گیس ، بجلی اور پانی

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن سہل بن ؓ فرماتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو لوگوں کے پاس پانی بالکل نہیں تھا لوگوں نے حضور ؐ سے شکایت کی آپ ؐ نے اﷲ سے دعا کی تو اﷲ تعالیٰ نے اسی وقت ایک بادل بھیجا جو خوب زور سے برسا یہاں تک کے لوگ سیراب ہو گئے اور انہیں جتنے پانی کی ضرورت تھی وہ بھی انہوں نے برتنوں میں ساتھ لے لیا۔

حضرت مالک الدار ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے زمانے میں زبردست قحط پڑا ایک آدمی نے حضور ؐ کی قبر اطہر پر حاضر ہو کر عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ ؐاپنی امت کیلئے اﷲ تعالیٰ سے بارش مانگ دیجئے کیونکہ ساری امت ہلاک ہو گئی ہے ۔ اس آدمی کو خواب میں حضور ؐ کی زیارت ہوئی حضورؐ نے ارشاد فرمایا جا کر عمر ؓ کو میرا سلام کہو اور اسے بتا دو کہ بارش ہو گی اور اسے کہہ دو کہ سمجھداری سے کام لے اور عقل مندی اختیار کرئے ۔ اس آدمی نے آکر حضرت عمر ؓ کو سارا واقعہ سنایا ۔ حضرت عمر ؓ رونے لگے اور کہنے لگے اے میرے رب میں محنت کرنے اور سمجھداری سے کام لینے میں کسی طرح کمی نہیں کرتا ہوں البتہ کوئی کام ہی میرے بس سے باہر ہو تو اور بات ہے ۔

قارئین! قرآن پاک میں حکمت کی لاتعداد مثالیں اﷲ بزرگ و برتر نے ہم ناقص العقل انسانوں کو سمجھانے کیلئے بیان فرمائی ہیں ۔ قصص الانبیاء میں حضرت یوسف ؑ کا وہ واقعہ بھی تحریر ہے جس میں عزیز مصر کے خواب کو دیکھنا اور اس کی تعبیر ان کی طرف سے حکمت کے ساتھ بیان کرنا اس حد تک اثر کرتا ہے کہ قید خانے سے نکل کر انہیں مصر کا سب سے بڑا عہدہ دے دیا جاتا ہے ۔ اس واقعہ میں بھی قحط کے بارے میں عزیز مصر کو خواب میں اشارہ دیا جاتا ہے اور قحط سے بچاؤ کیلئے جو تدبیر اور حکمت حضرت یوسف ؑ اختیار کرتے ہیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے یہ تمام واقعات دراصل تہذیبِ انسانی کا حصہ ہیں اور ان سے درست نتائج اخذ کرنا اور نتائج کی بنیاد پر پالیسیاں بنانا کہ جس سے خلق خدا کو فوائد پہنچیں حکمرانوں کا اہم ترین فریضہ ہے ۔ کمی بیشی ، افراط تفریط ، قحط خوشحالی یہ سب چیزیں انسانی زندگی کا حصہ ہیں اﷲ تعالیٰ دے کر بھی آزماتے ہیں اور لے کر بھی آزمائش کرتے ہیں ۔

