آزادؔ بیکانیری شاعروں اور اد یبوں کی نظر میں
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
جنابِ آزادؔ بیکانیری کا
زمانہ انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً نصف
آخر تک ہے ۔اس دور کے ممتاز سخنوروں میں حالیؔ(۱۸۳۷ء۔ ۱۹۱۴ء)، احمد رضاؔ
بریلوی(۱۸۵۶ء ۔ ۱۹۲۱ء)، داغؔ دہلوی(۱۸۳۱ء ۔۱۹۰۵ء)، سید وحید الدین
احمدبیخودؔ ہلوی(۱۸۷۱ء۔۱۹۲۷ء)، امیرؔ مینائی(۱۸۲۶ء ۔۱۹۰۰ء)، محسنؔ
کاکوروی(۱۸۲۶ء ۔ ۱۹۰۵ء)، شادؔ عظیم آباد(۱۸۴۶ء۔۱۹۲۷ء) ، علامہ ڈاکٹر محمد
اقبالؔ (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ء)، مولانا محمد علی جوہرؔ(۱۸۷۸ء ۔ ۱۹۳۱ء)، حسرت ؔ
موہانی(۱۸۷۸ء ۔ ۱۹۵۱ء)، مولانا غلام شہید ؔ، آسی ؔغازی پوری،حسنؔ
بریلوی،علامہ ضیاء القادری، محمد عبداﷲ بیدلؔ ، حافظ خلیل الدین حسن حافظؔ
پھیلی بھیتی، محمد یوسف راسخؔ ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری ، محمد
عبداﷲ المعروف بہ امیر دولھا صوفیؔ، ممتاز علی ممتارؔ ناصری سبزواری، نثار
احمد نثارؔ، محمد عابد حسین عابدؔ آغائی اور خلیلؔ صمدانی شامل ہیں۔یہی
شعراء جناب آزادؔ کے ہم عصر کہے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض معاصرین شعراء اور
دیگر احباب نے آزادؔ صاحب کے کلام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نثر اور
نظم میں کیا اور تقریظیں لکھیں جو آپ کے روح پرور نعتوں کے مجموعے ’’دیوان
آزاد‘‘ میں شامل ہیں ۔ذیل میں ان ادیبوں ، دانشوروں م اہم علم اور آزادؔ
صاحب کے قریبی رشتے داروں کے خیالات نقل کیے جارہے ہیں۔
امتیاز الشعراء سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی
خمخانہ بیخودؔ کے جرعہ کشوں میں ایک حاجی شیخ محمد ابراہیم صاحب آزادؔ کا
نام بھی درج رجسٹر شاگردان ہے۔ صوفی منش انسان ہیں حمد و نعت کہتے ہیں
عاشقانہ شعر نہیں کہتے ۔ ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چنداں
محتاج نہیں ہے کئی سال ہوئے میں نے ان کو اپنا
خلیفہ بنادیا تھا
نام آزاد ؔ وضع کے پابند
میرے شاگرد و میرے عاشق زار
ہیں یہ مداح سیرتَ بنوی
اور مداح ان کا بیخودؔ زار
محمد عبداﷲ بیدلؔ
جناب منشی محمد عبد اﷲ بیدؔل جو آپ کے ہم عصر تھے اور قبلہ استاد بیخودؔ
دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ آزادؔ صاحب سے متعلق اپنے خیالات کا
اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آزادؔ نے شاعری کا چراغ ہر جگہ روشن کیا اور
یہ اصول کہ عشقیہ شاعری ایک بیہودہ گوئی اور خلافِ شریعت ہے کو بہ احسن
خوبی اپنے دیوان کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچایا ہے۔ بیدلؔ نے قطعہ تاریخ
دیوان آزادؔ پر ایک بڑی نظم لکھ کر
دیوان آزادؔ کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔آپ نے آزاد کے کلام کو کچھ اس طرح داد
