موازنہ

وی بی جی‘ صرف شعری ذوق ہی نہیں رکھتے‘ بڑے اچھے اور نکھرے نکھرے‘ تنقیدی شعور کے بھی مالک ہیں۔ وہ تاریخ اور سماجیات پر بھی‘ بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے‘ کہ وہ انسان کا درد‘ اپنے سینے کی بے کراں وسعتوں میں‘ محسوس کرکے‘ اپنے انسان دوست ہونے کا‘ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اگر وہ جوان ہیں‘ تو ان کی تحریریں‘ اس امر کا ثبوت ہیں‘ کہ ہماری نسل فکری اعتبار سے‘ زندہ ہے۔ اگر تھوڑا بڑی عمر کے ہیں‘ تو یہ بھی‘ خوش آئند بات ہے‘ کہ ہمارے بڑے‘ اپنی نسل کا‘ دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ ۔ ان کی تحریریں‘ انھیں جوانوں کی صف میں‘ کھڑا نہیں کرتیں بلکہ پختہ شعور کی حامل ہیں
کل ہی کی بات ہے‘ کہ مجھے‘ ان کی چند لائنوں کو‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں اپنے وجود کی دیانت داری سے عرض کرتا ہوں‘ کہ ان لائنوں نے‘ مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے‘ اور میں مسلسل سوچے چلا جا رہا ہوں۔ ہر لفظ سچائی کا آئینہ ہے۔ جو انہوں نے تحریر فرمایا ہے‘ اس میں‘ رائی بھر‘ مبالغہ‘ ملمع یا جانب داری کا عنصر موجود نہیں ہے۔ آپ بھی‘ ان کا کہا‘ ملاحظہ فرما لیں:

ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتے ہیں، جہاں بُرا کرنے والے کو‘ اس کے کیے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں‘ جن میں سرے سے‘ سزا ملی ہی نہیں، بلکہ ظلم کرنے والے‘ آخری سانس تک عیاشی اور ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں‘ جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر‘ اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں، جب کہ ظالم لوگوں کے لیے‘ قدرت نے‘ قدرے آسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے‘ جیسے دل کا دورہ پڑنے سے‘ اچانک دُنیا سے‘ اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے‘ کہ اگر دُنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا‘ اور ہر ظالم کو‘ حق کے مطابق سزا مل رہی ہوتی، تو، نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا، اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت تھی۔
یہ افسانہ ان کے خیالات کے تناظر میں ہی‘ تحریر کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں

راحت مرزا‘ علاقے کا‘ بڑا کھاتا پیتا اور نمبردار قسم کا شخص تھا۔ اس کو‘ اس کے اطوار کے حوالہ سے‘ کراہت مرزا کہنا غلط نہ ہو گا۔ ملاوٹ‘ ہیرا پھیری‘ ظلم و زیاتی‘ جیسے اس کی سرشت میں شامل تھے۔ زناکاری میں‘ شاید ہی‘ اس کا ثانی رہا ہو گا۔ ہر دو نمبری عورت‘ اسے دل و دماغ پر بیٹھاتی تھی۔ ایک عورت نے‘ راحت مرزا کے کہنے پر‘ طلاق تک لے لی۔ راحت مرزا نے‘ اسے چند ماہ‘ تصرف میں رکھا‘ بعد ازاں اس کے کھسم کو‘ دوبارہ سے‘ نکاح پر مجبور کر دیا۔ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود‘ شرمندگی اور تاسف کا‘ دور تک‘ نام و نشان نہ تھا۔ وہ عورت‘ دھڑلے سے بسی۔ لوگ توئے توئے کرنے کی بجائے‘ راحت مرزا کے ذوق کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