قارئین!ایک عرصہ سے وطن عزیز میں گیس کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے حالانکہ پاکستان وہ خوش قسمت ترین ملک ہے کہ جس کے بارے میں سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاالرحمن نے راقم ہی کو ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم93پر انٹرویو دیتے ہوئے یہ حقیقت منکشف کی تھی کہ دنیا جہان کے مختلف ممالک میں دس تیل کے کنویں کھودے جاتے ہیں تو ایک میں تیل نکلتا ہے اور پاکستان میں یہی شرح تین ایک کی ہے یعنی پاکستان میں تیل کی تلاش میں تین کنویں کھودے جاتے ہیں توایک میں تیل نکل آتا ہے ۔ پاکستان میں بلوچستان ، خیبرپختونخواہ ، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اس سب کے باوجود کہ اﷲ نے انتہائی فیاضی کے ساتھ پاکستان کو قدرتی وسائل عطا فرمائے ہیں ۔ اگر ہم خود ہی ان وسائل سے استفادہ نہ کریں تو اس میں تمام قصور ہماری قیادت اور حکمرانوں کا ہے کسی دوسرے پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں گھریلو صارفین سے لیکر سی این جی استعمال کرنے والے ٹرانسپورٹرز اور عام صارفین کو گیس کی شدید ترین قلت کی وجہ سے کرب سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی طرح صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ گرمیوں کے موسم میں بھی سی این جی سیکٹر اور انڈسٹری گیس سے اکثر اوقات محروم رہتی ہے ۔ قحط کی یہ صورتحال گزشتہ بارہ سال سے شدت اختیار کر چکی ہے اور ابھی تک اس کوئی بھی ٹھوس حل دیکھنے میں نہیں آیا ۔ پورے پاکستان میں بھیڑ چال کے تحت ہزاروں سی این جی اسٹیشنز لگائے گئے اور لاکھوں گاڑیاں جب سی این جی پر شفٹ ہو گئیں اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری اس شعبہ میں کر دی گئی تو حکمرانوں کی طرف سے خوشخبری سنائی گئی کہ سی این جی اسٹیشنز بغیر کسی پلاننگ کے لگائے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے گیس کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ گاڑیوں میں ایندھن کے طور پر پھونک دیا جاتا ہے ۔ اسلئے ضروری ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کی حکمت عملی اپنائی جائے ۔ حکمرانوں کی اس حکمت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج سی این جی اسٹیشنز کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور حالت زار دیکھ کر لوگ عبرت پکڑتے ہیں ۔ تضیع اوقات کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد کی وجہ سے لوگ مریض بنتے جا رہے ہیں یہاں ہم آزاد کشمیر کے واحد صنعتی شہر میرپور کا آنکھوں دیکھا حال بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ اس شہر میں اس وقت چار سی این جی اسٹیشنز کام کر رہے ہیں اور پورے ملک میں رائج لوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق سوموار اور جمعرات کو چوبیس چوبیس گھنٹوں کیلئے گیس مہیا کی جاتی ہے اور بلامبالغہ ان دونوں ایام میں ہزاروں افراد شدید ترین تکلیف سے گزرتے ہیں ہم نے اس حوالے سے ایک سی این جی اسٹیشن کے چیف آپریٹنگ آفیسر جمیل احمد سے گفتگو کی تو انہوں نے تمام تفصیل بیان کرتے ہوئے انتہائی اذیت ناک منظر ہمارے سامنے رکھ دیا ۔ جمیل احمد نے بتایا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران دس سے بارہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صارفین کو سی این جی مہیا کرنا ممکن نہیں اور باقی ماندہ بارہ سے چودہ گھنٹوں کے دوران بھی گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے صارفین کو مطلوبہ مقدار میں سی این جی مہیا نہیں کر پا رہے اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ صارفین انتہائی تکلیف سے گزر رہے ہیں اور ذہنی مریض بننے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں ۔ جمیل احمد نے سی این جی اسٹیشنز کے مالکان اور وہاں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ سی این جی اسٹیشنز کے مالکان نے ایک ایک سی این جی اسٹیشن پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے اور اوسطاً ایک سی این جی اسٹیشن پر پندرہ افراد کو روزگار ملتا ہے ۔ ملک میں موجود ہزاروں سی این جی اسٹیشنز لاکھوں افراد کو روزگار دے رہے ہیں جبکہ موجودہ شیڈول کے مطابق گیس کی فروخت سے یہ سی این جی اسٹیشنز بمشکل اپنے اخراجات پورے کر رہے ہیں اور کئی علاقوں میں اخراجات بھی پورے نہیں ہو رہے ۔ اگر موجودہ حکمرانوں نے کوئی واضع پلاننگ کرتے ہوئے گیس کی اس قلت کا خاتمہ نہ کیا تو آنے والے دنوں میں ایک بہت بڑا بحران اس وقت جنم لے سکتا ہے جب سی این جی انڈسٹری دم توڑ جائے گی ۔ یہی صورتحال پاکستانی انڈسٹری کے ساتھ ہے پاکستانی صنعت کاروں کی ایک بہت بڑی تعداد گزشتہ دور حکومت میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے بنگلا دیش ، انڈونیشیاء ، ملائیشیاء سمیت مختلف ممالک کا رخ اختیار کر گئی تھی جس کی وجہ سے لاکھوں ہنر مندوں اور مزدوروں کا روزگار ختم ہو گیا تھا ۔

