انقلاب آ کے رہے گا

مولانا صاحب میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔ آپ کی انقلابی تقریریں سن سن کر میرے اندر ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔ اُس انقلاب کو باہر لانے کے لیے مجھے مناسب وقت کا انتظار ہے۔پہلے میں آپ کا صرف مداح تھا لیکن۔۔۔! اب آپ مجھے اپنا ایک سر گرم بلکہ بہت ہی گرم کار کن سمجھیں۔میں آپ کے ایک اشارے پر "کچھ بھی " کر سکتا ہوں۔ ٹھٹھرتی سرد راتوں میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دے سکتا ہوں۔آپ کے استقبال کے لیے دفعہ 144 کے باوجود ائیر پورٹ پہنچ کر دھرنا دے سکتا ہوں۔ پانچ گھنٹے تو کیا میں پندرہ گھنٹے سے بھی زیادہ آپ کا طیارے سے باہر آنے تک انتظار کر سکتا ہوں۔ چلچلاتی ہوئی گرمی میں آپ کے کارکنوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہ سکتا ہوں۔ پولیس کے ظلم اور بربریت کو سہہ سکتا ہوں۔پولیس کے تشدد کے بدلے اُن پر پتھراؤ بھی کر سکتا ہوں۔ دشمن اور آپ کے درمیان سیسہ پلائی دیوار بن سکتا ہوں۔ میرے اسی جوش اور جذبے کو دیکھ کر لوگوں نے مجھے انقلابی کہنا شروع کر دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی انقلاب کے آنے کی علامت ہوتی ہے۔

ہمارا (یعنی آپ کا) نعرہ ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔اسی نعرے کی بدولت میرے اندر انقلابی کرنیں پھوٹی ہیں۔اور انہیں کرنوں کی روشنی کو لے کر میں اندھیروں میں بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو حق اور سچ کا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ لیکن بہت سے نوجوان لیپ ٹاپ اور سودی قرضے کے نرغے میں آکر اپنا دین اور ایمان کھو بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اُن کا قصور نہیں ہے۔جوانی کی عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔ حسن کو دیکھ کر بڑے بڑے پتھر دل پگھل جاتے ہیں۔ظالموں نے قوم کے نوجوانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے۔ میرے خیال سے ہمارے نوجوانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ یہ لیپ ٹاپ اور قرضے تو ان کی آخرت تباہ کر ہی رہے ہیں اس کے علاوہ ان کی نیت بھی انہیں جہنم میں دھکیل رہی ہے۔

مولانا صاحب جذبہ شہادت میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ شہادت کا شرف حاصل کرنا میری دلی خواہش ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میرا اُن چودہ لوگوں میں شمار کیوں نہیں ہو سکا۔ حالانکہ میں نے آگے بڑھ بڑھ کر پولیس پر پتھر پھینکے تھے لیکن اُن کا نشانہ اتنا برا ہو گا میں نے سوچا نہیں تھا۔ میں تو گلو بٹ سے بھی اُلجھ پڑا تھالیکن اُسے صرف گاڑیاں توڑنے کا حدف ملا ہوا تھا۔ دو تین دفعہ میں نے اُس سول کپڑوں والے بھائی کو بھی آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تھی جو اپنے دونوں ہاتھوں میں پستول لیے بڑے فلمی انداز سے ہمارے کارکنوں پر فائرنگ کر رہا تھا۔ لیکن قدرت نے ابھی میری شہادت کی منظوری نہیں دی تھی اس لیے میں اُس کی گولیوں سے بھی بچ گیا ۔اس میں بھی کوئی حکمت ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے قدرت مجھ سے کوئی بہت بڑا کام کروانا چاہتی ہو۔

جوں جوں وقت گذرتا جا رہا ہے میرے اندر مچلتے ہوئے انقلابی جذبے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔وہ وقت دور نہیں جب میرا یہ جذبہ سیلاب کی صورت میں سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔مولانا صاحب آپ نے اس انقلاب میں پھر تاخیر کر دی ہے۔پوری قوم اس بات کی منتظر تھی کہ آپ کا جہاز جیسے جیسے رن وے پر لینڈ کرنے کے لیے نیچے آتا جائے گا ایسے ایسے انقلاب کا سورج اوپر اُٹھتا جائے گا۔لیکن ہم نے دیکھا کہ کینڈا سے پورے زورو شور سے چلا ہوا وہ ا نقلاب پاکستان میں آکر مذاکرات کی نظر ہو گیا۔اگر آپ نے مذاکرات ہی کرنے تھے تو کینڈا میں بیٹھ کر ہی کر لیتے۔ اتنا لمبا سفر طے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔میں مانتا ہوں کہ یہ آپ کی ضرورت تھی۔ آپ کوامارات ائیر لائن کی طرف سے مقدمے کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور گستاخ پائلٹ نے جہاز کا ایئر کنڈیشن بھی بند کر دیا تھا۔ آپ کو اپنی سیکورٹی کا بھی مسئلہ تھا اس لیے آپ نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔ویسے بھی گورنر صاحب کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے۔آپ کی دانش مندانہ حکمت عملی کو ماننا پڑے گا۔ آپ بڑی آسانی سے مصیبت سے بھی نکل آئے اور کسی کو انگلی اُٹھانے کا موقع بھی نہیں دیا۔

یہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ یہ انقلابی ریلے کے آگے زیادہ دیر تک رک نہیں پائے گی۔ان کے پاس صرف رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ عید کے بعد مبارک ہو۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔ کی صدائیں گونجیں گی۔دنیا دیکھے گی ان ظالم حکمرانوں کے ایوان کیسے کانپتے ہیں۔ہم ان کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ ان سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا ۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ان سے واپس لی جائے گی۔ان کو جیلوں میں ڈالیں گے۔ ملک میں خوشحالی آئے گی۔بے روزگاروں کو روزگار میسر ہو گا۔ لوگوں کو انصاف ملے گا۔مہنگائی کا خاتمہ ہو گا۔ پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو گا۔اب انقلاب کا راستہ روکنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ہمیں اگر اپنا خون بھی دینا پڑا تو گریز نہیں کریں گے۔۔۔خون سے یاد آیا انقلاب کا اشارہ مجھے کل رات خواب میں ہو چکا ہے۔ ظالموں نے مولا نا کو شہد کر دیا ہے۔ آپ شہادت سے چند لمحے پہلے قوم کو انقلاب کی بشارت دے رہے ہیں۔ آپ کی زبان مبارک پر مبارک ہو۔۔۔ مبارک ہو ۔۔۔ کے کلمات جاری ہیں۔ اور میں کیا دیکھتا ہوں کہ انقلاب کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ ظلمت کے اندھیرے چھٹتے جا رہے ہیں۔اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا ہے۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.