اس کا دو نمبری سامان‘ بلا روک ٹوک‘ دھڑا دھڑ بک رہا تھا۔ گرفت کرنے والے ادارے‘ ریاست کے ملازم ہو کر‘ اس کے‘ جی حضوریے تھے۔ حیرانی یہ تھی‘ کہ قدرت بھی‘ اس کی پوچھ گچھ نہیں کر رہی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے قدرت نے‘ اسے کھلی چھٹی دے رکھی تھی؛ یا پھر وہ پیدا ہی ظلم و زیادتی کے لیے ہوا تھا۔ کبھی‘ چھوٹی موٹی بیماری آ جاتی‘ تو اس کے اردگرد‘ رقص کرتے گماشتوں سے خوف کھا کر‘ دم دبا کر‘ بھاگ جاتی اور اس کے حصہ کی اذیت کے لیے‘ کسی کم زور اور گریب کا گریبان جا پکڑتی اور ساری کسریں نکال کر‘ خلاصی کرتی۔ بات یہاں تک ہی محدود نہ رہتی‘ بیماری سےاٹھنے کے بعد بھی‘ وہ گریب اور کم زور‘ کئی ہفتے سسک سسک کر‘ گزارتا۔ بیماری سےاٹھنے کے بعد‘ اسے دو چار روز کا آرام نصیب نہ ہوتا۔
اس کی تینوں زوجاؤں کو بھی‘ اس کی عورت پسندی پر‘ کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنے حال میں‘ مست تھیں۔ شاید ہی‘ دنیا کی کوئی چیز ہو گی‘ جو انہیں میسر نہ ہو گی۔ سوچتا ہوں‘ آخر وہ کس مٹی سے اٹھا تھا‘ کہ اس کی قوت باہ پر‘ فرق نہ آیا تھا۔ شاید اکبر بادشاہ کے‘ طبیب خاص کی نسل کا‘ کوئی حکیم اسے میسر آگیا تھا۔ ایک ہی کام کرتے کرتے‘ آدمی اکتا جاتا ہے‘ لیکن اس کے ذوق و شوق میں ہر لمحہ اضافہ ہی ہوا۔ تازہ مال فراہم کرنے والے‘ اس کی آتش شوق کو‘ ہوا دیتے رہتے تھے۔ وہ ان سے خوش تھا‘ وہ اس سے خوش تھے۔ مال بھی‘ اس کے پاس آنے میں‘ خوش بختی محسوس کرتا تھا۔

یہ ستمبر کی‘ ایک بھیگی سی شام تھی۔ چاند اپنی بھیگی کرنیں برسا رہا تھا۔ اس روز‘ راحت مرزا کے گھر کے لان میں‘ بڑی چہل پہل تھی۔ شاید کوئی تقریب تھی۔ علاقے کے معروف شرفا‘ جنہیں شورے کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ آئے ہوئے تھے۔ ان کی بہو بیٹیاں تقریبنی لباس میں موجود تھیں ۔ راحت مرزا‘ نیکر بنیان میں کبھی ادھر‘ اور کبھی ادھر‘ جا رہا تھے۔ چہار سو‘ قہقہوں کے انار پھوٹ رہے تھے۔ تقریبا لباسی سینے‘ جب کسی قہقہے کی زد میں آتے‘ راحت مرزا کی آنکھوں میں‘ چمک پیدا ہو جاتی۔ وہ اس اپسرا کو دل کی ڈائری پر رقم کر لیتے‘ کیوں کہ اس کا تصرف‘ اس کے لیے ناممکن نہ تھآ-

اچانک شور اٹھا۔ سب‘ اس جانب‘ تیزی سے بڑھے۔ کسی حسینہ کے سینے کی‘ غیر معمولی اور ہوش شکن تھرتھراہٹ نے‘ راحت مرزا کے دل کی دھڑکنوں کو‘ غیر مسلسل کر دیا تھا۔ یہ سب‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘ لمحوں میں ہو گیا۔ شہر کے معروف‘ اور ماہر معالج طلب کر لیے گیے‘ مگر سب لاحاصل رہا۔ ان کے آنے سے پہلے ہی‘ راحت مرزا چل بسے۔ یہ سارا عمل‘ دو چار لمحوں میں‘ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ رونے دھونے سے زیادہ‘ تبصروں کا دور شروع ہو گیا۔ جملہ شرفا‘ باتیں کرتے ہوتے‘ مین گیٹ کی طرف بڑھ گیے۔ منٹوں میں‘ ویرانی کا دیو پھر گیا۔ راحت مرزا چل بسے تھے۔ ان کے سبب‘ یہ ساری رونق تھی۔ وہ چل بسے تھے‘ اب وہاں کسی کا‘ کیا کام رہ گیا تھا۔ اسٹیشن پر‘ بلا انجن کھٹری گاڑی پر‘ کون سوار ہوتا ہے۔ راحت مرزا کا جسد خاکی‘ غیر تو غیر‘ اپنوں کے لیے بھی‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ہاں اس کے چھوڑے مال سے‘ بیگمات تو اپنی جگہ‘ دور قریب کے رشتہ داروں میں بھی‘ بڑی گہری دل چسپی موجود تھی۔