تحسین دی ہے
نیا یہ نعت کا گلشن کھلا ہے
لب جبریل پر صل علےٰ ہے
کلام آزاد ؔ چھپ گیا ہے
نرالا ہے انوکھا ہے نیا ہے
بشر سے ہو بھلا توصیف شہ کی
خدا کرتا ہے جب تعریف شہ کی
حدیثوں سے لکھی سیرت نبی کی
کلام اس میں کرے طاقت کسی کی
بید لؔ نے آزاد کے دیوان حصہ دوم پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے
کیا
مسائل جو تصوف کے عیاں ہیں
خزینے گنج معنی کے نہا ہیں
کلام ان کا عجب معجز نما ہے
سرا پر دہ حقیقت کا کُھلا ہے
دکھائی ہے کہیں شمع ہدایت
بتائی ہے کہیں راہ طریقت
صلا آزاد ؔ کو بیدلؔ ملا ہے
عجب جو نعت کا دفتر کھلا ہے
عزیز احمد (آزاد صاحب کے چھوٹے بھائی)
میرے مخدومی محترم اخی معظم نے جو ثنائے محبوب کا گلدستہ پیش کیا ہے اس کو
دیکھ کر انصاف سے بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ جس سچائی اور سلاست سے بپابندی
زبان اردو صحیح صحیح واقعات سیرت نبوی بیان کیے ہیں اور جو مضامین نکالے
ہیں یہ رنگ اور دیوان یا کلیات میں بہت کم ملے گا معلوم ہوتا ہے قدرت نے یہ
اخی محترم کے لیے محفوظ کررکھا تھا جو آپ کو دیا گیا
این سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ثنائے محبوب خالق کو سامنے رکھئے اور اس کا ہر شعر پڑھیئے اور مزاق سلیم سے
مزے لیجئے ہر غزل ہر شعر میں آپ کو جدت و خوبی معلوم ہوگی ۔ثنائے محبوب
خالق کے دوسرے حصہ کو جب آپ مطالعہ فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ نہایت نا
زک و دقیق مسائل تصوف کو جو زبان سے اور نثر میں بھی مشکل سے ادا ہوتے ہیں
اس کو نہایت خوبی سے نظم میں بیان کیا گیا اور قصائد میں بجائے بہاریہ
تشبیت کے نئے نئے طریقہ سے حمد و نعت بیان کی گئی ہے گویا نعت گو قصائد
گاران کو صحیح راستہ دکھا یا گیا ہے بعض موقعہ پر نعت سے حمد پیدا کی گئی
فرماتے ہیں
جب عالم امکاں ہی میں تو سب سے سوا ہو
تو جس کا ہو بندہ وہ بھلا کیوں نہ خدا ہو
تصورات اس قدر عالی ہیں جو دیکھنے و سنے میں نہیں آئے
بہت ہی مسکرئے شہ جو دیکھا حشر میں مجھ کو
سیہ نامہ بغل میں ہاتھ میں دیوان مدحت ہے
کیا تھا ڈر تے ڈر تے پیش کچھ میں نے سیہ نامہ
تو ہنس کر شہ نے فرما یا کہ اس کی کیا ضرورت ہے
تصور میں کہا کرتا ہے مجھ سے لطف حضرت کا
خدا تک تجھ کو پہنچا دونگا آگے تیری قسمت ہے
محمد اسرئیل (آزادؔ صاحب کے چچا زاد بھائی)
آپ کے کلام میں حسن فصاحت و اسلیب بلاغت کی جھلک شروع سے آخر تک نظر آتی ہے
۔ ترکیب کی دلاویزی روز مرہ محا وروں کی بے تکلفی نے چار چاند لگا رکھے
ہیں۔بے ساختہ پن اور روانی کا یہ عالم ہے کہ ایک بحر مواج موجزن ہے جس کی
لہروں میں تکلف و آوروخس وخاشاک کی طرح بہے چلے جارہے ہیں اور زور طبیعت ان
کی پروا نہیں کر تا واقعہ نگاری اور جزئی واقعات کی تفصیل قادرالکلام پر