قارئین! اسی طرح بجلی کی کمی کی وجہ سے وطن عزیز کن کن مشکلات سے دوچار ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک پاکستان اس وقت جوہری طاقت تو ضرور ہے لیکن اس واحد ایٹمی قوت کے پاس ملک کے بیس کروڑ عوام اور چند ہزار انڈسٹریل یونٹس کو مہیا کرنے کیلئے بجلی بہت کم ہے ۔ہم نے اس حوالے سے مختلف اوقات میں ریڈیو آزاد کشمیر اور آزاد کشمیر کے پہلے لائیو ویب ٹی وی چینل کشمیر نیوز ٹی وی پر مختلف شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہوئے مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ منگلا ڈیم میرپور میں واقع ہے جہاں فل کپیسٹی میں جب پانی کی سطح 1240فٹ تک بلند کی جاتی ہے تو پانی کا ذخیرہ 75لاکھ ایکڑ فٹ تک پہنچ جاتا ہے ۔ دوسرے نمبر پر تربیلا ڈیم آتا ہے جہاں 65لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ ان دو بڑے آبی ذخیروں سے پانچ ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی پیدا کی جاتی ہے ، تھرمل پلانٹس کے ذریعے تین ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ آئی پی پیز کے ذریعے بھی پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے ۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر عطاالرحمن نے راقم کو بتایا تھا کہ پانی کے ذریعے سستی ترین بجلی پیدا ہوتی ہے جس کی لاگت ایک روپیہ فی یونٹ سے بھی کم ہوتی ہے ۔ تھرمل پلانٹس کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت چودہ روپے فی یونٹ پڑتی ہے جبکہ ایٹمی پلانٹس کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کی لاگت بیس روپیہ فی یونٹ سے زائد ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان و کشمیر میں بہنے والے دریاؤں میں موجود لاکھوں کیوسک پانی کوضائع نہ جانے دیا جائے اور بڑے بڑے ڈیمز کی منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ ساتھ دریاؤں کے بہاؤ پر چھوٹے چھوٹے یونٹس لگا کر پاکستان کو بجلی کے حوالہ سے خود کفیل بھی کر دیا جائے اور بجلی اس حد تک سستی کی جائے کہ زرعی پیداوار کے حصول کیلئے بجلی کم نرخوں پر کسان کو مہیا کی جائے اور اسی طرح دنیا کی مقابلے کی مارکیٹ میں کم قیمت مصنوعات فروخت کیلئے پیش کرنے کیلئے صنعت کاروں کو بھی بجلی ارزاں ریٹس پر دی جائے ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہمسایہ ملک چین کی کامیابیوں کامطالعہ کیا جائے اور پوری دنیا میں جن جن ممالک میں بجلی کی پیداوار پانی کے ذریعے کی جا رہی ہے ان کی کامیابی کی کہانیوں کو اپنے لئے سبق بنا لیا جائے ۔

قارئین! کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت پانی کے حوالے سے پاکستان میں دیکھنے میں آرہی ہے جن دنوں میں پاکستان میں بارشیں ہوتی ہیں بہت بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے دستیاب ہوتا ہے لیکن آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف تو سیلاب کی تباہ کاریاں ہر سال دیکھنے میں آتی ہیں اور دوسری طرف اربوں روپے مالیت کا پانی استعمال میں نہیں لایا جاسکتا ۔ اب ان تمام مسائل کے حل کی طرف دیکھتے ہیں تو پتہ چلے گا کہ ویژن رکھنے والی دیانتدار لیڈر شپ جو ترجیحات متعین کرتے ہوئے قومی ایشوز کا ادراک رکھتی ہواس کا برسراقتدار آنا اور اس کے بعد درست فیصلے کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ عام طور پر فوجی حکومتوں نے مسائل کا ذمہ دار ہمیشہ جمہوری قیادتوں کو قرار دیا ہے اور جمہوری قیادتیں جب بھی برسراقتدار آتی ہیں تو وہ مارشل لاء حکومتوں اور اپنے سیاسی مخالفین کے سابق ادوار حکومت کی پالیسیوں کے غلط ہونے کا رونا روتی رہتی ہیں ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم مسائل کو سمجھتے ہوئے موجودہ حکمرانوں کو مجبور کرے کہ وہ درست پالیسیاں بنائیں اور ان پالیسیوں کو عوام نہ صرف سمجھیں بلکہ ان قومی پالیسیوں کو اپنا کر ان کی حفاظت بھی کریں ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب ان امکانات کوسمجھتے ہوئے درست منزل کی طرف سفر شروع کر دیا جائے الزام برائے الزام اور طعن وتشینع زندہ قوموں کے شعا ئر نہیں ہوا کرتے بلکہ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں کہ جو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہتھیار ڈالنے کی بجائے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ سفر شروع کرتی ہیں اور چاہے کتنی ہی مرتبہ ناکامی راستے میں کیوں نہ آئے اپنا سفر ترک نہیں کرتیں ۔ بقول چچا غالب ہم یہ کہتے جائیں۔
صدجلوہ روبہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کااحساں اٹھائیے
ہے سنگ پربراتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منتِ طفلاں اٹھائیے
دیوار، بارِ منتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے
یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجئے
یا پردہ تبسم پنہاں اٹھائیے