راحت مرزا کا جنازہ‘ بڑی پانچ صفوں پر مشتمل تھا۔ جائیداد کے حصہ داروں‘ اور حصہ کے خواہش مندوں کو تو آنا ہی تھا‘ کئی محلہ دار‘ تکلفا چلے آئے تھے۔ بخشو اور رحمو جیسے‘ ثواب کمانے کی غرض سے چلے آئے تھے۔ تکلفا چلے آئے والوں نے‘ جنازہ کے بعد‘ راحت مرزا کے سالوں وغیرہ کو‘ الله کا حکم کہا‘ اور چلتے بنے۔ ثوابی حضرات بھی‘ چلتے بنے‘ ہاں البتہ بخشو اور رحمو‘ قبرستان تک چلے آئے۔ نہ بھی آتے‘ تو کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔

میت دفنانے میں‘ ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ وہ دونوں‘ ایک پکی قبر پر آ بیٹھے۔ ان دونوں نے‘ راحت مرزا کی زندگی پر خوب تبصرہ کیا۔ درمیان میں‘ ماسٹر منظور صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔ ماسٹر منظور صاحب نے‘ صرف چار جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ مزدوری کرتے تھے۔ ١٩٦٥ میں فوج میں بھرتی ہو گیے۔ جنگ ١٩٦٥ کے بعد‘ ریزرو بھیج دیے گیے۔ پھر انہیں‘ چناب رینجرز میں‘ بھرتی ہونے کا موقع مل گیا۔ بلا کے ذہین اور محنت تھے۔ یہاں ان کی ملاقات‘ ایک سیدزادے سے ہو گئی۔ وہ بھی چناب رینجرز میں‘ باطور نرسنگ حوال دار‘ فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے منظور صاحب کو تین ہدایات جاری کیں
چلتے پھرتے‘ اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے‘ درود پاک پڑھتے رہو
مرتے دم تک رزق حلال کھاؤ
تعلیم حاصل کرو۔ پھر انہوں نے میٹرک کی کتابیں خرید کر دیں۔

منظور صاحب نے‘ ان تینوں باتوں پر‘ دل وجان سے عمل کیا۔ جھوٹ والی بات ہے‘ منظور صاحب نے‘ ایم اسلامیات تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے انگریزی کا امتحان بھی دیا۔

منظور صاحب باطور نائیک وائرلس آپریڑ‘ ریٹائر ہو کر آگیے۔ اس سید زادے کی ہدایت پر‘ اسکول کھول لیا۔ اس نے‘ اسکول میں اپنے بچوں سے‘ تدریس کے کام کا آغاز کیا۔ ایمان داری اور محنت کے سبب‘ پیٹ بھر روٹی میسر آنے لگی۔ پورا علاقہ‘ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ گریبوں کو مفت تعلیم دیتے تھے۔ گھر والوں کو‘ ہر سہولت مہیا کرتے تھے۔ رشتہ داروں اور ڈھلے والی کے ہر شحص سے‘ ان کا حسن سلوک آج بھی معروف ہے۔

زندگی میں‘ انہوں نے بڑی محنت کی‘ اپنوں پرائیوں سے‘ محبت کی۔ ان کا خیال رکھا‘ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے۔ آڑے وقت میں‘ ان کی مدد کی۔ بیمار پڑ گیے۔ دو سال بیمار رہے۔ پہلے پہل تو بیماری کی جانب‘ کوئی خاص توجہ نہ دی۔ انسان تھے‘ کب تک برداشت کرتے۔ آخر بیماری نے‘ بستر پکڑنے پر مجبور کر دیا۔ تین ماہ بیماری نے خوب رگڑا دیا۔ اس کے باوجود‘ ایک آدھ بار‘ اسکول کا چکر ضرور لگاتے۔ آخری پندرہ دن تو قیامت کے تھے۔ انہیں لنگز کینسر تھا۔ حلال کی کھانے والے تھے۔ گلاب دیوی ہسپتال سے‘ علاج کراتے رہے۔ کیا ہونا تھا۔ وہ کوئی دھن وان نہیں تھے‘ جو بڑے ہسپتالوں سے‘ علاج کرواتے۔ آخر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے‘ دنیا سے چلے گیے۔