دلالت کررہی ہے اور لطف یہ ہے کہ جو کچھ کہا نرالے ڈھنگ سے کہا سچ یہ ہے کہ
مصنف اپنی طرز حسنہ کا موجد ہے جس نے ارباب سخن کے لیے ایک شاہراہ کامیابی
تیار کر دیا ہے جس کے اتباع میں منزل مقصود تک رسائی یقینی ہے۔دیوان کی
ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ کو ئی لفظ بھی شریعت کے دائرہ سے باہر نہیں ۔
شیخ علی احمد
آزادؔ صاحب کہنہ مشق اور خوش بیان ہیں غلط تر کیبوں اور غیر مانوس الفاظ سے
آپ کا کلام بالکل پاک ہے۔ہر غزل محشرِ نعت اور جنتِ حمد ہے۔ بعض مقامات پر
احادیث اور آیتِ قرآنی کا ترجمہ اس خوبی سے نظم فرمایا ہے کہ پڑھ کر جی خوش
ہو تا ہے ۔آپ کی شاعری صاف زبان اور اچھے محاورات کا آئینہ دار ہے اسی طرح
جذبات بھی بہ کثرت رکھتی ہے ۔ میں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ
جناب آزاددنیاوی شاعری میں کیا پوزیشن رکھتے ہیں۔ آزادؔ صاحب حضرت بیخودؔ
دہلوی جانشین فصیح الملک مرزا داغؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں ہیں اور
راجپوتانہ کے اسا تذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
محمد عبداﷲ المعروف بہ امیر دولھا صو فیؔ
فصاحت و بلاغت دونوں
اس میں کلام آزادؔ کا صل علیٰ ہے
نہ کیوں سر پر رکھیں دیوان آزادؔ
کہ اس میں حمد و نعت مصطفیٰ ہے
حسن احمد حسنؔ
محبوب خالق ، اﷲ اﷲ کیا جلوۂ ناز مرغوب ہے نعت شمع ہدایت کا نیا اسلوب ہے
حرف حرف تفسیر عاطفت ہے لفظ لفظ خرمن گل بہجت ہے ہر شعر چمن مدحت شگفتہ ہے
ہر غزل پر لعبت چین آشفتہ نیا ساز ہے ہر خیال۔ نظم آئینہ افروز ہے روانیٔ
طبع رفرف معرفت سے سوا ہے تخیل عالی نغمہ جبریل کی ادا ہے۔دل کہ واقف اسرار
گفتار ہے لطف اٹھاتا ہے خرمن گل پر بہار کو دیکھ دیکھ کرکھلاجاتا ہے الحق
حکایات شیخ وہ نگار پرُ بہار ہے کہ کیف حسب یثرب جس کا سنگھار ہے حیران ہوں
اسے آزادؔ کی تحریر کہوں دفتر تنویر سمجھوں سارا کلام عجیب ہے ثمر سخن
گنجینہ غریب ہے با لخصوص میرے لیے چراغ لامعہ ہے کہ اس کی روشنی میں گل مدح
مرغوب نظر آیا ہے اگر قسمت سے دیار حبیب پہنچ گیا تو اس گل کو نذر گلشن
کرونگا
دیوان نعت وہ کہا آزادؔ نے حسنؔ
بے شبہ جو کمال میں اپنی ہے خود نظیر
دیکھی جو مدح اس میں شہ بے مثال
لکھا ہے سال طبع بھی اوصاف بے نظیر
محمد یوسف راسخؔ
آزادؔتیری آج زمانے میں دھوم ہے
دیوان تیرا طبع ہو ا ہے وہ لا جواب
حق تو یہ ہے کہ ناصح عامل کہوں تجھے
مد نظر ہے تیرے شریعت کی ہر کتاب
تونے دکھائیں نعت میں جدت طرازیاں
ایجاد و اختراع میں ہر شعر انتخاب
جو بھی کہی ہے تو نے پتے کی کہی ہے سب
تاریخی حیثیت سے ہے ہر نکتہ اک کتاب
ہے سیرۃ النبی ترے دیوان کا ہر ورق
تاریخ اور سیرت کا خلاصہ ہے یہ کتاب
ارباب ذوق لکھیں گے تقریظ دل پسند
راسخؔ سے ایک شعر بھی نکلا نہ کامیاب
حکیم محمد ممتاز علی ممتازؔ ناصری سبزواری
