لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی
رہاش گاہ اور منہاج القران سیکرٹریٹ کے سامنے ہونے والی پولیس گردی سے سبھی
واقف ہیں کہ عوا م کی خدمت کرنے والوں اور رکھوالوں نے عوامی تحریک کے
کارکنوں پر بر بریت کی ایک اور شرمناک تاریخ رقم کی ہے ۔ لاہور پولیس کے اس
خونی تصادم میں ۲ خواتین اور ۸ مرد افراد ابدی نیند سو گئے۔ اور متعدد
افراد زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ لاہور پولیس اتنی بوکھلاہٹ کا شکار
کیوں ہوئی؟ انہیں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کس نے دی؟ آخر ایسی کیا آفت
آن پڑی کہ سڑکوں پر بزرگوں، نوجوانوں کو گھسیٹا گیا، عورتوں کی تذلیل کی
گئی؟ ہمارے معاشرے میں پولیس ایک ایسا محکمہ ہے کہ ملزم نہیں بلکہ عام
انسان بھی نام سننے سے ہی آنے والے وقت سے بچنے کے لیے تیاری شروع کر دیتا
ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک انسان پولیس کی وردی پہن کر جانور کی طرح
کیوں بر برانے لگاتا ہے۔ پولیس کے جسم پر استعمال ہونے والی وردی اور ہاتھ
میں اسلحہ جس کا وہ بے دریغ استعمال کرتی ہے، یہ سب چیزیں قومی امانت ہوتی
ہیں۔ قومی آمدنی، قومی بجٹ اور قومی امیدوں سے یہ قومی اثاثہ خریدا جا تا
ہے تاکہ قوم کی حفاظت کی جائے۔۔مگر یہی پولیس وردی پہن کر حیوانات کا روپ
دھار لیتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ایسے کیا اسباب ہیں جس کی وجہ سے
پولیس محکمہ انسانیت کی خوشبو سونگھ نہیں سکتااور ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتے
ہوئے بھی نفرت اور ظلم کرنے کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ کیا ان کی تربیت اتنے
نا موافق انداز میں ہوتی ہے کہ وہ انسان اور جانور میں فرق بھول جاتے ہیں۔
پولیس محکمہ کے رویوں کو بہتر بنانے اور ان کی کارکردگی پر اثر بنانے کے
لیے ریسرچ کی بے حد ضرورت ہے۔ اس محکمے پر ہائی پروفائل ریسرچ ہوتی چاہیے
تاکہ وہ اسباب سامنے آئیں جو اس محکمے سے انسانی حقوق چھین چکے ہیں اور
مزید اس کو بہتر بنانے کے لیے ہدایات دینی چاہیں۔
2014 کا دور گزر رہا ہے مگر پاکستان ابھی اس آفت سے ہی نہیں نکل پا رہا کہ
طالبان سے مذکرات کریں، یا آپریشن کریں یا پولیس کو انسانی حقوق کی تربیت
دی جائے یا پھر ملک کو ایک سکون کی فضا مہیا کر سکیں۔ تھوڑی سے غور کی جائے
تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان غیر ملکی دہشت گردی میں ایک ٹرائی
اینگل کی صورت میں جکڑا ہوا ہے۔ اب جب کہ حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں فوج
ضرب عضب آپریشن میں معروف ہے اور مختلف طاقتیں پاکستان کو جڑوں سے کو کھلا
کر رہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال تو پولیس کی بر بریت ہے جو سامنے آہی گئی۔
امریکہ میں بش کا دور آئے، بھارت میں مودی کا دور آئے اور پاکستان میں نواز
شریف کا دور آئے تو سیاست ، بغاوت ، تجارت اور امارات کی فضا ہی بدل جاتی
ہے ۔ بش کی فطرت دوسرے ممالک سے جنگی کار وایاں سے سکون پاتی تھی۔ اب تو
موجودہ حکومت کا بھی یہ حال ہے ۔ دوسری طرف مودی کی فطرت ہندہ مسلم فسادات
سے چین پاتی ہے اور ادھر شریف برادران اندورنی بنیادوں میں زہر گھول کر ملک
کو کمزور رہے ہیں اور پھر حاتم طائی بن کر سامنے آجاتے ہیں ۔۔۔۔
پاکستانی عوام بے وقوف ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی جذباتی بھی ہے۔ ووٹ،
پارٹی بازی، سیاسی فتنہ انگیزی میں عوام اپنی ہی چیزوں کی توڑ پھوڑ کرنے ،
گاڑیوں کو نقصان پہنچانے اور معاشرے کا امن تباہ و برباد کرنے میں اول اول
ہوتے ہیں۔کوئی جلسہ ہو ، دھرنا ہو الیکشن ہوں عوام جذبات میں ا کر قومی
سرمایہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس عمل میں محافظ دو ہاتھ
