پروفیسر چاولہ‘ تھے تو شیخ‘ لیکن بڑے فراخ دل واقع ہوئے
تھے۔ کسی کے پلے سے‘ کھانے سے بےلطف ہوتے تھے‘ ہاں‘ گرہ خود سے کھلا کر‘
تازگی اور سکون محسوس کرتے تھے۔ دوستوں کو‘ مشکل میں چھوڑ جانا‘ انہیں کبھی
خوش نہیں آیا تھا۔ مشکل میں‘ ناصرف زبانی کلامی ساتھ دیتے‘ شانا بہ شانا
ساتھ کھڑے نظر آتے۔ ہر مثبت کام میں‘ اپنی سی‘ پوری دیانت داری سے‘ کوشش
کرتے۔ بڑے سنجیدہ شخص تھے‘ اس کا مطلب یہ بھی نہیں‘ کہ خوش طبعی سے دور
تھے۔ بڑی شائستہ اور صاف ستھری‘ خوش طبعی کرتے۔ ان کے مزاج میں‘ فطری
شائستگی پائی جاتی تھی۔ بڑے یار باش آدمی تھے۔ ہر کوئی‘ یہ ہی سمجھتا‘ کہ
وہ میرے گہرے دوست ہیں۔ پہلے پہلے‘ مجھے بھی یہ ہی محسوس ہوا۔ بعد میں
معلوم ہوا‘ ان کا منافقت سے پاک‘ یہ رویہ سب ہی کے ساتھ تھا۔
وہ معاشیات کے پرفیسر تھے۔ ایک شیخ‘ اوپر سے معاشیات کے پرفیسر‘ دستر خوان
کی فراخی‘ بلاشبہ متضاد عنصر ہیں۔ ان کی شخصیت میں توازن تھا‘ تب ہی تو‘ یہ
دونوں عنصر‘ متوازن نبھ رہے تھے۔ انہیں اپنے مضمون پر قدرت حاصل تھی۔ ان سے
کبھی کبھار‘ ان کے مضمون سے ہٹ کر بھی‘ باتیں ہو جاتیں۔ رواں عہد کے اسلام
پر‘ باتیں ہو رہی تھیں۔ مسلمان برادری کی شکستگی اور بدحالی کا رونا رویا
جا رہا تھا۔
علامہ سعید عابد کے نزدیک: اس کا باعث شرک ہے۔
علامہ عبدالغفور ظفر‘ اسے جہاد سے انحراف کا نتیجہ‘ قرار دے رہے تھے۔ ان کا
خیال تھا‘ کہ غیرت مندی ختم ہونے کی وجہ سے‘ ہم ختم ہو گیے ہیں۔
اکرام صاحب کے نزدیک‘ پاکستانیت سے دور ہونے نے‘ ہمیں رسوا کیا ہے۔
چاولہ صاحب نے‘ بالکل ہی الگ سے‘ وجہ بیان کی۔ کہنے لگے‘ ایک مولوی صاحب‘
حج سے واپس آ رہے تھے۔ روہڑی اسٹیشن پر‘ گاڑی رکی۔ مولوی صاحب نے‘ اپنے
خادم اسلام کو‘ ریلوے اسٹیشن کی ٹونٹی سے‘ پانی کا گھڑا‘ بھر کر لانے کو
کہا۔ اس گھڑے کے نیچے رینیاں تھیں۔ اسلام نے‘ بڑے تکلف سے‘ ٹونٹی کھولی‘
اتنی دیر میں گاڑی چل پڑی۔
مولوی صاحب نے‘ کھڑکی سے سر باہر نکال کر کہا: اوئے اسلام
باہر کھڑے لوگوں نے جوابا کہا: زندہ باد
مولوی صاحب نے دوبارہ کہا: اوئے اسلام
لوگوں نے‘ دوبارہ پورے جوش خروش سے‘ جوابا کہا: زندہ باد
گاڑی نکل گئی‘ پانی بھرنے والا اور زندہ باد اسلام‘ روڑی ہی رہ گیے۔ بےچارے
مولوی صاحب کے حصہ میں‘ ان دونوں میں سے‘ کوئی نہ آیا۔
آج کا اسلام بس یہ ہی کچھ ہے۔
چاولہ صاحب کے اس لطیفے پر‘ سب ہنس پڑے۔ غور کیا جائے‘ تو اس لطیفےمیں بڑا
وزن ہے۔ اگر تقوی اور قناعت والا اسلام باقی ہوتا‘ تو آج ہم مسلمان‘ ذلت کی
کھائی میں‘ نہ گرے پڑے ہوتے۔
ایک صاحب‘ نظام تعلیم کو الزام دے رہے تھے۔ یہ تفرقے کا دروازہ کھول رہا
ہے۔ مختلف نوعیت کے کورسز‘ پڑھائے جا رہے ہیں۔
کچھ دوست اس ذلت کی وجہ‘ بلاوسطہ غلامی کو قرار دے رہے تھے۔
انگریزی کے سر بھی یہ الزام رکھا گیا۔
ماں جو پہلی درس گاہ ہے‘ کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اگر ماں‘ تربیت کے
معاملے میں‘ اپنی ذمہ داری‘ ایمان داری سے‘ نبھائے تو محمود غزنوی‘ آج بھی
میدان میں اتر آئیں گے۔
میں چپ نہ رہ سکا‘ یار مثال میں‘ نام تو کوئی اچھا سا لیں۔ آپ اس ذیل میں‘
عمر بن عبدالعزیز کا نام لے سکتے ہیں۔
اس کو کیا ہوا ہے
یہ بتائیں کیا نہیں ہوا۔ ہماری یہ ہی بدقسمتی ہے‘ کہ فاتح کو ہی درست مانتے