میرے عزیز کی اﷲ نے ہمیشہ اپنے فضل و کرم سے تمنائیں پوری کی ہیں آخر میں
حج و زیارت روضہ اقدس اور اس دیوان کے طبع ہونے کی بڑی آروزو تھی جو یہ بھی
اس کے کرم سے پوری ہوئیں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عزیز موصوف کو ہمیشہ مقاصد
دارین میں کامیاب رکھے اور یہ دیوان مقبول خدا و رسول ہو کر سرمہ چسم اہل
بینش رہے۔
نثار احمد نثارؔ
آنکھوں کی ضیا کیوں نہ ہو آزادؔکا دیوان
ہے نور فشاں مہر درخشان مدینہ
ہر بات کے قرآن و احادیث ہیں شاہد
ثابت ہے تیری نظم سے یوں شان مدینہ
محمد عابد حسین عابدؔ آغائی اکبر آبادی
ہو ا طبع دیوان نعت پیمبر
کہ تا بندہ ہیں جس میں انوار مخفی
کہامیں نے عابدؔ یہ سال طباعت
ہے دیوان آزاد یا نظم عرفی
جناب آزادؔ کے کلام میں خلوص ومحبت ، عقیدت و احترام کی خو شبو مشک و عنبر
کی مانند موجود ہے ۔ آپ کے نعتیہ کلام کو پڑھ کر ہماری روح تازہ ہو جاتی ہے
اور دل و دماغ پر خوشگوار اثرات رونما ہوتے ہیں بسا اوقات وجد کی کیفیت
طاری ہو جاتی ہے۔سمجھنے والا بہ خوبی محسوس کر سکتا ہے کہ جناب آزادؔ نے
رسمی طور پر نعت نہیں کہی بلکہ ان کی فضا میں عشق رسول ﷺ سے عقیدت و محبت
کی بجلیا ں کوند رہی ہیں۔انہوں نے ہر نفس میں بوئے رسول ﷺ کو محسوس کیا جس
کی واضح مہک ان کے کلام میں رقصاں دکھا ئی دیتی ہے۔آپ کے کلام کو توجہ سے
پڑھنے والا یہ تاثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شاعر کواپنے محبوب سے بے پناہ
وابستگی ہے ۔ ان کے کلام سے ان کی علمیت، خاص طور پر قرآن، تفسیر اور حدیث
بنوی ﷺاور فن شاعری کے ادراک کا علم ہوتا ہے۔ آپ کے بارے میں جناب بیخودؔ
دہلوی کی یہ رائے کہ ’’ان کا کلام شعری اصلاح کا چندا ں محتاج نہیں ہے ‘‘
اہمیت رکھتا ہے اور آزادؔ صاحب کو ایک عظیم شاعر تسلیم کر نے کے لیے کافی
ہے۔
پروفیسر عبد المحصی
آزادؔ صاحب کے خاندان کی ایک علمی و ادبی شخصیت عبد المحصی صاحب گورنمنٹ
صادق ایجر ٹن کالج (S.E. College)، بہاولپور میں انگریزی کے پروفیسر تھے
اور خاندانی انجمن’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ‘کے بانی و متحرک رکن کی
حیثیت سے انجمن کی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتے رہے ۔ پروفیسر محصی
نے ایسو سی ایشن کے اجلاس منعقدہ کراچی ۲۵۔۲۶ دسمبر ۱۹۴۸ء میں خطبۂ صدارت
پیش کرتے ہوئے آزادؔ صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کیا یہ خطبہ ایسو ایشن کی
شائع کردہ کتاب ’سرودِ رفتہ‘ میں شامل ہے ۔
جناب محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم نے ایک مردِ حق اور حق اندیش کی طرح حق و
صداقت کے دیئے کو بیکانیر کے ویران صحرا میں روشن رکھا جس کی روشنی نے بہت
سی نیک روحوں کومنور کیا آپ کا صخیم نعتیہ دیوان جس کی ایک کاپی آپ نے
بکمال مہر بانی اُس ایسو سی ایشن کو بھی مرحمت فرمائی تھی میرے دعویٰ کا
