ہمارے ٹی وی چینلز یا برقی ذرائع
ابلاغ (الکٹرانک میڈیا) کی حکمت عملی اور طرز عمل اعتدال پسندی اور سلاست
روی اور غیر جانبداری سے اس قدر دور ہوچکے ہیں کہ اب اگر ان پر گرفت نہیں
کی گئی تو نہ صرف ملک کی بدنامی ہوگی بلکہ اصلاح کی گنجائش بھی نہیں رہے گی۔
ماضی میں شہنشاہوں اور بادشاہوں کے درباری شاعر اپنی خوشامد اور چاپلوسی سے
بھر پور قصیدہ گوئی کیلئے نہ صرف بدنام تھے بلکہ حقارت کی نظروں سے دیکھے
جاتے تھے ۔ ان قصیدہ گو شاعروں سے بدترحال ہمارے ٹی وی چینلز کا ہے۔ یوں تو
ہمارے تمام ٹی وی چینلز میں اعتدال تو غالباً شروع سے نہیں ہے اور ایک ہی
معاملے پر ساری توجہ مرکوز کردینے کی بھیڑچال تو عرصہ سے چلی آرہی ہے مثلاً
کسی ریاستی وزیر کی کسی لڑکی سے وعدہ خلافی یا بے وفائی کا قصدہ اور متعلقہ
افراد کے ردِعمل اور بہت ساری متعلقہ اور غیر متعلقہ تفصیلات اور باتوں کا
سلسلہ چلاہی رہا۔ کسی چھوٹے بچے کے بورویل میں گر کر پھنس جانے کے واقعہ کو
گھنٹوں نہیں بلکہ ایک دن ایک رات سے زیادہ تمام ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا
رہا۔ اندھی مسابقت کی یہ بھیڑ چال نہ کبھی پسند کی گئی اور نہ ہی کی جاسکتی
ہے۔
جس زمانے میں صرف اخبارات ہی ذرائع ابلاغ یا میڈیا کہلاتے تھے اور ریڈیو
یعنی آکاش وانی یا آل انڈیا ریڈیو تو تھا ہی سرکاری، ہماری طرح بہتوں کو
یاد ہے کہ ایک زمانے میں تقریباً (65-60) بلکہ (45) سال قبل تک صرف آل
انڈیا ریڈیو سے اہم مواقع پر تازہ ترین حالات کا پتہ چلتا تھا خاص طور پر
ہند۔پاک یا ہند چین جنگ وغیرہ کے مواقع پر ہندوستان اور پاکستان میں بی بی
سی پر لوگ زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔ بعض اخبارات اس وقت بھی ہندومہاسبھا اور
جن سنگھ کے حامی تھے تو ’’ہندو‘‘ اور ’’اسٹیس مین‘‘ اپنی غیر جانبداری
کیلئے مشہور و ممتاز تھے لیکن جب ملکی اخبارات پر امریکہ و مغرب کے یہودیوں
اور صیہونیوں کا اثر سنگھ پریوار کی وجہ سے بڑھا وہ یوں کہ جانبدار اخبارات
کے مالکین سرمایہ دار اور صنعت کار سنگھ پریوار کے زیراثر تھے لیکن پھر بھی
صحافتی فضاء خاصی صحت مند تھے لیکن خانگی ٹی وی چینلز نے ذرائع ابلاغ کی
دنیا ہی بدل دی۔ غیر جانبداری ، جانبداری میں بدل گئی ۔ خبروں کے معیار اور
مستند ہونے کی کوئی اہمیت نہیں رہی بلکہ اپنی پسند کی غلط بے بنیاد،
جانبدارانہ خبروں کو عوام پر مسلط کیا جانے لگا کیونکہ زیادہ تر قومی چینلز
کے مالکین تاجر، سرمایہ دار اور صنعت کار (از قسم امبانی) ہیں اس لئے یہ سب
چینلز زیادہ تر مغرب کے دئیے ہوئے رہنما خطوط پر کام کرتے ہیں مثلاً دہشت
گردی میں مسلمانوں کو ہر حال میں ملوث بتانے کے لئے جھوٹی خبروں کی تشہیر
اور مسلم دشمن پولیس اور ایجنسیوں کی دی ہوئی جھوٹی، بے بنیاد بلکہ نفرت
پھیلانے والی خبروں کو دماغوں پر مسلط کرنا اسی لئے مسلمانوں کی دہشت گردی
اور ’’انڈین مجاہدین‘‘ کو ٹی وی چینلز کی تخلیق قرار دینے والے کوئی اور
نہیں پریس کونسل آف انڈے کے صدرنشین جسٹس مار کنڈے کاٹجو ہیں۔ ٹی وی چینلز
کا یہ حال سالوں سے ہے اکشردھام مندر پر حملے کے مبینہ ملزموں کو سپریم
کورٹ نے چھوڑ دیا تو یہ خبر رواروی میں کسی نے بیا ن کی اور کسی نے نظر
انداز ہی کردیا لیکن حال ہی میں چند گرفتاریاں ہو ئیں تو اس کے چرچے ہوتے
رہے۔ مودی کے تذکروں کے علاوہ کوئی ذکر تھا تو وہ گرفتار شدہ دہشت گردوں کے
بارے میں بے سروپا داستانیں!
