ملکی تاریخ میں جب پہلی بار
سیاسی جماعتوں کیجانب سے سیاسی طور اقتدارکی پر امن منتقلی کا نیا باب لکھا
جانا تھا تو اچانک طاہر القادری آئین کی تبدیلی کیلئے غیر آئینی طریقے پر
"انوکھاانقلاب"لانے کیلئے پاکستانی عوام پر تجربے کرنے کیلئے وارد ہوئے تو
تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ششدر رہ گئیں کہ ایسے وقت جب بم دہماکے،دہشت
گردی،کرپشن ،سیاسی بے یقینی ،خودکش حملے ، ٹارگٹ کلنگ ،فرقہ وارانہ اور
لسانی بنیادوں پر قتل ،سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانا ، بد ترین مہنگائی ،
لوڈ شیڈنگ ،توانائی بحران ، افراط زر ، دہشت گردوں کیجانب سے پاکستانی
فوجیوں کا اغوا اور سر قلم کرنے کے سفاکانہ واقعات ، سندھ ، خیبر پختونخوا
اور صوبہ بلوچستان میں حکومتی رٹ کی ناکامی جیسی بدترین صورت حال سے دوچار
ہے،انتخابی اصلاحات کا نعرہ لیکر آنے والے طاہر القادری نے پاکستانی سیاست
میں ایسا بھونچال پیدا کردیا کہ اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتیں تک
طاہری ایجنڈے کیخلاف یکجا ہوگئیں۔تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق)، اور ایم کیو
ایم نے اخلاقی حمایت کا اعلان کیا ۔بلکہ ایم کیو ایم تو باقاعدہ لانگ مارچ
میں بھی شامل ہونے کیلئے حتمی طور پر میدان میں اُتر آئی تھی ، لیکن عین
وقت پر کوئٹہ،سوات اور کراچی میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کو "جواز "بنا
کر لانگ مارچ میں شرکت سے معذرت کرکے طاہری ایجنڈے کو زبردست جھٹکا دیا ۔
اُس وقت ملکی اور غیر ملکی میڈیا سمیت ایک ایک ذی حس بخوبی سمجھ نہیں رہا
تھا کہ جب حکومت ختم ہونے میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں ،طاہر القادری انتہائی
رسک کی سرگرمی کیلئے مایوس کن حدتک کیوں سرگرم ہیں ؟۔طاہری ایجنڈے کے نزدیک
کمیشن کے چار اراکین جانبدار اور ایک غیر جانبدار تھے ، ۔ قابل ذکر بات یہ
ایک اور بھی تھی کہ جب طاہری صاحب سے پیپلز پارٹی نے بڑے احسن انداز میں
کامیاب مذاکرات اسلام آباد میں سینکڑوں بے گناہوں کے خون پر سیاست کرنے کی
سازش ناکام بنائی اور طاہر القادری کو بند گلی سے باہر آنے کا راستہ فراہم
کیا تو پاکستان کی جان بھی اس کینڈین مولوی سے چھوٹی۔ ورنہ قادری کی رعونت
اور غرور کا یہ حال تھا کہ مذاکرات کے دوسرے دور میں عدالتی اسیکنڈل کے روح
رواں ملک ریاض کے ڈپٹی وزیر اعظم پاکستان چوہدری پرویز الہی اور سابقہ
وزیراعظم چوہدری شجاعت کیساتھ آنے پر اتنے چراغ پا ہوئے کہ تمام برداشت و
تحمل کے بند ٹوٹ گئے اور جب تک انھیں میڈیا کی موجودگی میں گھر سے باہر
نکال نہیں دیا اس وقت تک مذاکراتی ٹیم سے" بات "کرنے کیلئے تیار نہیں
ہوئے۔یہ نہایت خطر ناک صورتحال ہے کہ جس جماعت کی سیاسی نمائندگی تک
پاکستان میں نہیں ، وہ نظام تبدیل کرنے کیلئے عوام میں ہیجان پیدا کر رہی
ہے اور قوم بم دہماکوں سے اتنی پریشان ہوچکی ہے کہ ملک نازک ترین صورتحال
سے گذر رہا ہے ، آپریشن ضرب عضب محض علاقائی آپریشن نہیں بلکہ سب اچھی طرح
جانتے ہیں کہ اس علاقے میں آپریشن کیلئے پاکستان پر کس قدر غیر ملکی قوتوں
کے ساتھ پاکستان کے کچھ حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا، اب وہاں پاکستان
کی افواج داخل ہوچکیں ہیں اور لاکھوں مہاجریں نقل مکانی کرچکے ہیں ، ضرورت
اس بات کی ہے کہ پہلے ان کی بحالی کی کوشش کی جائے ، سب کچھ فوج پر نہیں
چھوڑ دیا جائے ، قبائلی عوام سوات کی عوام کی طرح زیادہ صبر کا مظاہرہ نہیں
کرتے ، اس سے قبل بھی جب شمالی وزیر ستان میں آپریشن کیا گیا تھا تو آئی ڈی
پیز کی جانب سے اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا ، ڈر اس بات کا بھی ہے
کہ آئی ڈی پیز کا سہارا لیکر نامعلوم قوتیں ملکی انتشار کا سبب نہ بنیں،
ایسے وقت میں عمراں خان ، چوہدری بردارن ، شیخ رشید اور طاہر القادری کا
گٹھ جوڑ ملک میں نئے انتخابات کا متحمل کس طرح ہوسکتا ہے ، لازمی بات ہے کہ
وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ فوج مداخلت کرے ، لیکن آئینی ترامیم
