیارے ملک کو مصیبتوں سے بچائے۔ آمین