کسی معروف نقاد کا یہ قول ہے کہ
’’شعر وادب تفسیر زندگی بھی ہے اورتصویر زندگی بھی‘‘ ادب کے متعلق دو
نظرئیے ہیں ایک ادب برائے ادب اور دوسرا اد ب برائے زندگی ہے۔ پہلانظریہ
ادب کو محض روحانی مسرت اور تفریح طبع کاذریعہ قرار دیتا ہے، اس نظریہ کے
حامی ادب کا خارجی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق
اگر ادب میں زندگی کے خارجی واقعات کو دخل دیا گیا تو ادب ادب نہیں رہتا
بلکہ ایک عارضی شئے بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے ادب کو زمان ومکاں کی قید سے
آزاد ہونا چاہئے اوراس کا تعلق لطیف جذبات اور خیالات سے ہونا ہی کافی ہے،
وہ ادب جس کا تعلق محض انسان کے جذبات اور خیالات سے ہوتا ہے پائیدار اور
مقبول عوام ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر میر، غالب، جگر، حسرت اور اصغر گونڈوی
کاکلام آج بھی مقبولیت اور پسنددیدگی کی نظر سے دیکھا جاتاہے اور دیکھاجائے
گا۔
ادب برائے زندگی کے نظریہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں انسان کو جو
بھی نعمت عطا کی گئی ہے وہ اس کی زندگی کو خوشگوار بنانے میں مدد دیتی ہے ،
شعر وادب کاذوق بھی شاعر وادیب کے لئے ایک ایسی ہی نعمت ہے جس سے وہ
انفرادی اوراجتماعی زندگی میں ایک خوش گوار اضافہ کرسکے ، شاعر یا ادیب
اپنے ماحول سے متاثر ہوکر کہتاہے اسی لئے شاعر وادیب کو اپنے ماحول کا
آئینہ دار کہا گیا ہے ، اس کی انفرادی اوراجتماعی زندگی کا اثر اس کے تخلیق
میں غیر شعور ی طورپر داخل ہوجاتاہے ، چنانچہ جن لوگوں نے شعوری طورپر ادب
برائے زندگی کے نظریہ کو اپنایا۔انہوں نے اپنی تخلیقات سے عوام کو بہت
فائدہ پہنچایا ہے، ادب درحقیقت ہماری زندگی کو بڑا فیض پہنچاسکتا ہے
بشرطیکہ اس کا اسلوب طرز ادا اوراس کی لطافت کو قائم رکھاجائے۔
ادب زندگی کی صحیح عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح اور ترقی کا بھی
ضامن ہوتا ہے ، ادب کاا صل مقصد سماج کی بہتری اور انسانیت کی بلندی ہونا
چاہئے ، اصلاح زبان ومعاشرت اس تحریک کی ایک معمولی سی کڑی ہے۔ اس لئے ادب
میں مقصدیت ہونا لازمی ہے ، اس کے برعکس تفریح اور دل بہلاوے کا ادب ناقص
اور غیر مفید ادب کہلاتا ہے ، بے شک بعض مقصد معمولی اوروقتی ہوتے ہیں جبکہ
بعض بلند مقاصد ہوتے ہیں ، سیاسی شعور اوربیداری پیدا کرنے کے لئے جنگ کے
لئے ، قومی تحریک یا آزادی کے لئے جوادب تخلیق کیاجائے وقتی مقصد پورا ہونے
کے بعد بے اثر اور بے کار ثابت ہوتا ہے ، لیکن بعض مقاصد بلند اور جامع
ہوتے ہیں جن میں ابدیت اورآفاقیت پائی جاتی ہے اورایسا شعر وادب غیر فانی
اورلازوال مقبولیت کاحامل ہوتاہے ایسا ادب تخلیق کرنے والے شعراء ادب کے
اْفق پر ہمیشہ درخشاں اور روشن رہتے ہیں۔شاعری کا مقصد یہی ہے کہ انسان خود
کو پہچانے ، وہ قوتِ خودی سے آگاہ ہو، اْسے اپنی ذات اوراپنے عزم پر مکمل
بھروسہ ہو، زندگی سے بھاگنے کے بجائے زندگی سے قریب تر ہو، وہ غریبوں اور
