ماہِ رمضان،ہم اورہمارا عمل

اللہ تعالیٰ کی نعمتوںمیں رمضان ایک عظیم نعمت ہے جسے اللہ رب العزت نے ہم بندوں کوخصوصی طورپر عطا فرمایاہے۔اس ماہ کی عظمت ورفعت کے لیے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہی کافی ہے کہ:رَمَضَانُ شَہْرُ اللہِ۔ (مقاصدسخاوی،ص:۲۶۰)

یعنی رمضان مقدس اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ساتھ ہی اِس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے مختلف شکلوںمیں بے شمارانعامات واکرامات کی بارشیں ہوتی ہیں جو اِس کے فضائل وبرکات کی روشن دلیلیں ہیں،مثلاً:
۱۔قرآن کریم ۲۔روزہ ۳۔سحری ۴۔افطار ۵۔تراویح ۶۔اعتکاف ۷۔ شب قدر ۸۔صدقۂ فطر

اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کودیگرچھوٹے بڑے اعمال پربہت سےانعامات واکرامات سے نوازاہے، جیسے افطار کرانے والے کو روزہ دارکے برابرثواب ملنا۔نفل اعمال کے بدلے فرض اعمال کا ثواب ملنا اورفرض اعمال کے بدلے سترفرائض کے برابر ثواب ملنا۔مزیدیہ کہ ایک روایت کے مطابق اس مبارک مہینےکے روزے کابدلہ خودخالق کائنات عطافرماتا ہے (وَ أَنَا اَجْزِیْ بِہٖ) (بخاری و مسلم ) اورایک روایت کے مطابق روزے کی جزاخالق کائنات احکم الحاکمین بذات خود ہے(اُجْزیٰ بِہٖ)۔

اس سے واضح ہوگیاکہ اللہ رب العزت نے ہم بندوںپراس ماہِ مقدس میں بے انتہافضل وکرم فرمایاہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ان انعامات و اکرامات سے ہم کس حد تک فیضیاب ہورہے ہیں؟رب کریم تواپنی شانِ معبودیت کامظاہرہ کررہا ہے لیکن کیاہم حق بندگی ادا کرپارہے ہیں؟ان تمام پہلوؤں پر غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے،پھراگرہم احکام الٰہی کی تعمیل کاحق اداکررہے ہیں تو ٹھیک ، ورنہ ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرناچاہیے اورمحاسبے کا سیدھاساطریقہ یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اللہ کی دی ہوئی اِن نعمتوں کی قدر ہم کہاں تک کررہے ہیں،مثلاً:رب نے ہمیں قرآن جیسی سراپاہدایت والی کتاب عطاکی ہے توہم اس کی تلاوت کتنی بار کرتے ہیں ،اگر اس کی تلاوت میں عام دنوں کی طرح رمضان میں بھی سستی سے کام لے رہے ہیں توگویاہم قرآن جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کررہے ہیں جب کہ اس نعمت کے نور سے قلب کی گندگی دورہوتی ہے۔پھراس کے باوجودکہ ہم پابندی سےروزہ رکھ رہے ہیں اس کے لوازمات وشرائط پوری نہیں کرپارہے ہیں تو گویا روزہ کے نام پر ہم بھوکے پیاسے ہیںاور یہ روزہ جیسی نعمت کی ناقدری ہے،جب کہ حق تویہ ہے کہ روزے کی حالت میں تمام ظاہری وباطنی برائیوں سے دوری اختیارکی جائے ،جیسے جھوٹ،غیبت،چغلی،حسد،کینہ، بغض اوراس طرح کی تمام بری باتیں وغیرہ۔

اگرہم سحری اس نیت سے کھارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت رکھی ہے اور اس کاکھانااللہ ورسول کاحکم بھی ہے،تو ہمیں جسمانی اورروحانی دونوں تازگی حاصل ہوگی اوراگرسحری صرف اس نیت سے کھارہے ہیں کہ پیٹ بھر جائے اوردن میں بھوک پیاس کی تکلیف سےمحفوظ رہیں،تویہ مقصدتوحاصل ہوجائے گا لیکن باطنی سرورحاصل نہیں ہوپائے گاجو اصل مقصودہے۔اسی طرح اگرہم افطار میں حلال اور پاک چیزوں کااہتمام نہیں کرتے ہیںتوگویاہم افطارجیسی نعمت کی ناقدری کررہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اورخرابی جو ہم اپنے اندرعام طور پرپاتے ہیں وہ یہ کہ افطار میں ہم اپنے ہم پلہ لوگوںکے ساتھ بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اوراپنے افطار کا لین دین بھی ان ہی لوگوں سے کرتے ہیں جو ہمارے برابرکے ہوں،اور خودسے کم رتبہ لوگوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ،یہ نہایت ہی بری بات ہے ۔اس سے جہاں افطار کی برکتیں ختم ہونے کا خدشہ رہتاہے وہیں ایک دوسرے کی دل شکنی کابھی خوف رہتاہے اور یہ دونوں باتیں محرومی کی وجہ ہیں۔