ثبوت ہے آپ معتقدات کی مدافعت میں ایک بے باک اور نڈر وکیل تھے۔ اس کے
شاہد’’پیام اتحاد‘‘ کے وہ صفحات ہیں جہاں آپ ایک مضبوط حزب مخالف کے مقابلہ
پر تعلیم نسواں کے سلسلہ میں اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں یکہ و تنہا لڑ
تے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ہمارے خاندان کے ایسے ستارے تھے جو اپنی دوری کے
باوجود اُس کو روشن اور منور کرتا رہا ۔
انعام احمد صدیقی :
حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب سے میرا یعنی ہمارے خاندان کا ہمہ جہتی
تعلق اور رشتہ ہے۔ آپ میرے پڑ دادا اور پڑ نانا حضرت نبی بخش اور پڑنانی
محترمہ بو یعقو باً (زوجہ نمبر تین) کے بڑے صاحبزادے تھے۔ہمارے پڑ دادا و
نانا کی زوجہ محترمہ بو نصری دختر محمد اسحاق کی پانچ بیٹیاں تھیں، پسری
اولاد نہیں ہوئی، جیسا کہ سینہ بہ سینہ روایات اور بزرگوں کی زبانی سنا ہے
کہ پڑدادی و نانی بو نصری دختر محمد اسحاق از خود بی بی بیگم دختر مقصود
علی کو بیاہ کر لائیں۔ حوصلہ مندی اور وسعتِ قلب کی یہ درخشاں مثال ہے جس
کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پڑ دادای و نانی محترمہ بی بی بیگم سے تین بیٹے ہوئے
۔ شریف احمد، امداد علی اور علی احمد۔ علی احمد میرے دادا ہیں۔جناب نبی
بخشؒ کی تیسری شادی بو یعقوباًدختر کرامت علی صاحب سے ہوئی ۔ ان کی اولاد
جناب محمد ابرہیم آزادؔ ، جناب عزیز احمد، محترمہ کنیز رابعہ اور امِ فاطمہ
ہیں۔ جناب عزیز احمد میرے نانا ہیں۔ اس وجہ سے جناب ابراہیم آزاد صاحب سے
میرا دوہرا رشتہ ہے۔ آپ میرے دادا جناب علی احمد اور میرے نانا جناب عزیز
احمد کے بھائی ہیں۔ ہمارے بزرگ آپس میں ، میل جول اور ایک دوسرے کی خبر
گیری میں نمایاں تھے فاصلو ں اور دوسری دشواریوں کے باوجود ایک دوسرے سے
مستقل رابطے رکھتے تھے اور وقت ِ ضرورت ایک دوسرے کی معاونت کرنا اپنا فرض
سمجھتے تھے۔
جناب ابرہیم آزادؔ صاحب سے میری ملاقات کا واقعہ جو مجھے یاد ہے ذرا ذرا
کچھ یوں ہے۔ میری چار پانچ سال کی عمر ہوگی جب ہم اپنی والدہ محترمہ رقیبہ
خاتون کے ہمراہ فرید کوٹ اپنے نانا عزیزاحمد کے پاس گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے
بیکانیر جانے کا پروگرام بنایا گیا یا پہلے سے طے شدہ تھا۔ بیکانیر میں
میری خالہ محترمہ عتیقہ خاتون رہتی تھیں۔ خالہ عتیقہ جناب خالوخلیل احمد
(جومعروف نعت گو شاعر اور مشہور وکیل تھے)سے رشتۂ ازدواج میں منسلک تھیں۔
خالو خلیل احمد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب کے ساتویں صاحبزادے تھے جو
آزاد منزل بیکانیر میں سکونت پزیر تھے۔ ہم لوگ نیچے کی منزل میں مقیم تھے۔
دوسری منزل پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک روز والدہ صاحبہ خاص طور پر