آگے ہیں حالیہ مثال گلو بٹ کی ہے۔ جو شیر پنجاب کے شہر میں پولیس کی
موجودگی میں شیر بنا پھرتا رہا اور دھر لے کے ساتھ گاڑیوں کی توڑ پھور میں
مشغول رہا ۔ کیا مجال تھی کہ وردی میں ملبوس عوام کے محافظ اس بے لگام
ہاتھی کو لگام ڈالتے۔۔۔ وہ تو گلو کو شاباشی دیتے ہوئے پائے گئے۔
پنجاب میں ہی جب حاملہ خاتون کو عدالت کے سامنے سنگسار کیا جاتا ہے۔ تو یہی
پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی نظر آئی ہے اور پنجاب میں ہی پولیس گھروں میں
گھس کر عورتوں کو گولی مارتی ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں اور پنجاب میں
ہی پولیس زیادتی کیس میں رپوٹ درج کروانے والی لڑکی کے ساتھ ہاتھ صاف کرتی
ہے۔۔۔، ملزموں، غنڈوں کے ساتھ ہی پولیس مل کر محکمے کو بدنام کرتی ہے۔ مگر
کوئی پوچھنے والا نہیں کہ قانون کے ان محافظوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی
اجازت کس نے دی۔۔۔؟ سر عام گولیوں سے قتل کرنے کا کس نے حکم دیا؟ کیا ان
محافظوں کے خلاف کوئی کیس درج کروا سکے گا ۔۔۔؟گر کروا بھی دیا تو کیا اس
پر علم درآمد ہو سکے گا۔۔۔؟ جب حاملہ خاتون کو عدالت کے سامنے جب سر عام
مارا جا رہا تھا تو یہی پولیس کہتی پھرتی تھی کہ ہمیں گولی چلانے کی اجازت
نہیں تھی۔ جب ضرورت تھی اس وقت اسلحہ استعمال نہیں کیا گیا۔ مگر جب کسی
اعلی پارٹی نے کندھا دیا تو گولیوں کی برسات ہو گئی ۔۔۔پاکستان کی پاک
دھرتی پر ایسے گندے، سیاہ قانون کب ختم ہوں گے؟ حکومت کب ان کالی بھیڑوں کا
نوٹس لے گی جو انسان کی شکل میں بدترین درندھوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں نظام مصطفی نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا
کیوں ہوتا ہے کہ مذہبی سکالر مذہب کا سہارا ے کر سیاست سے داو پیچ لڑاتے
ہیں۔ مولانہ صاحب شاہد بھول رہے ہیں کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم عمل
پہلے خود کرتے پھر دوسروں کو اس کی تقلید کرنے کی تلقین کرتے۔ مگر مولانا
صاحب کا یہ کیا انقلاب ہے کہ خود تو لندن میں تشریف فرمان ہیں اور کارکنوں
کے خون اپنی پر جوش تقریروں سے گرما رہے ہیں۔۔۔ مولانہ صاحب شاہد یہ بھی
بھول رہے ہیں کہ اسلام امن اور صبر کا پیکر ہے۔ لیکن مولانا صاٖحب کی
آنکھوں میں تیش بھر ی ہوئی ہے۔۔۔ زبان صبر کے عنصر سے عاری ہے۔۔۔اور جناب
چلے ہیں انقلاب بھرپا کرنے۔ تو مولانہ جی انقلاب تو برپا ہو ہی چکا ہے۔
معمول کے مطابق لیڈر گھوڑے پیچ کر سور ہے ہیں۔ دوسری جانب پولیس اہلکاروں
کو خون سے ہاتھ رنگنے کا بے حد شوق پایا جاتا ہے۔مشرف کے دور میں لال مسجد
کو لال کیا گیا اور اب شریف برادران کے دور میں ایک بار پھر بے گناہ جانوں
سے کھیلا جا رہا ہے۔ مشرف پر کیس کیا جاسکتا ہے تو پنجاب پولیس ، شریف
بردران پر مقدمہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔۔۔؟ مقدمہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مقدمہ درج ہو بھی جاتا ہے تو کہاں تک اس کو پر اثر بنا یا جائے گا۔ مشرف کو
مکھن سے بال کی طرح نکالا جا چکا ہے تو شریف برادران تو ماشا ء اﷲ نام اور
عمل سے بھی شریف لگتے ہیں۔ پس موجودہ حکومت کی کارکردگی کی اچھی حوشبو نہیں
پھیلی ۔۔۔وہ وقت آگیا ہے کہ اب حکمرانوں کو تھوڑی غور کرنے کی ضرورت پیش
آرہی ہے۔ حالات اس وقت ٹھیک ہو سکتے ہیں جب بر وقت ہر معاملے کا نوٹس لیا
جائے۔ پولیس جو من مانی کرتی پھرتی ہے اس سے حساب لیا جائے اور ساتھ ساتھ
چلنے والی گولی کا بھی نوٹس لیا جائے کہ کیا واقعی اس کی ضرورت تھی بھی کہ
پھر کسی کو خوش کیاگیا۔۔۔ یہی نہیں بلکہ پولیس اہلکاروں کے برے رو یو ں پر
انکوائری کی جانی چاہیے۔ اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں پر مقدمہ کر کے
ان کو ایسی سزا دی جائے کہ آنے والے وقتوں میں دوسروں کے لیے عبرت کا سامان
کرے۔ |