ہیں۔
میں نے کہا: جناب سارا رولا روٹی کا ہے۔
بولے وہ کیسے
معاویہ اور امام کی فوج میں‘ مسلمان تھے۔ جو معاویہ کی فوج میں تھے اور اس
کے تنخواہ دار تھے‘ وہ معاویہ کو درست مانتے تھے‘ جو امام کے تنخواہ دار
تھے‘ وہ امام کو‘ برحق مانتے تھے۔
راجہ داہر بدھمت کا تھا‘ اس سے معرکہ آرائی کہاں ہوئی۔ منصورہ میں‘ فاطمی
حکومت تھی۔ وہ اسے ختم کرنے آیا تھا۔ اطراف میں مسلمان تھے۔ دونوں کی سپاہ‘
اپنے حاکموں کو درست قرار دے رہی تھی‘ کیوں کہ وہ ان کی تنخواہ دار تھی۔
ابراہیم لودھی مسلمان تھا‘ سپاہ میں مسلمان بھی تھے۔ بابر کی سپاہ بھی
مسلمانوں کی تھی۔ وہ اس لیے درست ٹھہرا‘ کہ فتح سے ہم کنار ہوا۔ اطراف کی
سپاہ‘ تنخواہ دینے والوں کو سچا سمجھتی تھی۔
ہم فاتح کو سچا سمجھتے ہیں اور اس کی مالا جپتے ہیں۔
ٹیپو کے فوجی‘ مسلمان تھے اور برصغیر کی دھرتی سے متعلق تھے۔ انگریز فوج
بھی‘ ان ہی پر مشتمل تھی۔ وہ انگریز کو‘ حق باجانب سمجھ کر لڑے۔ یہاں بھی‘
بنیادی مسلہ‘ تنخواہ داری کا تھا۔ جو تنخواہ دیتا تھا‘ یقینا‘ سچا وہ ہی
تھا۔
بکسر میں‘ انگزیز اور شجاع الدولہ کی فوجوں کی‘ صورت حال مختلف نہیں۔
سر سید نے‘ انگریز کا ساتھ دیا‘ عہدے‘ رتبے اور مراعت سے نوازا گیا۔ فاتح
کا ساتھی ہونے کے سبب‘ برصغیر کا محسن ٹھہرا۔ مخالفت کرنے والے‘ قتل ہوئے‘
یا کالے پانی بھیج دیے گیے۔
سنجیدگی سے غور کر لیں‘ خیر و شر کا‘ کہیں مسلہ ہی نہیں‘ مسلہ روٹی کا تھا۔
آج بھی‘ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہے ہیں۔ سپاہ‘ غلط صحیح کو نہیں جانتی‘
وہ جان فشانی سے‘ اس لیے برسر پیکار ہے‘ کہ یکم کو بالاتاخیر تنخواہ ملتی
رہے۔ کون غلط ہے‘ کون صحیح ہے‘ کون مر رہا ہے‘ اسے اس سے‘ نہ غرض تھی‘ اور
نہ آج غرض ہے‘ بس تنخواہ ملتی رہنی چاہیے۔ جب روٹی سے‘ اٹھ کر‘ سوچا جائے
گا‘ تب ہی‘ مسلمان ذلت کی دلدل سے نکلیں گے۔ ورنہ حسب روایت‘ فاتح ہی سچا
اور حق پر قرار پاتا رہے گا۔
پروفیسروں میں‘ کوئی بات آ جائے‘ تو اس کے بےشمار گوشے‘ سامنے آ جاتے ہیں۔
غیرسنجیدہ بات‘ سنجیدہ ہو جاتی ہے اسی طرح سنجیدہ بات غیرسنجیدگی کی پٹری
چڑھ جائے تو وہ کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ لفظوں کو رنگ اور نئے معنی دینا‘
کوئی ان سے سیکھے۔ گلی کی زبان بھی‘ ادبی ہو جاتی ہے۔
میری باتوں میں‘ دم تھا یا وہ بےدم تھیں‘ میں نہیں جانتا‘ ہاں البتہ میری
باتوں نے‘ ماحول کو‘ چپ اور تذبذب کی کیفیت میں‘ ڈال دیا۔ روزے کی حالت
میں‘ اس قسم کی باتیں‘ دل ودماغ پر زہریلے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اتنی دیر
میں‘ ڈاکٹر ظہور چوہدری آ گیے۔ آتے ہی جعلی غصے سے بولے‘ بابا جی آپ ادھر
بیٹھے ہیں‘ وہ ادھر‘ گھنٹے سےانتظار کر رہا ہے۔
بابر صاحب‘ حیرت سے بولے‘ وہ کون۔
آ کر بتاتے ہیں۔
اٹھیں بابا جی‘ جلدی کریں‘ ورنہ وہ چلا جائے گا۔ ہم انہیں کیا بتاتے‘ یہاں
بھی رولا روٹی کا تھا۔ تیسرا پریڈ شروع ہونے کو تھا۔ اگر یہ ؤقت‘ باتوں میں
گزار دیا جاتا‘ تو چائے بسکٹ کا معاملہ‘ پانچویں پریڈ تک چلا جاتا۔
ہم دونوں نے‘ بابر صاحب کی طرف‘ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا‘ اور چائے بسکٹ کی
جانب بڑی تیزی سے رواں ہو گیے۔
اسلام کا معاملہ اگلی نششت پر جا پڑا۔ |