اپنے ہمراہ دوسری منزل پر لے کر گئیں۔ خاص ہدایت کے ساتھ کہ ادب کے ساتھ
خاموش بیٹھنا وغیرہ وغیرہ۔ وہاں سب لوگ معدب انداز میں بیٹھے بات چیت میں
مصروف تھے۔ ایک بزرگ ہستی نے بڑے شفقت و محبت کے ساتھ مسکراتے ہوئے میرے سر
پر ہاتھ پھیرا یہ یقینا قبلہ حضرت ابراہیم آزادؔ صاحب ہی تھے۔خالہ عتیقہ کا
گھر صاف ستھرا رہتا تھا۔ باورچی خانہ میں جالی لگی ہوئی تھی ۔ جالی کا
دروازہ تھا جو مجھے اچھا لگتا تھا۔ مرغیاں پلی ہوئی تھیں انکا جگہ جگہ فارغ
ہوجانا نہایت بد تمیزی لگتی تھی۔ سوچتا تھا ان کی مرغیوں کو ایک طرف یہ کام
کرنا کیوں نہیں آتا۔گھر میں داخل ہونے کے لیے معمول کے مطابق دروازہ تھا۔
دوسری جانب ایک بہت بڑا اور اونچا محراب نما کھلا ہوا راستہ تھا جہاں سے
اونٹ پانی سے لدی ہوئی پکھالوں سمیت اندر داخل ہوتے تھے ساتھ ہی بہت بڑا
حوض تھا جس میں پکھالوں کا پانی انڈیل دیا جاتا تھایہ کام اونٹ کے کھڑے
کھڑے ہی ہوتا تھا۔ آزاد منزل میں تہہ خانہ بھی تھا ہمیں وہاں جانے کی اجازت
نہیں تھی اور ڈرایا گیا تھا کہ وہاں بھوت رہتے ہیں۔ سڑک کی جانب کھڑکی
دروازے تھے۔جہاں تک مجھے یاد ہے ہمارا رابطہ آزاد منزل بیکانیر سے مستقل
رہتا تھا۔ قبلہ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب میرے والد احتشام احمد صدیقی کے
سگے چچا تھے اور والدہ محترمہ رقیبہ خاتون کے سگے تایا۔ والد صاحب جناب
ابراہیم آزادؔ صاحب کابہت احترام کرتے تھے۔ والد بزرگوار بھی جناب پیر سید
جماعت علی شاہ صاحب سے بیعت تھے اس طرح آزاد ؔ صاحب اور میرے والد پیر
بھائی بھی تھے والد صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ (میری چھوٹی پھوپھی) جنابہ خدیجہ
کی شادی جناب لئیق احمد پھو پھا سے ہوئی تھی۔ لئیق پھوپھا جناب ابرہیم
آزادؔ صاحب کے پانچویں نمبر کے صاحبزادے تھے جو آزاد منزل بیکانیر میں مقیم
تھے۔ میرے ماموں اور ان کی اولاد بھی آزاد منزل کے باسی تھے۔ میرے بڑے
بھائی جناب احترام احمد صدیقی صاحب کا رشتہ پھوپھا لئیق اور پھوپھی خدیجہ
کی بڑے صاحبزادی حامدہ خاتون سے طے تھا ۔ اس طرح روابط اور قرابتوں کے کئی
سلسلے تھے جو باہم ملاقتوں اور خط و کتابت کے ذریعے مدتوں خاندانوں میں
قائم تھے۔
نعتیہ مشاعرے، محفلیں، جشنِ عیدمیلاد النبی وغیرہ کا سالانہ اہتمام آزادد
منزل بیکانیر کی منفرد خصوصیت تھی۔ دعوت نامے، تذکرے حال احوال چلتے رہتے
تھے۔ میرے بڑے بھائی جناب احترام احمد صدیقی صاحب کی بھی ان میں شرکت ہوتی
رہتی تھی۔آزادؔ صاحب کا دیوان آگرہ کی مر تضائی پر یس میں ۱۹۳۲ء میں چھپا
جس کا اہتمام پریس کے مالک جناب قمر الدین خان صاحب نے کیا۔ جناب قمر الدین
خان صاحب کی بیگم سے ہماری قریبی عزیز داری بھی ہے ۔ ابراہیم آزادؔ صاحب سے
متعلق ایک واقعہ جو زبانی در زبانی سنا ہے کہ مہاراجہ بیکانیر کا مقد م جو