یار‘ الله کی بھی کیا حکمت ہے‘ جو اس کے ہر قانوں کی‘ بڑی سینہ زوری سے‘ خلاف ورزی کرتا‘ زندگی بھر‘ موج اڑاتا ہے۔ مرتے دم تک‘ اس پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔ موت بھی اس کا حیا کرتی ہے۔ اسے‘ لمحوں کی بھی‘ ازیت اٹھانا نہیں پڑتی۔ ماسٹر منظور جیسے‘ ایمان دار‘ ہم درد اور دوسروں کی مدد کرنے والے‘ پرازیت زندگی گزار کر‘ عبرت ناک موت مرتے ہیں۔

یار‘ قدرت کا یہ کیسا طور اور چلن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا‘ کہ ایمان داری کی زندگی گزارنے والے‘ احمق ہیں۔ ہر کسی کو‘ راحت مرزا کا چلن لینا چاہیے۔ اچھائی‘ ایمان داری‘ محنت‘ خدا خوفی‘ دوسروں کا درد وغیرہ‘ سب پاکھنڈ ہے۔ راحت مرزا کی زندگی‘ ہی اصل زندگی ہے۔ ہم نے تو‘ یوں ہی بے کار زندگی گزار دی ہے۔

باتوں ہی باتوں میں‘ انہیں وقت گزرنے کا‘ احساس تک نہ ہوا۔ راحت مرزا کی قبر پر‘ پھول چڑھ چکے تھے۔ مولوی صاحب دعا مانگ رہے تھے۔ ہر کسی نے‘ دعا کے لیے‘ ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ کسی کو مرنے والے کی بخشش وغیرہ سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ رسمی سہی‘ دس پندرہ لوگوں کے‘ ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے‘ بہرطور اپنا فریضہ نبھایا۔ وہ چلے‘ تو سب چل دیے۔ راحت مرزا کا رول ختم ہو چکا تھا۔ اسٹیج پر‘ اس کے سالے‘ آ گیے تھے۔ اب انہیں‘ اپنی اداکاری کے جوہر دکھانا تھے۔

رحمو ساری رات‘ سو نہ سکا۔ اسے یوں لگا‘ جیسے اس نے‘ ساری زندگی‘ بےکار میں گزار دی ہو۔ زندگی انہیں معتبر رکھتی ہے‘ جوعیش کرتے ہیں۔ وہ جزا سزا کے فلسفے سے متعلق نہیں ہوتے۔ فرشتہءاجل بھی انہیں آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ماسٹر منظور صاحب سے لوگ‘ اچھائی کرکے‘ زندگی میں ہی‘ اچھائی کی سزا بھگتتے ہیں۔ اچھائی کا فائدہ ہی کیا‘ جو اس کی جزا ملنا نہیں‘ بلکہ سزا کے دوزخ سے ہی گزرنا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا‘ کہ وہ اب‘ راحت مرزا سے بڑھ کر‘ انھی ڈال دے گا۔ الله‘ انھی مچانے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔

ساری رات آنکھوں میں گزارنے کے باعث‘ اسے گہری نیند نے آ لیا۔ خواب میں‘ اسے ماسٹر منظور صاحب ملے۔ وہ بالکل صحت مند تھے اور سفید لباس میں‘ فرشتہ لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر‘ مسکراہٹ تھی۔ بیمار اور تندرست منظور صاحب میں‘ زمین آسمان کا فرق تھا۔ فرمانے لگے-

رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہونا۔ میں انسان تھا‘ نادانستہ سہی‘ مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔ الله نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘ مجھے الله کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر لمحہ‘ الله کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن‘ یقینا بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو‘ یہ ہی میری پوری زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔ لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘ دعا کی۔ الله انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت کا موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی توبہ کا موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ بدنصیب‘ اور کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔

ماسٹر منظور صاحب کی‘ شہد آمیز باتیں جاری تھیں‘ کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ وزیر بیگم نے‘ اسے جگا دیا۔ دروازے پر بخشو تھا‘ اور اس کے منہ میں‘ ایک تنخواہ بونس میں ملنے کی‘ خوش خبری تھی۔ اس نے سن رکھا تھا‘ کسی نیک کے متھے لگنے سے‘ بھاگ کھل جاتے ہیں۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت بخشو‘ اس کے رو بہ رو کھڑا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب الله‘ اپنی جناب سے عطا کر دیتا ہے‘ تو دو نمبری کمائی کی طرف‘ قدم بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اسے الله نے‘ کل کی غلیظ سوچ پر‘ توبہ کا موقع فراہم فرما دیا تھا۔ الله کے اس احسان پر‘ اس کا سر تشکر سے جھک گیا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190862 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.