مظلوموں کو ظلم وتشدد سے آزاد کرنا چاہتا ہو، زندگی میں حرکت وعمل کاخواہاں
ہو اوراس طرح انسانیت کونئی روح بخش سکے، ایسی شاعری میں آب ورنگ بھی
ہوتاہے ، دلکشی اور تاثیر بھی ہوتی ہے ، اس میں شعریت بھی ہوتی ہے ، آہنگی
اورمقصدیت بھی ، یہ سوز وعشق سے آشنا بھی ہوتی ہے اور تخلیق وارتقاء کی
علمبردار بھی ، یہ دعوت ِ عمل بھی دیتی ہے اورانسانوں کے لئے مشعل ِ راہ
بھی ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ ادب کا مقصد زندگی کو سنوارنا ، اس کو بہتر بنانا،
انسانیت کی قدر کرنا، خلوص ومحبت کی فروانی اورسماج کی اصلاح ہونی چاہئے۔
صوفیوں اورمذہبی بزرگوں نے ابتداء ہی سے شعر وادب کی طرف خاص توجہ کی اوراس
کواپنی تعلیم وتبلیغ کا ذریعہ بنایا ، ابتدائی بزرگوں میں شیخ عین الدین
گنجؒ، حضرت گیسو دراز ؒاور سید عبداﷲ حسینی ؒوغیرہ نے گراں قدر تصانیف مرتب
کیں،1296میں شاہ میراں جی ، شمس العشاق اورشاہ برہان الدین جانم نے تصوف کے
مسائل کی کئی تصانیف لکھیں، شعر وادب کی تاریخ میں قطب شاہی دور ایک شاندار
حیثیت رکھتاہے اس زمانے میں شعر وادب کی سرپرستی خود شاہان ِ وقت سے ہوئی،
انہوں نے خود ذاتی طورپر محفلوں میں حصہ لیا، صنف ِ سخن پر طبع آزمائی کی
اورگراں قدر تصانیف لکھیں ، محمدقلی قطب شاہ کا کلام ایک خاص اہمیت کاحامل
ہے، ان کے دور میں مایہ ناز شاعر ملا وجہی نے ’’سب رس‘ ‘ لکھ کر شہرت ِ
دوام پائی ، ان کے علاوہ غواصی ابن نشاطی، جنیدی، تحسین الدین، نوری ، فائز
اور شاہی نے کافی شہرت پائی ، عاجز سے لے کر ولی تک شعر وادب میں بیش بہا
اضافہ ہوا، دکن میں شعر وادب کی صحیح معنوں میں نشو نما ہوئی اوراسے فروغ
پانے کا شرف حاصل ہوا۔
سب سے پہلے بہادر شاہ ظفر کے کلام میں آزادی اور حب الوطنی کی جھلک دکھائی
دیتی ہے، اکبر، اقبال، چکبست اورحسرت نے اپنے کلام میں سیاسی بیداری اور
ملکی آزادی کانعرہ بلند کیا ، سرسید کی تحریک نے اْردو ادب کو وسیع
سمندربنا دیا ، چنانچہ ہر قسم کے ادبی ، علمی سیاسی اور تنقیدی خیالات کی
ترجمانی شعروادب کے ذریعے بآسانی ہونے لگی اور ادب رفتہ رفتہ زندگی کے بہت
قریب آگیا۔
فنی لوازمات سے شعر میں موسیقی اورنغمگی پیدا ہوتی ہے ، جو صرف دل کو ہی
نہیں بلکہ روح کو بھی چھوتی ہے ، جذبات وتجربات کی گہرائی جو حقیقی زندگی
سے جڑی ہوتی ہے خود اشعار میں ڈھلتی رہتی ہے، فنی لوازمات میں ردیف ، قافیہ
، بحر اور وزن کے علاوہ لطافت، شعریت اور معنویت ہونا لازمی ہے ، شعر میں
مصروں کا باہم ربط نہایت ضروری ہے ، شعر کا حْسنِ ظاہر اورحْسنِ باطن دونوں
لازم وملزوم ہیں ، وضاحت وسلاست دونوں وصف ضروری ہیں کہ ان سے شعر میں
ابہام دور ہوتاہے اورشعر جاذب دل ہوجاتاہے مثلاً:
حضرتِ دل آپ ہیں کس دھیان میں
مرگئے لاکھوں اسی ارمان میں
داغ صاحب کے اس شعر کو مکمل شعر کہاجاسکتا ہے کیونکہ اس میں حسن ظاہر کے
تمام اوصاف موجود ہیں، معنویت ، شعریت اورمفہوم کی وسعت نے اسے ایک دیوان