کے بعد فوج کے لئے اقتدار سنبھالنا ناممکن ہے نیز اگر وہ ایسا کر بھی جاتے
ہیں اور ملک میں مصری نظام طرز کی حکومت قائم کرنا کا کواب دیکھ رہے ہیں تو
انھیں عراق و شام کی صورتحال بھی سامنے رکھنا ہوگی کہ بہرحال جب معاملات
مسلک کے اعتبار سے دیکھے جائیں گے تو پھر پاکستان میں بھی ایسی مذہبی قوتیں
ہیں جو پاکستان میں بھی ایک آئی ایس آئی ایس داعش کو جنم دے سکتی ہیں ۔
۔قوم حیران ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟۔سیاست دان کسی کھیل کاحصہ بن چکے
ہیں یا کسی کھیل میں حصہ نہ بننے کی وجہ سے طاہری ایجنڈا دوبارہپوری قوت
کیساتھ حملہ آور ہورہاہے۔مشرقی سرحدیں غیرمحفوظ ، بھارتی جارحیت اپنے مذموم
عزائم کیساتھ 71ء کا کھیل ہر وقت کھیلنے کیلئے تیار ہے۔ شمالی مغربی سرحدیں
بھی غیر محفوظ ،غیر ملکی عناصر ملکی غداروں کیساتھ ملکر پاکستان کی جڑیں
کھوکھلی کرچکے ہیں۔بلوچستان علیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے ، سندھ میں لسانی
تقسیم کا ایشو کسی کروٹ بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔کوئی یہ سمجھ نہیں پا رہا
کہ جو حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کی استطاعت و ہمت نہیں رکھتی وہ بیک وقت
قومی و صوبائی الیکشن اس خطرناک دہشت گردی کے ماحول میں کیونکر کرانے میں
کامیاب ہوسکتی ہے۔پانچ سال کی مدت دوبارہ پورے ہونے کا جشن ، لاتعداد
ناکامیوں پر یا اقتدار پر عوام کی مرضی و منشا ء کے بغیر جعلی ووٹ لسٹوں کی
بنیاد پر مسلط رہنے پر منایا جائیگا۔طاہری ایجنڈا کیسے لانا چاہتا ہے یہ تو
ان کو ہی معلوم ہے کیونکہ تادم تحریر ان کے سینے میں سر بستہ راز عوام کے
سامنے نہیں آسکا ہے ۔ لیکن جس طرح طاہر القادری گرج رہے تھے وہ اس بات کی
غمازی کر رہا تھا کہ انھیں بھرپور قوت کا مکمل آشیر باد حاصل ہے ۔ جبکہ
پاکستان کی تمام بے بس سیاسی و مذہبی قوتیں صرف بیان کی حد تک قوت صرف کر
رہے ہیں۔پنجاب تو ویسے ہی طاہری ایجنڈے پر آگ بگولہ ہو رہا ہے۔ فوج کیجانب
سے پہلے بھی طاہر القادری سے لاتعلقی کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا تھا
یقینی طور پر فوج اب بھی اس جنونی کے عقب میں نہیں ہوگی۔صرف رہ جاتی ہے ۔
عدلیہ، نے پہلے مختلف درخواستوں پر طاہر ی ایجنڈے کی تمام درخواستیں رد
کردیں تھیں۔عدلیہ ،جس نے سندھ حکومت کو کراچی بد امنی کیس میں ناکامی کا
ذمے دار قرار دیا ہے ۔عدلیہ،جس نے بلوچستان میں حکومت کو حق حکمرانی کا
نااہل قرار دیا ہے۔ عدلیہ ،جس نے تمام مقدمات میں وفاق اور صوبائی حکومتوں
کو عوام کی تحفظ میں ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ پنجاب ہائی کورٹ
کافیصلہ جس نے تین صوبوں میں کالا باغ ڈیم بننے کے حکم کو پاکستان توڑنے کے
مترادف قرار دیا ۔صرف عدلیہ ہی ایک ایسا کردار رہ گیا ہے جس پر سب خاموش
ہیں۔ عدلیہ کے سامنے حکومت بھی جھکی اوراسٹیبلشمنٹ بھی ، وزیراعظم بھی گھر
گیا تو بڑے بڑے نام والے بھی سرجھکا کر معافی کے خواستگار ہوئے۔بڑی بڑی
سیاسی جماعتیں صوبوں تک ، صوبائی جماعتیں شہروں تک محدود ہوچکی ہیں۔قومی
یکجہتی ختم ،مشرقی، شمالی ، مغربی کوئی سرحد محفوظ نہیں، انارکی، انتشار،
لسانیت، فرقہ واریت ، دہشت گردی،معاشی بدحالی اور بدامنی صوبائیت عروج پر
اور دو ـ"غیر سیاسی قوتوں" کواسٹیک ہولڈربنانے ہی اصل میں طاہری ایجنڈا ہے۔
لاہور جانے کے بجائے اسلام آباد آنے پھر وہاں سے لاہور جانی کی ضد سے ،اس
ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کون سی قوت سرگرم ہے اس کا تعین مشکل ہے ۔مرضی سے
مانویا زبردستی سے ، امن سے یا جنگ سے ۔پاکستان میں چار اطراف ایسا ماحول
ترتیب دیا جا چکا ہے کہ چاروناچار پاکستان کی بقا و سلامتی کیلئے تلخ فیصلے
بھی تسلیم کرنا ہونگے اور اگر تسلیم نہ کئے گئے تو کرا دئیے جائیں گے۔اس
موقع پر جمہوریت کے لئے قربانی دینے والی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک
بار پھر اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے طاہری ایجنڈے کو ناکام بنادیں۔ |