امریکی افغانستان کی حالیہ جنگ
سے بے زار ہوتے جارہے ہیں۔ حال ہی میں ایک سینئر امریکی سفارتکار نے
افغانستان میں لڑی جانے والی لاحاصل جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ
دے دیا ہے۔ ۶۳ سالہ میتھیو ہوہ نے گزشتہ دنوں ننسی پاﺅل کو چار صفحات کا
ایک خط تحریر کیا ہے۔ جس میں افغانستان میں جاری جنگ پر اپنے خدشات اور
تحفطات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کو بھیجے گئے استعفے میں انہوں
نے کہا کہ افغانستان میں جاری جنگ عسکریت پسندی کو ہوا دے رہی ہے۔ انہوں نے
کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا کو افغانستان میں موجودگی سے
کیا فائدہ ہورہا ہے۔ میتھیو ہوہ نے چھ سال عراق میں امریکی فوج کے میرین
کیپٹن کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ اور ریٹائر ہوکر اسی سال محکمہ خارجہ میں
شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ ان دنوں زابل میں سینئر سویلین سفارتکار کی حیثیت
سے تعینات تھے۔ میتھیو ہوہ افغان جنگ کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے
پہلے سفارتکار ہیں۔ کابل میں امریکی سفیر نے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی
اور ایک اچھی نوکری کی پیشکش کی۔ مگر انہوں نے انکار کردیا اور فوراً
واشنگٹن چلے گئے اور رچرڈ ہالبروک سے روبرو ملاقات کی۔ صدر اوباما کے خصوصی
نمائندے رچرڈ ہالبروک نے میتھیو کے بعض خیالات سے اتفاق کیا ہے لیکن ان کا
کہنا ہے کہ افغان جنگ بے معنی نہیں۔ ہالبروک نے ان سے اپیل کی ہے کہ وہ
افغان پالیسی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو محکمہ خارجہ میں ہی رہیں
انہیں واشنگٹن میں تعینات کیا جائے گا۔ استعفیٰ دینے سے مسائل حل نہیں
ہوسکتے۔ جب کہ میتھیو ہوہ نے واشنگنٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ وہ اب امریکی
عوام کو ان کے شہروں میں جاکر بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے
کانگریس کے نمائندوں کو بلاکر بتائیں کہ یہ سب صحیح نہیں ہورہا ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ عراق میں جب ہمارا گروپ عراقی نوجوانوں پر تشدد کرتا تھا تو
مجھے خوشی نہیں ہوتی تھی۔انھوں نے کہا کہ امریکی افغانستان میں مر رہے ہیں۔
اور وہاں طالبان کا اثر بڑھ رہا ہے۔ امریکی سفارت کار کے استعفٰی سے اوباما
ایڈمنسٹریشن میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ بارش کے پہلے قطرے کی طرح اب مزید
ایسے احتجاج ہوتے رہیں گے۔ افغانستان میں گزشتہ روز صبح سویرے اقوام متحدہ
کے گیسٹ ہاؤس پر طالبان نے دھاوا بول دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلیری
کلنٹن کے لئے یہ ایک بد شگونی تھی۔ طالبان نے افغانستان میں تیزی سے اپنا
دباﺅ بڑھایا ہے۔ لیکن دوپہر میں پشاور کے ایک بازار میں ایک بارود بھری
گاڑی کے دھماکے میں ایک سو سے زیادہ افراد جن میں، معصوم بچے،عورتیں، اور
ایک مدرسے کے طالب علم بھی تھے۔ منظر نامہ ایک بار پھر تبدیل کردیا، اور
میڈیا کی ساری توپوں کا رخ طالبان کی جانب مڑ گیا۔ گو طالبان نے اس دھماکے
میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ لیکن امریکی اشارے یہی ہیں کہ پاکستان میں
ایسی کاروائیاں جاری رہیں، جن سے طالبان اور مذہبی رجحان رکھنے والی قوتوں
کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہو۔ اب تک اس حکمت عملی میں کامیابی بھی ہوئی
ہے۔ لیکن یہ سال اپنی جگہ اہم ہے کہ طالبان ایسی کاروائیوں میں کیوں حصہ
لیں گے۔ جس سے ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو۔ اور ایسی کاروائیوں کے خلاف
بھارت اور امریکہ اور ان کے اتحادی کیوں سب پہلے مذمت کرتے ہیں۔
رواں سال میں افغانستان میں نیٹو کے445 فوجی ہلاک ہوئے ہیں جن میں دو سو
ستتر امریکی فوجی تھے۔ افغانستان میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری جنگ کے دوران
اکتوبر 2009 کا مہینہ امریکی فوجیوں کے سال خونی ثابت ہوا جس میں اب تک
ساٹھ امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تین ہیلی کاپٹر کی تباہی میں گیارہ
امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے اگست دوہزار نو امریکی فوجیوں کے
لیے سب سے خونی مہینہ تصور کیا جاتا تھا جس کے دوران اکاون فوجی ہلاک ہو
گئے تھے۔امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کے مطابق ماہ اکتوبر ابھی تک
امریکی فوجیوں کے لیے سب سے برا مہینہ ثابت ہوا ہے۔ افغانستان میں امریکی
فوجیوں کی ہلاکت میں اضافہ ایسے وقت دیکھنے میں آیا ہے جب امریکی صدر براک
اوباما افغانستان کے بارے امریکی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں اور
افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل میکرسٹل چالیس ہزار مزید فوجیوں کا تقاضہ
کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے گیسٹ ہاﺅس پر حملہ کے بعد افغان طالبان کے ایک
ترجمان نے ایک ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے یہ کہہ کر حملے کی ذمہ داری قبول کی کہ
یہ حملہ سات نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کو درہم برہم کرنے کے
سلسلے میں پہلا قدم ہے۔ یہ تازہ ترین حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب صدارتی
انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے ملک میں سخت کشیدگی کا ماحول ہے اور امریکی
صدر براک اوباما ایک ایسے بِل پر دستخط کرنے والے ہیں جس کے تحت حکومت کے
خلاف تشدد کو ترک کرنے والے طالبان جنگجوؤں کو رقوم ادا کی جائیں گی۔ اس
دفاعی بِل کے تحت قائم ہونے والے فنڈ کے لیے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی
خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ امریکی کمانڈر عراق میں حکومت سے مل جانے والے شدت
پسندوں کو ایسی ادائیگیاں کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان
میں بھی یہ سلسلہ پہلی بار باقاعدگی سے شروع کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار رچرڈ لِسٹر کا کہنا ہے کہ عراق میں اس
سکیم کے تحت نوے ہزار بندوق برداروں نے حکومت مخالف کارروائیاں چھوڑ کر
مقامی لشکر بنائے اور اپنے شہروں کو شدت پسندوں سے بچایا۔ امریکی حکام نے
ہر جگہ اپنی جنگ لڑنے کے لئے کرائے کے لوگ بھرتی کئے ہیں۔ افغانستان کی جنگ
امریکیوں کے لئے ایک روگ بن گئی ہے۔ جس سے وہ نکلنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس
علاقے سے دستبردار بھی نہیں ہونا چاہتے ہیں، ہیلری کلنٹن کا بہ حیثت وزیر
خارجہ یہ پہلا دورہ پاکستان کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس دورے میں میڈیا،
عوام اور حزب اختلاف نے کھل کر امریکہ کے خلاف جذبات کا اظہار کیا ہے۔ دنیا
بھر میں بھی امریکہ کے خلاف ردعمل میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ کے اتحادی
اور اقوام متحدہ بھی محسوس کرتی ہے کہ سب کچھ صحیح نہیں ہورہا ہے۔ جس کی
وجہ سے اقوام متحدہ کے اداروں اور ان سے وابستہ افراد پر حملے ہورہے ہیں۔
اسی لئے اقوام متحدہ نے پاکستان اور افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں پر
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن بغیر پائلٹ طیاروں کے استعمال
کا قانونی جواز پیش کرے۔ جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ اسے جواب دینے کی کوئی
ضرورت نہیں۔ نیویارک میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انسانی حقوق سے متعلق
اقوام متحدہ کے نمائندے فلپ ایلسٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان
کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگ ہلاک ہوسکتے ہیں۔
جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کے کنوینشن کے منافی ہے۔
امریکا واضح کرے کہ ان حملوں میں بے گناہ شہری ہلاک نہیں ہورہے۔ موجودہ
حالات میں افغانستان میں ہونے والی جنگ ایک فیصلہ کن مرحلے پر داخل ہوگئی
ہے۔ اس جنگ سے نکلنے کے لئے امریکہ کو ایک جانب پاکستان پر اعتماد کرنا
ہوگا۔ تو دوسری جانب افغانستان کے طالبان سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ اس کے
علاوہ تیسرا راستہ خودکشی ہے۔ |