لندن میں زیر سماعت تھا۔حضرت ابراہیم آزادؔ صاحب اس مقدمے کی پیروی کے لیے
لندن تشریف لے گئے اور مقدمہ جیت گئے۔ راجہ بیکانیر اس پر اتنا خوش ہوا کہ
حضرت صاحب کی واپسی پر از خود انہیں لینے پہنچا اور اپنے کندھوں پر بٹھا کر
اپنے محل تک لایا۔ سبحان اﷲ کیا شان تھی۔ایک روز بیکانیر سے خط موصول ہوا
غالباً پوسٹ کارڈ تھا والد صاحب پڑھ کر آبدیدہ ہوگئے فرمایا خاندان کے سب
سے بڑی بزرگ ہستی ہم سے جدا ہوگئی
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی تھے
رہبرؔ صمدانی : ایڈیٹر سہ ماہی ’فروغِ نعت‘ ملتان
رہبرؔ صمدانی کاآزاد ؔ صاحب سی وہی رشتہ اور تعلق ہے جو میرا آزادؔ صاحب سے
وہ بھی آزادؔ صاحب کے پڑ پوتے ہیں۔ یہ خلیل احمد مرحوم کے صاحبزادے اور
جناب تابشؔ صمدانی کے بڑے بیٹے ہیں۔سخن فہمی کا تسلسل صحیح معنوں میں اگر
موجود ہے تو آزاد ؔ صاحب کے بیٹے جناب خلیل صمدانی سے ہے ، ان کے بیٹے
تابشؔ صمدانی اور اب رہبرؔ و سرورؔ سخن فہم ہیں ۔آزادؔ صاحب کی نعت نگاری
پراپنے خیالات اظہار ان الفاظ میں کیا۔مجھے بات کا آغاز یہیں سے کرنا چاہیے
کہ یہ پروردگارِ عالم کا خاص کرم ہے کہ میری شناخت کا ایک حوالہ جناب محمد
ابراہیم آزادؔ صمدانی ؒنقشبندی مجدی خلیفہ ٔ مجازسیدنا پیر جماعت علی شاہ
نقشبندی مجدی سے بھی بنتا ہے۔جناب آزادؔ ؒکے ایک صاحبزادے جناب خلیل احمد
صمدانی میرے دادا صاحب ہوتے ہیں جو خود بھی ایک صاحب طرز معروف نعت گو شاعر
تھے۔ جناب خلیل صمدانی کا نعتیہ مجموعہ ٔ کلام ’’گلزار خلیل‘‘ کے نام سے
۱۹۶۸ء میں جے پور راجستھان (بھارت) سے شائع اشاعت پذیر ہوا۔ جناب خلیل
صمدانی کو اپنے والدِ گرامی جناب ابرہیم آزادؔ سے شاعری ورثے میں ملی۔ جناب
خلیل صمدانی کے بڑے صاحبزادے یعنی میرے والدِ گرامی جناب طفیل احمد تابشؔ
صمدانی جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور ایل ایل بی کی
ڈگری ملتان آکر حاصل کی ۔آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں فضاکو نعتِ
نبی سے معمور پایا ۔ جس کا اظہار آپ کے اس شعر سے ہوتا ہے
جس دن سے قدم رکھا ہے ہستی میں عدم سے
وابستہ ہوں میں سایۂ دامانِ کرم سے
جناب تابشؔ صمدانی کے دو مجموعہ ہائے نعت ’’برگ ثنا‘‘ اور ’’مرحبا سیدی‘‘
ملتان سے شائع ہوئے۔ جنابِ آزادؔ کی شاعری پر گفتگو کرنے کے لیے یہ تمہید
ضروری تھی کہ جناب ابراہیم آزادؔ کی نعتیہ شاعری کا یہ تسلسل پہلی نسل سے‘
دوسری نسل‘ اور دوسری نسل سے تیسری نسل ‘ اور تیسری نسل سے چوتھی نسل تک
جاری و ساری ہے جو خلیل صمدانی سے تابشؔ صمدانی اور تابشؔ صمدانی سے رہبرؔ
صمدانی اور سرورؔ صمدانی تک پہنچی اور اب میں جناب آزادؔکی نعتیہ شاعری پر
اپنی رائے عرض کرتا ہوں۔ میرے آباؤاجداد نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو تا
قیامت رکھنے کے لیے صنفِ نعت ہی کا انتخاب کیا اور محسنِ انسانیت حضرت محمد
