شمالی وزیرستان کے متاثرین

گذشتہ دس سال سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے، آٹھ جون 2014ء تک ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں 52ہزار409 افراد نشانہ بنے جبکہ سیکورٹی فورسز کے 5ہزار775 اہلکار شہید ہوئے، 396 خود کش حملے ہوئے جس میں 6ہزار21 افراد جاں بحق اور12ہزار558 افراد ذخمی ہوئے، 4ہزار932 بم دھماکے ہوئے۔ اسکے علاوہ پاکستان کو معاشی طور پر بھی بہت نقصان ہوا، اب تک 103 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت تباہ ہوچکی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے دوسرئے جرائم کو بھی پھلنے پھولنے کا موقعہ ملا، آج پاکستان میں ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائم عام بات ہے۔ امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ پورئے ملک میں کہیں کوئی محفوظ نہیں۔ موجودہ حکومت اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں گذشتہ سال سے طالبان سے مذاکرات کرنے پر راضی تھیں، اس سال جنوری کے آخر سے ابتک طالبان سے مذاکرات کے زریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی رہیں، لیکن دہشت گرد جو کسی اور کے ایجنڈئے پر قتل و غارت گری کررہے ہیں، مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردی میں مصروف رہے۔ آخر کار حکومت کو فوجی آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا لیکن لگتا ہے اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے حکومت نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ورنہ آج جسطرح شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین پریشان ہورہے ہیں ایسا نہیں ہوتا۔

وزیرستان کا دشوار گزار پہاڑی علاقہ گیارہ ہزار پانچ سو پچاسی مربع کلومیٹر پر پھیلا ہواہے اور یہ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں منقسم ہے۔ان علاقوں کی آبادی کا تخمینہ بالترتیب چھ اور آٹھ لاکھ لگایا گیا ہے۔ جنوبی وزیرستان کا علاقہ دریائے ٹوچی اور دریائے گومل کے درمیان پشاور کے مغرب و جنوب مغرب میں آتا ہے ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحدیں آپس میں بھی ملتی ہیں۔ شمالی وزیرستان پاکستان کا ایک قبائلی علاقہ ہے جس کو شمالی وزیرستان ایجنسی بھی کہا جاتا ہے جوکہ بنوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کا صدرمقام میران شاہ ہے۔ یوں تو اسوقت پورئے پاکستان میں دہشت گرد موجود ہیں لیکن وزیرستان دہشت گردوں کا اصل گڑھ ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کے بعداتوار 15 جون سے افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ایک جامع فوجی آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ شروع کر دیا ہے، اس آپریشن میں پاکستان ایئر فورس بھی اپنی زمینی فوج کی مدد کررہی ہے۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ طالبان دہشت گرد بچیوں کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں اور انہوں نے بچیوں کے سینکڑوں اسکول تباہ کرڈالے۔ قدرت کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں ، قوم کی ایک بیٹی عائشہ فاروق جو پاکستان ائیرفورس کی ایک پایلٹ ہیں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانا بناکراور دہشت گردوں کو جہنم میں پہنچاکر اپنا قومی فریضہ ادا کیا، سلام عائشہ فاروق اس قومی فریضہ ادا کرنے پر، اللہ تعالی قوم کی اس بیٹی کی حفاظت کرئے۔شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان کی جانب سے ایک جامع آپریشن کا بڑے عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اس علاقے میں ٹھکانے بنائے ہوئے دہشت گرد پاکستان، سکیورٹی فورسز، افغانستان اور نیٹو فوج پر بھی حملوں سے گریز نہیں کرتے تھے۔ طالبان کے خلاف اس آپریشن کے شروع ہونے کے بعد نواز شریف حکومت کے عسکریت پسندوں سے مذاکرات جاری رکھنے کی پالیسی کی عملا موت واقع ہو گئی ہے۔

قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے والے ادارے ایف ڈی ایم اے کے ایک اندازے کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی سے شمالی وزیرستان سے 6 لاکھ سے زائد افراد کی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔شمالی وزیرستان سےنقل مکانی کرنے والے بنوں، ٹانک، ڈی آئی خان اور لکی مروت میں لگائے ہوئے حکومتی کیمپوں میں آنے سے گریز کررہے ہیں۔ ابھی تک ساڑھے چار لاکھ افراد جو نقل مکانی کرچکے ہیں وہ حکومتی کیمپوں کے بجائےاپنے رشتے داروں اور دوستوں کے گھروں میں ٹھیر رہے ہیں یا پھر کرائے کے گھروں میں رہائش کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے ہی بھایئوں کے مشکل وقت میں مفاد پرست ہوجاتے ہیں اسلیے موقعہ سے فاہدہ اٹھاتے ہوئے گھروں کے مالکان نے مکانات کے کرایوں میں کافی اضافہ کردیا ہے ۔انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے گھروں سے نکلنے والوں کو میرانشاہ اور شمالی وزیرستان کے دیگر علاقوں سے بنوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بنوں میرانشاہ شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں اور گاڑیوں میں موجود بچوں خواتین اور معمر افراد کو اس شدید گرمی میں انتہائی سخت اور برے حالات کا سامنا ہے ۔ اگرچہ حکومت کا دعوہ ہے کہ وہ نقل مکانی کرنے والوں کی ہر ممکن مدد کررہی ہے لیکن جو اطلاعات آرہی ہیں وہ اس کے برعکس ہیں،لوگوں کو کھانے کی اشیا، دوایئاں اور پینے کے پانی کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ اتفاق سے یہ آپریشن ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب کہ گرمی عروج پر ہے اور رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے۔

