سب سے پہلے تو سب کو اسلام علیکم۔
ہم اتنے ناداں تو نہیں کہ یہ جان نا سکے کہ ہمارے آنکھوں میں کاجل کیوں ہے۔۔
ارے بھائی شہباز صاحب یہ سب کچھ امریکہ کی لانگ ٹرم پالیسی اور منصوبے کا
نتیجہ ہے۔ ہمارے ملک کی نہ تو کوئی راہ متعین ہے اور نہ ہی کوئی ٹارگٹ کہ
آخر ہم نے کرنا کیا ہے۔ پالیسی باہر سے بن کر آتی ہے اور ہماری حکومت اپنا
١٠٪ لیکر ان کی بن جاتی ہے۔ صدر صاحب تو اس شرط پے صدر بنے کہ جو جو مجھے
ووٹ دیکر صدر بنائیگا ہم ان کو وزارت کی سیٹ دینگے۔ اب حال یہ ہے کہ ہمارے
وزیر گنتی کے تعداد سے باہر ہیں اور ہر وزیر پر روزانہ ٩٠،٠٠٠ کا خرچ ہوتا
ہے۔ اب آپ بتائیں اگر کیری لوگر بل پاس نہ ہوا تو ان وزیر بیچاروں کا خرچہ
کون اٹھائیگا؟ عوام کے ٹیکس سے تو ان کا گزارہ ہوتا نہیں کیونکہ مہنگائی
بہت ہے۔ اب امریکہ سے مدد نہی لینگے تو کس سے لینگے۔ اب شرائط جو بھی ہوں
ان کو کیا،٩٠،٠٠٠ تو مل رہے ہیں۔
اور یہ یاد رہے کہ اس کیری لوگر بل سے عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں۔ عوام
تو پہلے بھی مر مر کے جی رہی ہے اور اس بل کے بعد تو اور بھی خانہ خراب
ہوگا۔ کیونکہ امریکہ ہمارے خالہ کا گھر تو نہیں کہ مفت کی روٹیاں توڑیں،
کچھ شرائط بھی تو ساتھ ہونگی۔
اب مزے جناب صدر، وزیر اور باقی پارلیمان مزے لے ٩٠،٠٠٠ پر ڈے ایک بندے کے
حساب سے۔۔۔۔ اور اسکا خمیازہ ہم عوام بھگتے۔۔۔آخر کیوں۔۔۔۔؟ یعنی اپنی مسجد،
اپنا مولا اور اپنے مقتدی،اللہ اکبر
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہیں کہ مل کر اس آنے والے طوفان کا رخ بدلتے ہیں
یا ہم بھی دیکھیں گے تماشا تماش بیں بن کے۔۔۔ یاد رکھیں، خدا نے آج تک اس
قوم کی حالت نہیں بدلی، نہیں ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا۔۔
ایک ماں بھی اپنے بچے کو روئے بغیر (مانگے) دودھ نہیں دیتی۔۔۔ تو ہم صدر یا
پارلیمان کے کون لگتے ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔۔ واسلام۔۔۔ |