بنا دیا ہے ، معنویت میں تویہ نکتہ قابل غور ہوتاہے کہ شاعر نے کیا کہا
اورحسن ظاہر سے یہ مراد ہے کہ کیسا کہا مگرافسوس کا مقام ہے کہ عصر حاضر
میں زیادہ تر کیا کہا ہی پر دھیان دیا جاتاہے اور کیسا کہا کی پروانہیں کی
جاتی۔
فنی پابندیوں کو کسی صورت میں بھی چشم اندوز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شعر
میں ایک لفظ بھی سوقیانہ قسم کاآجائے تو شعر مضحکہ خیز ہوجاتا ہے، قافیہ
اور ردیف دست وگریباں نہ ہوں تو اچھے سے اچھا مضمون بے لطف ہوجاتاہے، بھاری
بھرکم الفاظ بھی غزل برداشت نہیں کرسکتی، صحت ِ زبان کے بعد شعر کی دوسری
خوبی حسن بندش ہے ، مضمون میں لطافت بھی ہو، شعریت بھی ہو، زبان بھی فصیح
اور ٹکسالی ہو پھر بھی حسن بندش کے بغیر شعر بے لطف رہتاہے، کسی شاعر نے سچ
ہی کہا ہے
چست جب بندش نہ ہولطف ِ بیاں آتا نہیں
جس کسی شعر کو اچھا شعر قرار دیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس میں وہ تمام فنی
لوازمات شامل ہونے چاہئیں جس کی بنا پر اسے اچھا شعر کہا جائے ، جناب عرش
کے کہنے کے مطابق’’ایک اچھا انسان ہی ایک اچھا فن کارہوسکتا ہے، جن کا نصب
العین منزل رہتی ہے وہ راہ کی دشواریوں کو آڑے نہیں آنے دیتے بلکہ انہیں
دیکھتے ہیں اور نظر انداز کردیتے ہیں جو ایک صحت مند نظریہ ہے۔‘‘
فن سے متعلق ایک نہایت افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیشتر نقاد شاعری کے فن سے
بے بہرہ ہوتے ہیں لیکن اپنی گراں قدر رائے کااظہار کردیتے ہیں جو بعد میں
مذاق کاپہلو بن جاتا ہے، شعر وادب کو ایسے نقادوں سے بہت نقصان پہنچتا
ہے۔اس طرح ابھرتے ہوئے شعراء رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے گمراہی کے راستے
پر چل کر جدید شاعر بن جاتے ہیں ، ایسی شاعری تخلیق کرتے ہیں جو بے ہنگم
بھی ہوتی ہے اوربے معنی بھی ، انہیں یہ بھی نہیں معلوم پڑتا کہ وہ کیا کہنا
چاہتے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں،اس سے اْ ردو شاعری میں غلط روایات قائم
ہورہی ہیں جو زندگی کی حقائق سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔ اردو شاعری کے اس زوال
پذیر دورمیں معیاری اشعار بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں، اردو شاعری آج صرف
خیال تک محدود ہو کررہ گئی ہے اس میں فن نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے
جبکہ فنی لوازمات ہی شاعری کو سنوارتے ہیں اگرچہ اردو کے شاعروں میں یہ
احساس پیدا ہوچکاہے کہ نام نہاد جدیدیت نے شاعری کی صورت مسخ کرنے میں
نمایاں کردار ادا کیا ہے پھر بھی وہ مکمل طور اس کی زد سے نہیں نکل پائے،
کم ہی سہی لیکن جدیدیت کے منفی اثرات ابھی باقی ہیں۔تنظیمیں،نشستیں اور
ادبی مجالس شعر وادب کی ترقی وترویج میں اپنا اہم کردار نبھا سکتی ہیں، جن
میں اشعار کی فنی باریکیوں اور لوازمات پر تنقید ہوسکتی ہے ، غرضیکہ ان کے
اغراض ومقاصد صرف اورصرف شعر وادب کی خدمت ہونی چاہئے۔(شاذ شرقی سے منتخب) |