نقل مکانی کرنے والوں کےلیےحکومت نے بنوں میں متاثرین کی رجسٹریشن کا عمل شروع کررکھا ہے اور ایف ڈی ایم اے کے ذرائع کے مطابق متاثرین کو سات ہزار روپے ماہانہ دئیے جائیں گے تاہم اصل مسئلہ بحفاظت نقل مکانی ہے جس کے لئے حکومت نے کوئی خاص انتظامات نہیں کئے۔ صرف بنوں میں الخدمت فاؤنڈیشن اور چند مقامی افراد متاثرین کو خوراک ، شربت اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ایک اور مسلئہ پولیو کے قطرئے پلانے کا ہے۔ طالبان شدت پسندوں کی پابندی کے باعث گزشتہ دو سال سے محکمہ صحت سے منسلک رضاکار شمالی وزیرستان میں تقریباً تین لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلا سکے، جس سے رواں سال ملک میں رپورٹ ہونے والے پولیو کے 83 کیسز میں 60 سے زائد کا تعلق اسی علاقے سے بتایا جاتا ہے۔ امتیاز شاہ جو پولیو کے قطرئے پلانے والی ٹیموں کے انچارج ہیں اپنی مشکلات کا ذکر یوں کررہے تھے کہ "اتنے زیادہ لوگ ہوں تو آپ کو نہیں پتہ چلتا کہ آپ نے کس کو قطرے پلائے ہیں اور کس کو نہیں۔ پھر جو نقل مکانی کرکے آرہے ہیں ان کی کیفیت کو بھی ذہن میں رکھیں۔ تو انہیں بار بار پوچھنا کہ آپ نے پیئے یا نہیں تو وہ بھی رضاکاروں کے لیے ممکن نہیں"۔

اور بھی بہت ساری مشکلات ہیں ان لاکھوں متاثرین کو اور شکایت بھی۔ پہلی شکایت تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے ہے کہ وہ ان لاکھوں متاثرین کےلیے کچھ نہیں کررہے ہیں، مذاکرات یا آپریشن کی حامی جماعتوں کو چاہیے کہ اسوقت جب قوم حالت جنگ میں ہے وقتی طور پر سیاسی اختلاف بھلاکر ان متاثرین کی مدد کریں، یہ نہ تو بھکاری ہیں اور نہ ہی غیرملکی مہاجرین یہ ہمارئے اپنے ہی بھائی ہیں، اسلیے وزیر اعظم نواز شریف سے لیکر مجھ جیسے عام آدمی تک سب کا یہ فرض ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے متاثرین بھایئوں کا ساتھ دیں۔ اسکے علاوہ دیکھا یہ جارہا ہے کہ پاکستانی میڈیا وزیرستان آپریشن کو پوری طرح کور نہیں کررہا ہے، میڈیا کے پاس طاہرالقادری کی کوریج کیلئے تو پورا دن ہے لیکن شمالی وزیرستان کے لاکھوں انسانوں کی مشکلات کو اجاگر کرنے کا ٹائم نہیں ہے۔ اب تک درجنوں فوجی اور سیکڑوں قبائلی وزیرستان آپریشن میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں لیکن میڈیااُنکے ساتھ ایسا سلوک کررہا ہےجیسے شمالی وزیرستان افغانستان ہے اور مرنے والے پاکستانی نہیں ہیں۔ پاکستانی میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ آپریشن کو زیادہ سے زیادہ کوریج دئے اور روز اُن لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرئے جو آپریشن کی وجہ سے اپنا گھرچھوڑکرنقل مکانی کررہے ہیں یا کرچکے ہیں۔ ہماری حکومت، ہمارئے سیاست دان اور ہم تمام پاکستانیوں کو اپنے بھایئوں کی آگے بڑھکر مدد کرنی چاہیے تاکہ دشمن اُنکو یہ کہہ کرنہ بہکا سکیں کہ اگر آپریشن نہ ہوتا تو آپکو یہ مشکلات پیش نہ آتیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یہ آپریشن کامیابی کے ساتھ جلد ختم ہو اور عید سے پہلے ہمارئے متاثرین بھائی اپنے اپنے گھروں میں واپس جاکر عید کی خوشیاں منایں، آمین۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 486776 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More