آپر یشن’’ ضرب عضب ‘‘دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے ‘ اب
تک کی کارروائیوں میں تقر یبا ً چار سو شدت پسند مارے گئے ہیں ۔ قبائلی
علاقوں میں تقریباًڈ یڑ ھ لاکھ فوج مو جود ہے جو گن شپ ہیلی کاپٹروں ،ٹینکوں
، جیٹ طیاروں اور مشین گنوں سے طالبان کے ٹھکانوں کونشانہ بن رہی ہے‘ شمالی
وزیر ستان کے مقامی شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی شدت پسند بھی اس آپر
یشن میں نشانہ بن رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے شدت پسند پہلے سے
علاقہ چھوڑ کر افغانستان اور دوسرے علاقوں میں جا چکے ہیں ۔آپر یشن ضرب عضب
میں اب تک صرف فضائی کارروائی ہوئی ہے جبکہ زمین کارروائی بھی عنقر یب شروع
ہونے والی ہے ‘ سکیورٹی اداروں کی کوشش ہے کہ رمضان سے پہلے پہلے آپر یشن
کو مکمل کیا جائے لیکن شاید مکمل آپر یشن میں وقت زیادہ لگ سکتا ہے ‘ اب
جبکہ آپریشن کا باقاعدہ آغاز ہو چکاہے تو پو ری قوم کی نظر یں اس آپر یشن
کی کامیابی پر لگی ہے کہ آپریشن کامیاب ہو اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ
ممکن ہو سکیں ۔اب تک کے سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے کوئی بڑا ناخوش گوار
واقع پیش نہیں آیا ہے جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ آپر یشن کی وجہ سے اب
تک چار لاکھ سے زائد لو گ جن میں مرد ، خواتین بچے ، بوڑھے شامل ہے مختلف
کیمپوں ، سکولوں اور کر ایوں کے مکانوں میں بہت حد تک مقیم ہو چکے ہیں لیکن
اب بھی بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے ر ہائش کامسئلہ در پیش ہے جبکہ بہت سے
خاندان اب بھی وزیر ستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہے جس کو نکالنے کے لیے
حکومت کو اقدامات اٹھانے چاہیے۔اچانک شروع کی جانے والے اس آپر یشن کی وجہ
سے وزیر ستان کے لوگوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ایک
طرف گر می عروج پر ہے ‘عام حالات میں لوگ گر می سے تنگ ہے تو دوسری طرف اس
اچانک آپر یشن نے قبائلیوں کے مشکلات میں دو گنا اضافہ کر دیاہے‘حکومت
اقدامات نہ ہونے کے برابرہے ‘لوگوں کواس گر می کے موسم میں سب سے بڑا مسئلہ
رہائش ، کھانے اور پانی کا ہے ‘صوبائی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ متاثرین
کو سر کاری سکولوں میں رہائش پذیر کیا جائے گا جس پر عمل کرنے کی اشد ضرورت
ہے کہ وہاں پر کچھ حد تک متاثرین کی مدد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ‘متا ثر
ین کو تیار خوراک بھی سکولوں اور کالجوں میں آسانی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے
اور علاج معالج سمیت دوسری ضر وریات زندگی بھی کسی حد تک دی جا سکتی ہے ‘
متاثر ین کی امداد کر نے والے اداروں کے لیے بھی آسانی ہو سکتی ہے۔
اب تک کے انتظامات نہ صرف ناکافی ہے بلکہ متاثر ین پر گزرنے والے حالات
وواقعات بھی دل دہلنے کے لیے کافی ہے ‘ جس کو یہاں پر بیان کر نا مناسب
نہیں ہو گا ۔و فاقی حکومت کو جہاں پر دوسرے بہت سے چیلنچز کاسامنا کر نا پڑ
رہا ہے وہاں پر متاثر ین کی امداد اور عر ضی آبادی کاری بھی ایک بہت بڑا
مسئلہ ہے جس کی طرف بھی وفاقی حکومت کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ر مضان
شر یف مہینے کی بھی آمد آمد ہے ‘ بے سر وساماں کے ان حالات میں روزے ر کھنا
انتہائی مشکل ہو گا ۔قبائلی لاکھ برے صحیح لیکن رمضان کے روزے رکھنا فر ض
سے زیادہ ان کے لیے غیر ت کی بات ہے ‘خاص کر خواتین روزے پر کوئی سمجھوتا
نہیں کر تی ہے جن لوگوں نے عمر بھر روزے رکھیں ہو وہ روزے کیسے چھوڑ سکتے
ہیں۔موجودہ حالا ت میں جہاں پر حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے وہاں پر پورے
معاشرے کی بھی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لو گوں کی مدد کی جائے ‘ خاص
کر ان فلاحی تنظیموں کو آ گے آنے کی ضرورت ہے جو ملک بھر میں روپے پیسے
انسانی خدمت کے نام پر اکٹھا کر تی ہے ‘ اب تک صرف مقامی سطح پر کچھ
تنظیمیں کام کر رہی ہے جو کہ نا کافی ہے یہ انسانی ز ندگی کا مسئلہ ہے سب
کو آگے آنے کی ضرورت ہے جس طرح وز یرستان کے لو گوں پر ایک آزمائش ہے اسی
طر ح پورے معاشرے اور ملک پر بھی ہے ‘ مصیبت کی اس گھڑی میں متاثر ین کی
مدد کر نے کی اشد ضرورت ہیں۔ان سیاسی جماعتوں کو بھی متاثر ین کی مدد کے
لیے آگے آنا چاہیے جو دن رات آپر یشن کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے اب وہ
لوگ کہا ں پر ہے جب لاگھوں لوگ ہجرت کرکے دربدر کی ٹھو کر یں کھا رہے ہیں ۔ |