یہاں کالم کے اختتام پر ہم میرپور کے عوام کے دو مطالبات کا تذکرہ ضرور کرتے چلیں جن کا تعلق منطق فہم و شعور کے ساتھ ہے اور دلائل کی روشنی میں یہ دونوں مطالبات انتہائی درست دکھائی دیتے ہیں ۔ میرپور کے شہریوں کا یہ کہنا ہے کہ 1960کے عشرے میں جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں منگلا ڈیم بنانے کیلئے اہل میرپور سے بہت بڑی قربانی لی گئی تھی ہزاروں خاندان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنا گھر بار ، آباؤ اجداد کی قبریں اور ثقافت پانی کے حوالے کر کے ایک نئی جگہ آباد ہوئے تھے اور اس وقت ان لوگوں سے معاہدہ منگلا ڈیم کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا تھا کہ بیس میل کے علاقے میں آباد ہونے والے تمام شہریوں کو بجلی مفت اور بلاتعطل فراہم کی جائے گی اور صحت و تعلیم کی ضروریات کے علاوہ زندگی کی دیگر سہولیات ارزاں نرخوں پر فراہم کی جائیں گی منگلاڈیم بن گیا پرانا میرپور ختم ہو گیا لیکن نئے وعدے پورے نہ ہوئے یہی صورتحال جنرل مشرف کے دور حکومت میں اس وقت پیش آئی کہ جب منگلاڈیم ریزنگ کے سلسلہ میں تحریک کی گئی اور ایک نیا معاہدہ وفاقی حکومت ، واپڈا اور حکومت آزاد کشمیر نے آپس میں کیا جس میں ڈیم ریزنگ سے متاثر ہونے والے شہریوں کیلئے مختلف پیکجز کا اعلان کیا گیا ۔ آج منگلاڈیم ریزنگ بھی مکمل ہو چکی ہے لیکن وعدے پورے نہیں ہوئے اور سب سے بڑی کرب کی صورت حال اس وقت دیکھنے میں آتی ہے کہ جب ڈیم کے کنارے آباد قربانی دینے والے اہل وطن کو پانی و بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ میرپور کے شہری ہر سال ارباب اختیار کو ان کے وعدے یاد کراتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں میرپور کو بجلی اور پانی کی لوڈشیڈنگ سے ہی کم از کم مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تاکہ اہل وطن کو ایک روشن مثال دی جا سکے کہ قربانیاں دینے والوں کی قربانیوں کی قدر کی جاتی ہے جبکہ دوسرا مطالبہ عرصہ دراز سے گیس کے حوالہ سے میرپور کے شہری کر رہے ہیں کہ میرپور شہر میں علامتی طور پر سوئی گیس تو مہیا کی گئی ہے لیکن ستر فیصد سے زائد گھریلو صارفین گیس سے محروم ہیں ، میرپور کی انڈسٹری ابھی تک گیس سے مستفید نہیں ہو پا رہی اور بقول ہمارے دوست جمیل احمد سی این جی پر منتقل شدہ ہزاروں گاڑیوں کے مالکان گیس کی قلت کی وجہ سے ذہنی بیماری کا شکار ہو رہے ہیں ۔ میرپورمیں اس حوالے سے بھی مناسب اصلاح کرنا انتہائی ضروری ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ماں نے گرمی کے موسم میں دوپہر کے وقت گھر میں داخل ہوتے ہی بیٹی سے کہا ۔
’’مجھے جلد ی سے پانی پلاؤ میں مری جا رہی ہوں‘‘
بیٹی نے فوراً جواب دیا ۔
’’اماں پانی پلاتی ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ مری میں بھی ساتھ جاؤں گی ‘‘

قارئین! پوری قوم اس وقت گیس ،بجلی اور پانی کی لوڈشیڈنگ اور قلت کی وجہ سے مری جا رہی ہے اور حکمران اس آہ و فغاں کو اپنے استقبال کیلئے بلند کیے جانے والے نعرے سمجھ کر تفریح کر رہے ہیں۔ مری جانے والی عوام اور کوہ مری جانے والی اشرافیہ کے درمیان ابھی بہت سا فاصلہ باقی ہے ۔ کاش یہ فاصلہ ختم ہو جائے ۔آمین
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374433 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More