ولادتِ انقلاب آئی ڈی پیز اور تحفظِ پاکستان

میڈیا کسی خبر کو اٹھا لے تو کالم نویسوں کی موج لگ جاتی ہے۔تفصیلات چینلز بتا دیتے ہیں اور اتنی کہ بعض اوقات بد ہضمی ہونے لگتی ہے۔آجکل انقلاب کا غلغلہ ہے۔کوئی چینل کوئی اخبار اٹھا کے دیکھیں ہر طرف آپ کو ولادتِ انقلاب کی چیخیں سنائی دیں گی۔اس وقت جب قوم حالتِ جنگ میں ہے۔اس کی افواج ملک کے ایک حصے پہ قابض غاصبین سے دوبدو لڑائی میں مصروف ہیں۔ اس علاقے کے امن پسند لوگ اپنے معصوم بچوں اور باپردہ خواتین کو لے کے دربدر ہیں ہم انقلاب انقلاب کھیل رہے ہیں۔یہ وقت تھا جب ہم اپنی ساری توجہ اس آپریشن پہ مرکوز رکھتے۔اپنی افواج کی پیٹھ ٹھونکتے۔در بدر ہونے والے اپنے ان بہن بھائیوں کی مشکلات کم کرنے کی سعی کرتے۔ہم نے عوام کو ایک نئی بحث میں الجھا دیا ہے۔ ہم ویسے بھی تماشبین قوم ہیں جس طرف ڈھول تاشہ ہو دھوم دھڑکا ہواور ہلہ گلہ ہماری توجہ اس طرف زیادہ ہوتی ہے۔ہاں بور ہو رہے ہوں تو کچھ نہ کچھ کرنے کے چکر میں کوئی نیکی بھی کر گذرتے ہیں۔

ہاں الیکٹرانک میڈیا کسی بھی ایشو کو اٹھائے تو فوٹو کھنچوانے کے چکر میں امداد دینے اور ہمدردی کرنے کے لئے جوق در جوق پہنچتے ہیں۔ایسا نہیں کہ پوری قوم ہی ایسی ہے لیکن شوبازی بہرحال ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ملک کے باسی آپریشن ضربِ عضب کے متائثرین کو بھی شاید طالبان کا ساتھی سمجھ کے ان سے اس طرح اظہارِ ہمدردی نہیں کر رہے جس کے وہ مستحق ہیں۔رمضان کی آمد آمد ہے۔آزمائش اور امتحان کے اس ماہِ مقدس میں ہمارے یہ ہم وطن یہ ستم رسیدہ بہن بھائی ہماری مہر بانی اور توجہ کے زیادہ لائق ہیں۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا یہ وقت بھی گذر جائے گا اور اﷲ کریم کی مہربانی سے یہ لوگ دوبارہ اپنے علاقے اور اپنے گھر میں آباد ہوں گے۔ہماری محبت ہمارا خلوص اور ہماری مہربانی ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی اور اسی طرح ہماری بے اعتنائی بھی۔ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ان پہ یہ عذاب ہماری چشم پوشی ہی کی بناء پہ اترا ہے۔ہم نے درد دیا تھا تو اب دوا بھی ہمی کو کرنا ہو گی۔اور ایسی کہ آئندہ کوئی شرپسند ان محبِ وطن اور امن پسند لوگوں کو یرغمال نہ بنا سکے۔