مصفطےٰ ﷺ کو اپنا مرکز و محور تسلیم کیا۔ میرے آباؤ اجداد کی ہر نعت اور
نعت کا ہر شعر ادب اور مقامِ ادب سے پوری طرح آگہی رکھتا ہے اور مکمل حالتِ
بیداری میں منازلِ نعت کی جانب گامزن رہا۔ جناب آزادؔ کے ہاں نعت کہنے کا
ایک خاص انداز اور ایک خاص کیفیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔آپ نے حبُ رسول
ِ پاک ﷺ کو اپنے دل و دماغ میں اس حد تک رچا بسالیا کہ ہر شعر سے ان کی
حضور پر نور سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ یقینا وہ نعت کہتے ہوئے
خود کو حضور ی و حاضری کی کیفیت میں محسوس کرتے ہوں گے۔،پروردگار عالم آپ
کی مرقد پر رحمتوں کا نزول فرمائے۔ کیا خوب فرماتے ہیں
تمہیں نورِ خدا سمجھے ‘ تمہیں خیر البشر جانا
تمہاری شان کو پھر بھی نہ اے والاگہر جانا
شبِ معراج تیرا بن کے مہماں عرش پر جانا
مقدر تیری امت کا تھا پستی سے ابھر جانا
کس قدر پاکیزہ طلب ہے
زباں سے نبی ؑ کی ثنا چاہتا ہوں
میں کیا چیز ہوں اور کیا چاہتا ہوں
فنا جس کو ہے وہ بقا کب بقا ہے
بقا جس کو ہے وہ فنا چاہتا ہوں
جہاں تک جنابِ آزادؔ کے اسلوب کا تعلق ہے میرا دعویٰ ہے اور میں پورے
اعتبارو اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ نعت گوئی کی صداؤں کے ہجوم میں ان کے
ہاں زبان و بیان کی اتنی نکتہ طر ا ز یاں، اتنی لطافتیں اور اس قدر وسعتیں
ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا آسان نہیں ، ہر شعر اور ہر مصرعے میں ایک نئی مہک،
تازگی، دلکشی اور توانائی ہے۔ لفظی تراکیب کی ایجاد اثر افرینی آج بھی اپنے
دامن میں وسعتیں لیے ہوئے ہیں جیسے یہ ۱۳۵۰ہجری نہیں ۱۹۳۲ء کی شاعری نہیں
آج کی شاعری ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دور میں اس قدر جدید شاعری اور وہ
بھی صنفِ نعت میں پاکستان میں جب کبھی نعتوں کو یکجا کرنا ضروری سمجھا گیا
تو جناب ابراہیم آزادؔ ، جناب خلیل صمدانی اور جناب تابشؔ صمدانی کے نعتیہ
اشعار متعدد بار حوالوں کے طور پر تحریر کیے جائیں گے۔جناب آزادؔ کے چند
اشعار عنوانات کے ساتھ ملاحظہ کیجئے
امیدِ شفاعت کے تناظر میں
مہر باں اس پہ نہ کیوں حشر میں رحماں ہوگا
نام لیوا جو ترا شافعِٔ عصیاں ہوگا
اشک ندامت
وہاں اشکِ ندامت موتیوں میں تولے جاتے ہیں
خدا کے واسطے اے چشمِ تر دامن کو بھر جانا
التماس قیام
رہنما تو ہو تو پھر خضر کی حاجت کیا ہے
تونے پہنچا یا ہمیں راہ دکھانا کیسا
تصورِ حضوری و حاضری
نگاہیں روضۂ شہہ سے نہیں آئیں میں آیا ہوں
الجھ کر جالیوں سے رہ گیا تارِ نظر میرا
نسبت حضرت حسان بن ثابت ؓ
تم پہ ہے حضرت حسانؓ کا سایا آزاد
نعت گوئی میں بتا تا ہے تمہارا انداز
(آزادؔ بیکانیری کی شخصیت و شاعری پر مصنف کی مرتب کردہ کتاب ’’شیخ محمد
ابراہیم آزادؔ :شخصیت و شاعری‘‘ سے ماخوذ) |
|