مسلمانوں کے تعلق سے یہ خوش کن
خبر آئی کہ مسلمانوں کو ریزرویشنمل گیا ہے۔ریزرویشن کا فی صد تو کم ہی ہے
مگر اب امید یہ کی جاسکتی ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی
بڑھے گی اور سیاسی میدان میں بھی ان کا گراف بڑھے گا۔۔۔ آزادی کے64سال بعد
بھی ہندوستان ریزرویشن کے جنجال سے با ہر نہیں آ پا یا ہے۔ ایس سی،ایس ٹی
کو اب تک ریزرویشن مل رہا ہے۔اوبی سی کے نام پر مختلف ذات برادریوں میں
ریزرویشن کی ریوڑی تقسیم کی جاتی رہی ہے۔27% او بی سی ریزرویشن میں ہی
جاٹوں کو بھی کو ٹا مختص کیا گیا ہے۔ اس سے قبل2009ء کے عام انتخابات کے
وقت مرکزی سرکار نے مسلم ریزرویشن،کا کارڈ کھیلا تھا اور مسلمانوں کو او بی
سی کوٹے سے5% ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھاجو شر مندہ تعبیر نہیں ہو
سکاتھا۔ ۔در اصل مرکزی سرکار نے حقیقت میں مسلم ریزرویشن کے تئیں سنجیدگی
کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔کسی بھی طبقے، ذات ،برادری کو ریزرویشن دینے سے قبل
کچھ ضروری اقدا مات کرنے ہوتے ہیں۔مثلاًکسی بھی طبقے کو ریزرویشن دینے سے
قبل اس کے سماجی،معاشی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہو نے کا سر وے ہونا
چاہیے تاکہ اس کا پسماندہ ہو نا ثا بت ہو،سرکاری ملازمتوں میں ان کی
نمائندگی اطمینان بخش نہ ہو، کسی بھی حال میں کل ریزرویشن50%سے زائد نہ
ہو،مرکزی سرکار نے مسلم ریزرویشن کے لیے سچر کمیٹی سفارشات کو بنیاد تو
بنایا لیکن عدا لتوں کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔بلکہ مرکز کا
مقصد مسلم ریزرویشن کا اعلان کر نے سے مسلمانوں کو حسیں خواب دکھانا ہی
تھا۔اور یہ خواب سیاسیمفاد کے طور پر کئی بار دکھایا گیا۔۔اب کئی سال
گذرجانے کے بعد نئی حکمت عملی کے تحت ہی مسلمانوں کو لبھانے کے لئے ان کے
لئے صرف اور صرف ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کی پوٹلی کھولی ہے۔۔حق تو یہ تھا
کہ ۲۰ فی صدی ریزر ویشن منظور ہوتا یہ نہ تو فرقہ پرستی ہے اور نہ اقلیتوں
کی منہ بھرائی بلکہ یہ بات تو سچرکمیٹی کی رپورٹ سے ہی ثابت ہوچکی ہے ۔اس
سے قبل ریزرویشن کے متعلق مرکزی سرکار کے کئی وزراء الگ الگ بیان دیتے رہے۔
مرکزی وزیر سلمان خورشید مسلمانوں کو12% ریزرویشن کی بات کرتے رہے۔منموہن
سنگھ نے نے کہا تھا کہ سرکاری وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے۔ جب انہوں نے
یہ کہا تھا، تو لگا کہ مسلمانوں کے مسائل ختم ہونے والے ہیں۔۔۔ اب اسمبلی
الیکشن ہونے والے ہیں۔ منموہن سنگھ کی وداعی ہو چکی ہے۔آج یہی کہا جاسکتا
ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ملک کے کسی بھی وزیر اعظم کے ذریعے دیے گئے
بیانوں میں سے یہ بیان سب سے بڑا فریب ثابت ہوا۔ ووٹ نہ جانے انسان سے کیا
کیا کرا لیتا ہے۔ منموہن سنگھ نے مسلمانوں کے حالات سمجھنے کے لیے سچر
کمیٹی کی تشکیل کی تھی، تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ مسلمانوں کی حالت کیا ہے اور
مسائل کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے کانگریس کو آئینہ
دکھایا۔ اور آخر سچ سامنے آ گیا۔۔ رپورٹ آئی اور چلی گئی۔ اب سچر کمیٹی کی
رپورٹ کا استعمال صرف ریسرچ میں ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے مدعے وہیں کے وہیں
پڑے ہیں۔ وہی بھوک، وہی ناخواندگی، وہی بے روزگاری، وہی فسادات اور وہی
لاچاری۔ مگر بے گناہ کو سزا اورمسلم محروسین کے معاملے میں مسلمانوں کو صد
فی صد ریزرویشن ہے۔ |