سانحہ منہاج القران پر جتنا افسوس کیا جائے بہت کم ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاہر القادر ی صاحب پرامن انقلاب کی بات بھی کرتے
ہیں اور یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ اگر ان سے کوئی چھیڑ خانی کی گئی تو وہ
کارکنان کو نہیں روک پائیں گے۔ آج پھر وہ نواز حکومت کو یزید کہہ رہے ہیں
اور مذاکرات کے لئے اپنی سابقہ تاریخ پھر دہرا رہے ہیں جس طرح انہوں نے
سابقہ’’یزید‘‘ حکومت سے مذاکرات کرکے اپنے آپ کو سیدنا حسینؓ کا پیروکار نہ
ہونے کا ثبوت دیا تھا۔سارا دن قادری صاحب پُرامن انقلاب کی خاطر پُرامن
طریقے سے لاہور ائرپورٹ پر لگثری جہاز میں براجمان رہے اور خود کو بار بار
حسینیؓ کہنے والے اپنی جان کو بچانے کے لئے فوج سے سیکورٹی طلب کر رہے ہیں
اور صرف اپنے گارڈز اور بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ کیا لیکن اس ’ظالم‘ حکومت
سے سیکورٹی نہیں لی بس بلٹ پروف گاڑیوں کا مطالبہ کیا اور اپنے ہی سیکورٹی
گارڈز کی سیکورٹی پراعتبارکیا۔موصوفف جو کل تک اپنی شہادت کی پیشگوئی کرچکے
تھے اور اپنا خون معاف کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن موصوف اب اپنی
’معصوم‘ سی جان نہیں دینا چاہتے۔ اسی طرح علامہ صاحب کچھ عرصہ پہلے اپنے
جھوٹ خواب سے اپنی عمر ۶۳ سال بتا چکے ہیں یہ ۶۳ سال اسلامی مہینوں کے
مطابق ستمبر ۲۰۱۲ عیسوی میں پورے ہوچکے ہیں۔میرے خیال میں اب انہیں مر جانا
چاہیے میرا مطلب ہے اب انہیں رتبہ شہادت حاصل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے
اور عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنانا چاہیے۔
خود کو شیخ الاسلام اور حسینیؓ کہنے والے سیدنا حسینؓ کے کسی ایک عمل پر تو
پورا اتر جائیں کیونکہ سانحہ کربلا میں سیدنا امام حسینؓ نے عورتوں کو ڈھال
نہیں بنایا تھا انہوں نے اپنی جانثاران کو واپس جانے کا حکم بھی دیا تھا
اور پر امن طریقے سے مذاکرات بھی کرنا چاہتے تھے مگر طاہرالقادر ی صاحب اب
جہاز کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہورہے اور ملک پاکستان کی خدمت کا نعرہ
لگانے والے کینیڈا کو چھوڑنے پر تیار نہیں تو کیا موصوف دنیا چھوڑ سکتے
ہیں۔افسوس ہوتا ہے جب ہمارے ملک کے دوسرے لیڈران بھی نہ چاہتے ہوئے بھی
طاہرالقادر کی حمایت کے لئے برسرمیدان آگئے ہیں۔اب یہ اس ناکام کوشش میں
ہیں کہ کسی طرح حکومت گر جائے اور ان کی اس بہانے کایا پلٹ جائے۔عمران خان
صاحب تو ماشاء اﷲ ایک صوبے کی حکومت بھی کر رہے ہیں اور اپنی نابالغ پارٹی
کو مضبوط بنا چکے ہیں سکون سے رہیں اور ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کے لئے
حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور صرف تین چار سیٹیں ہیں جو ان کے ساتھ دھاندلی
کی گئی اس پر الیکشن کمیشن اور عدالت کام کر رہی ہے انصاف ملنے کی امید
رکھیں۔باقی چوہدری برادران ،شیخ رشیدصاحب جیسے لوگ مشرف سے وفا نہیں کرسکے
تو کیا وہ علامہ صاحب کو گھاس ڈالیں گے؟اس کے علاوہ ہر تالاب اور ہر
جوہڑمیں مچھلیاں پکڑنے کی آرزومندایم کیو ایم تو صرف اپنا برطانوی نمک حلال
کر رہی ہے۔کراچی میں روزانہ کی خونریزی اور ٹارگٹ کلنگ پر کبھی سوگ میں
نہیں آئی منہاج القران کے شہیدوں کے لئے یوم سوگ منانا ڈرامہ نہیں تو اور
کیا ہے۔اس پر مسلم لیگ کے خواجہ سعد رفیق کا بیان کہ’’ اگر کراچی کے قتل و
غارت پر ہم یوم سوگ منانا چاہیں تو سال کے ۳۶۵ دن بھی کم پڑ جائیں گے ‘‘
درست ہے۔
علامہ طاہر القادر ی اس وقت جن تحفظات کا اعلان کر چکے ہیں اور فوج کو اپنی
جان کی حفاظت کے لئے وہ بلاوا بھیج رہے اس سے تو یہی لگتا ہے قادر ی صاحب
کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت فوج کو بلا رہے ہیں۔ فوج اس وقت پہلے سے ملک کے
اندرونی دشمن’ظالمان‘ سے بر سرپیکار ہے اور شہادتیں نوش کر رہی ہے اور قوم
کی حفاظت کر رہی ہے اور ساتھ اپنی ایک مہنے کی تنخواہ بھی متاثرین آپریشن
کو دینے کا اعلان کر چُکی ہے کیا یہ ساری قربانیں فوج نے دینی ہیں سیاستدان
صرف حکومت کرنے ،انقلاب کے جھوٹے نعرے لگانے تک محدود ہیں اور آپریشن کی
حمایتی دانشور اور فلک شگاف نعرے لگانے والے اپنا جان مال قربان کرنے میں
تکلیف محسوس کرتے ہیں۔قادر ی صاحب کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے کارکنان کو
جہاد کے لئے تیار کرتے اور فوج کے ساتھ آپریشن میں لڑائی کا حکم دیتے لیکن
وہ صرف جہاد بالنفس کرنے کے حامی ہیں کیونکہ ان کا نفس ابھی تک خراب ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے لاڈلے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ کی
چھُٹی کرادی ہے اور ساتھ میں یہ سانحہ منہاج القران کو ملزمان کو سزا دینے
کا اعادہ بھی کیا ہے ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ کرے ایسا ہو اگر میاں صاحب بقول
خود وہ اس سانحہ میں ملوث نہیں تو وہ ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں
صرف رانا ثناء اﷲ کو وزارت سے ہٹا کر اور ’گُلو بٹ‘ جیسے کرداروں کو جیل
میں ڈال کے ہیرو بننے سے گریز کریں اور اس معاملے میں قادری صاحب بے قصور
ہیں تو انہیں حکومت کو ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔قوم کی یہی گزارش ہے قادری
صاحب اب درامے بند کریں اپنی توبہ کریں اور قوم کو دھوکہ دینے کی معافی
مانگ لیں۔ |