جب سے پاکستان بنا ہے لوگ انقلاب لا رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ انقلاب سے کیا مراد ہے۔انقلاب اس وقت آتا ہے جب اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر ہو جاتی ہے۔وہ لوگ جو سخت سردی میں کنٹینرز سے باہر نہ آئیں۔جو عین دورانِ انقلاب بھی اپنی بیگم بچوں کے ساتھ یوں رہ رہے ہوں جیسے پکنک پہ آئے ہو۔جن کے سامنے تین تین ماہ کے معصوم بچے سردی میں ٹھٹھر رہے ہوں اور کنٹینر کے اندر براجمان قائد انقلاب کے چہرے سے پسینہ نہ سوکھتا ہوایسے انقلاب کی ولادت پاکستان جیسے ملک ہی میں ہو سکتی ہے کوئی اور ملک ہوتا تو انقلاب کی قیادت کے دعوے داروں کی جوتیوں سے تواضح کرتا۔بلٹ پروف گاڑیاں مسلح گارڈ جان کی اتنی فکر کہ گھر پہنچنے کے لئے بقول ان کے طاغوتی طاقتوں کا مقرر کردہ گورنر یرغمال بنا کے گھر پہنچنا،ہم ہی عقل سے عاری ہیں۔ہم سماج بدلنا چاہتے ہیں ان کی قیادت میں جنہیں مارے جانے والوں کا غم نہیں اپن ی جان کی پرواہ ہے۔پاکستانی قوم ہی لیکن ایسی زخم خوردہ ہے کہ ہر مداری کے گرد گھڑی ہو کے معجزوں کی توقع کرنے لگتی ہے۔مداری بھی ایسے جو چالیس ہزار بندوں کو اپنے ایک نعرے سے چالیس لاکھ میں بدل دیتے ہیں۔اﷲ کے دین کے عالم اگر جھوٹ موٹ کا چارہ دکھا کے بلاتا دیکھ لیتے تو اس سے حدیث نہیں لیا کرتے تھے۔یہاں لوگ برملا کہتے ہیں کہ کارکنوں کے جذبات ابھارنے کے لئے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔الحذر والاماں۔۔۔۔کیسا زمانہ آلگا ہے۔لیبر پین میں مبتلا اس انقلاب کو چیخیں مارنے دیں ۔خدا را کالم نویس اور الیکٹرانک میڈیا تحفظِ پاکستان کی طرف توجہ دے۔ملک ہو گا تو کبھی نہ کبھی حقیقی انقلاب بھی آ ہی جائے گاجب راج کرے گی خلقِ خدا ،جس دن وہ انقلاب آیا یہ بلٹ پروف گاڑیوں والے یہ گارڈ رکھنے والے سب سے پہلے اس کا شکار ہوں گے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ تحفظِ پاکستان بل منظور ہو گیا ہے۔ ہم نے خونخوار کتے کھلے چھوڑ رکھے تھے اور پتھر باندھ رکھے تھے۔اب اگر واقعی قانون نافذ کرنے والوں کو اختیار بھی مل جائے اور وہ اپنا یہ اختیار خدا خوفی کے جذبے کے ساتھ ایمان داری سے استعمال کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں امن قائم نہ ہو۔ہاں اگر اس قانون کو بھی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا تو پھر دہشت گردی کا عذاب بجائے کم ہونے کے زیادہ ہو گا۔ گلو بٹ کسی بھی پارٹی کا ہو اب بلا امتیاز ہمیں اس کی گردن ناپنا ہو گی۔انصاف کے ساتھ اس قانون کا استعمال ملک میں لاقانونیت اور بد امنی کی بیخ کنی میں معاون ثابت ہو گا۔دل چاہتا ہے کہ ایک مشورہ اپنے عمران خان کو دے ہی دیا جائے اور وہ یہ کہ پاکستان کے عوام نے آپ کو ایک صوبے کی حکومت دے کمرہ امتحان میں بٹھا دیا ہے۔ آپ جلسے جلوس کریں لیکن اپنے صوبے کو ایسی مثال بنا دیں کہ اگلے انتخابات میں آپ ہی پورے پاکستان کے لوگوں کا انتخاب ہوں لیکن جی چاہتا ہے کہ آج ایک پیشگوئی بھی کر دوں ۔نواز شریف اور ان کی حکومت اگر ملک میں امن لے آئی اور انہوں نے بجلی کے بحران پہ قابو پالیاتو اگلے پانچ سال انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔بلاشبہ اگلی بار شہباز شریف وزیر اعظم اور حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب ہوں گے۔چوہدری نثار اور خواجوں کا پھر بھی کوئی چانس نہیں انہیں اسی تنخواہ پہ ہی نوکری کرنی پڑے گی۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268427 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More