2014ء کے انتخابات سے بہت پہلے آر ایس ایس اور اس کے امریکی سرپرست، مشیر و
مددگار صیہونیوں اور موساد وغیرہ نے اپنی مصلحتوں (جس میں مودی کی مسلم
دشمنی اور سرمایہ داروں کو ہر طرح نوازنے، مراعات دینے کی پالیسی کو اولیت
حاصل تھی۔ مودی کے پروپگنڈے اور تشہیر کے لئے خاص اہتمام کیا گیا امریکہ کی
یہودی کمپنیوں اور فرمس نے لاکھوں بلکہ ملین ڈالر لے کر یہ کام بہ حسن و
خوبی انجام دیا اس کی تفصیلات اخبارات میں آچکی ہیں۔ کانگریس والے اتنے
احمق تھے کہ راہو ل گاندھی کی تشہیر کا کام اسی امریکی ادارے کو دے دیا جو
مودی کی پبلسٹی کررہی تھی۔ ہندوستان کے بیشتر اہم (وہ بھی مختلف زبانوں کے)
ٹی وی چینلز کی خدمات اس طرح حاصل کی گئیں کہ آپ ہم سب سوائے مودی مودی کے
اور کچھ سننے سے قاصر تھے۔ انتخابات میں لگتا تھا کہ تمام ٹی وی چینلز مودی
کے (بی جے پی کے بھی نہیں) ذاتی اور شعبہ تشہیر کا حصہ ہیں اپنے اوقات اور
تمام پروگرام کا اس طرح اشتہاری بنادینا بے حد معیوب اور صحافتی اخلاق کے
مغائر ہے۔ خیر انتخابات میں جو ہوا اور نتائج کے اعلان کے بعد تو مودی کی
قصیدہ گوئی ختم ہونی چاہئے تھی اگر مودی کی جگہ راہول گاندھی یا کجریوال ہی
وزیر اعظم بنتے تو بھی مستقلاً ان کے چرچے کا کوئی جواز نہ تھا دنیا میں
کیا ہورہا ہے؟ ملک میں کیا ہورہا ہے؟ اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ترنمول
کانگریس، بیجوجنتادل، جیہ للیتا، ٹی آر ایس کے چندر شیکھر کیرالا میں مسلم
لیگ ، آسام میں مولانا اجمل اور حیدرآباد میں مجلس اتحادالمسلمین کی
کامیابیوں کا ذکر بھی برائے نام ہوا۔
ٹی وی چینل بلکہ تمام ذرائع ابلاغ کے لئے یہ بات قابل شرم ہے کہ برسراقتدار
آنے والی جماعت کے کامیاب امیدواروں میں ایک بھی مسلمان کا نہ ہونا یا بی
جے پی کی حلیف جماعتوں کے محاذ این ڈی اے کی جانب سے صرف ایک مسلمان
امیدوار کا کامیاب ہونا اور لوک سبھا میں مسلمان امیدواروں کی تاریخی کم
تعداد پر میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی۔ حد تو یہ ہے کہ مودی کی رسم حلف
برداری کے دن ریلوے حادثہ میں زائد از (40) افراد کی ہلاکت کو بھی سرسری
انداز میں بیان کیا گیا جوکہ میڈیا کی بے حسی کی بہت بڑی مثال ہے۔ میڈیا کو
اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ شائد مودی کی کابینہ ملک کی پہلی کابینہ
ہے جس میں صرف ایک مسلمان وزیر ہے اور اس کو بھی غیر اہم محکمہ دیا گیا ہے۔
لگتا ہے کہ میڈیا کو مسلم مسائل اور مسلمانوں کے مفادات سے کوئی دلچسپی
نہیں ہے۔ بی جے پی میں جو مسلمان ہیں خاص طور پرمختار نقوی، شاہنواز، نجمہ
ہبت اﷲ، ایم جے اکبر اور چند ضمیر فروش ہمدردان بی جے پی (ظفر سریش والا
اور شاہد صدیقی) اور چند علماء جن کو نہ ہم مولانا لکھنا چاہتے ہیں اور نہ
ہی ان کے نام لکھ کر اپنی اور آپ کی طبیعت کو مکدر کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف
مسالک اور علاقوں کے یہ مسلمان (نام نہاد) علماء میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ
نہ مسلمانوں کے مفادات سے دلچسپی رکھتے ہیں اور مارے حماقت بھری شوبازی کے
اردو میں انگریزی و ہندی الفاظ ملاکر بول کر پتہ نہیں کیا ظاہر کرنا چاہتے
ہیں؟
مودی کابینہ میں اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کی عدم شمولیت کو کوئی اہمیت
نہیں دی گئی اور نہ ہی جسونت سنگھ کو کسی نے یاد کیا۔ ہم کو اس پر اعتراض
نہیں ہے کہ ٹی وی چینلز نے مودی کو بہت زیادہ اہمیت دی ہم کو اعتراض، دکھ و
ملال اس بات پر ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری نظام میں جمہوریت کے چوتھے
ستون یعنی میڈیا نے مودی سے اور مودی کے چاہنے والے اداروں اور افراد سے
ملنے والی بیش بہا رقومات کی خاطر خود کو فروخت کردیا اور لگتا ہے کہ مودی
کو اپنے اقدامات کی تشہیر، تائید اور حمایت کی خاطر آنے والے دنوں میں بھی
میڈیا کی ضرورت ہوگی اور میڈیا ملکی یا عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر
حکومت یا مودی کی خوشامد، چاپلوسی اور قصیدہ گوئی میں مصروف رہے گا۔
اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ٹی وی چینلز سے کوئی امید نہیں رکھنی
چاہئے وہ تمام ٹی وی چینل (بہ شمول ای ٹی وی اردو) کو غیر جانبدار نظر نہیں
آتا ہے اور اس سے بڑا حزنیہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کی یہ بے راہ روی اور بے
سمتی پر بہت کم اعتراض کیا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ اردو والے، ای ٹی وی کے
بدلے ہوئے رویہ پر حسب روایت خاموش ہیں۔ |