پھراگرہم پابندی سے نمازِ تراویح ادانہیں کرتے ہیںتواس کی پابندی کریں،یانمازتراویح پابندی سے اداتوکرتے ہیں ،لیکن اُس کی شرائط پوری نہیں کرپاتےتو اس کالحاظ رکھیں،مثلاً: نمازِتراویح کہیں تین دن،کہیں پانچ دن،کہیں دس دن اورپندرہ دن کی ہوتی ہے ،اگر چہ یہ شرعاً جائزہے لیکن یہ کیابات ہوئی کہ ہم اِن میعادی نمازتراویح میں ختم قرآن کریم کے بعد سرے سے تراویح ہی چھوڑ دیں، یہ سخت جہالت اورتراویح جیسی عظیم نعمت کی ناقدری ہے، جس پر سخت مواخذہ کیاجائے گا ۔اسی طرح اِن کم مدتی تراویح کی نمازوں میںایک نقص یہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ جب امام صاحب لمبی قرأت کرتے ہیں،تواِس بیچ ہم میں سے کچھ مقتدی گپیں مارنے میں لگ جاتے ہیں اور کچھ مقتدی چائے کی چسکی لینے میں مشغول ہوجاتے ہیں،پھر جیسے ہی امام صاحب نےرکوع کے لیے اللہ اکبرکہا،یہ لوگ دوڑتے بھاگتے جماعت میں شریک ہوتے ہیںاوراپنےخشوع وخضوع کی مٹی پلیدتو کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی دوسرے نمازیوں کے خشوع و خضوع پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں جو نہ اخلاقی اعتبارسے درست ہے اور نہ شرعی اعتبارسے لائق معافی ۔ للہ! نمازِتراویح جیسی نعمت الٰہی کی بے حرمتی نہ کی جائے۔

پھراعتکاف کے معاملے میں یہ مشکل بھی سامنے آتی ہے کہ ہم میں ہر کوئی اعتکاف کی عظمت بیان کرتاہے لیکن جب اعتکاف میں بیٹھنے کی باری آتی ہے تو سب اپنی اپنی بغلیں جھانکنے لگتے ہیںاورخوشی خوشی اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے ہم میںسےکوئی تیار نہیں ہوتااوراگرکوئی اعتکاف کے لیے سامنے آتابھی ہے تو سب سے بوڑھا شخص ۔جیسےہم میں سےاکثرلوگ اُس وقت حج کاارادہ کرتے ہیں جب ہم ہر گناہ یا ہرطرح کےمعیوب کام کرنے سے مجبور ہوجاتے ہیں۔اس سے انکارنہیں کہ ایسے شخص کےمعتکف ہونےسے بھی اعتکاف اداہوجائےگا، لیکن اس کی جو روحانیت ہے وہ شاید ہی حاصل ہو۔مزیدیہ کہ ہم میں سے جو کوئی معتکف ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ ترذکرواذکارمیں مشغول رہے ، ایسانہ ہوکہ ہمیشہ سوتاہی رہے۔معتکف کو خصوصاً گفتگو میں نہایت احتیاط سے کام لیناچاہیے بلکہ کم بولناچاہیے تاکہ اُسےاعتکاف کی اصل لذت حاصل ہوسکے۔اسی طرح رمضان کی آخری طاق راتوںمیںشب قدر کی تلاش کرتے وقت ہم میںسے اکثر لوگ نفل،تلاوت اورذکر الٰہی میں مصروف رہنے کی بجائے یا تو مٹرگشتی میں پوری رات گزاردیتے ہیں یا پھر اُدھم بازی میں سارا وقت برباد کر دیتے ہیں اور شب قدرجیسی عظیم رات کی ناقدری کربیٹھتے ہیں،اس لیےایسی راتوںمیںفالتوجاگنے کے بجائےاللہ کویادکرتے کرتے سوجانامیرے خیال میں زیادہ بہترہے۔ایسے ہی صدقہ فطرکی شکل میں اللہ نے ہم بندوں کو ایک عظیم نعمت عطافرمائی ہے ، جس کے دوہرے فائدے ہیں:ایک یہ کہ صدقہ فطراداکرکے ہم اپنے روزوںسے نقائص کو دورکرتے ہیں اوردوسرے یہ کہ صدقہ فطر کے ذریعے ہم غربااورفقراکی حاجتوں کو پوری کرکےمالی اعتبارسے اُن کی مددکرتےہیں۔نیزخود اللہ کی بارگاہ میں سرخروہوتے ہیں اور اُنھیں بھی دنیاکے سامنے خفت وشرمندگی اٹھانے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس طرح ان انعامات الٰہیہ کی قدر بھی ہوگی ہے اور ان سے فیض بھی حاصل ہوگا۔

اگرہم واقعی چاہتے ہیں کہ رمضان ہمارے لیے عشرۂ رحمت،عشرۂ مغفرت اورعشرۂ نجات ثابت ہوتوہمارے لیے ضروری ہے کہ رب کی مذکورہ بالانعمتوں کو پامال ہونے سےمحفوظ رکھا جائے اور اس کے ذریعے اپنی دنیاوآخرت سنواری جائے ،ورنہ پھر یہ ہوگا کہ اللہ کی رحمتوں اورنعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی اور ہم گناہ ونافرمانی کی آگ میں جلتے رہیں گے۔(العیاذباللہ) (مدیر ماہنامہ خضرراہ الہ آباد)
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52137 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More