کچن آف لائن
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
ایک زمانہ تھا جب خواتین خانہ
واقعی خواتین خانہ ہوا کرتی تھیں۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب ٹی وی چینلز کی
دُنیا کا آتش جوان نہیں تھا۔ زمانہ ایسا بدلا ہے کہ اب خواتین کو کھانا
پکانے سے زیادہ فکر اِس بات کی لاحق ہوتی ہے کہ گِھسی پِٹی ڈش کو بھی اِس
طرح کیسے تیار کریں کہ شوہر (اپنی انگلیاں) چاٹتے رہ جائیں! اِس فکر نے
جِدّت طرازی کا ایسا بازار گرم کیا ہے کہ اب کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا
کھائیں اور جو کچھ کھائیں اُسے کیسے ہضم کر پائیں۔
ابھی کل تک ملک کی حالت یہ تھی کہ خواتین سیانی ہوتے ہی ماں یا بڑی بہن سے
جو کچھ پکانا سیکھا کرتی تھیں اُسی پر اکتفا کرتی تھیں اور شوہروں کو زیادہ
آزمائش میں نہیں ڈالتی تھیں! مگر اِس دور میں کون سا اچھا دور زیادہ دن رہا
ہے جو یہ دور سلامت رہتا۔ نصیب میں لکھا تھا کہ خواتین کو نئے سِرے سے
کھانا پکانا سِکھایا جائے اور کھانے بھی ایسے کہ جن کا سِرا ڈھونڈے سے نہ
ملے! اب حالت یہ ہے کہ خواتین ٹی وی پر مختلف ڈِشوں کی تراکیب نوٹ کرکے کچن
میں مسالوں سے ڈِھشُم ڈِھشُم کرتی ہیں اور اُن کے تجربات کا نتیجہ گھر کے
تمام افراد کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ہم نے کئی بار اہلیہ کو ٹوکا ہے کہ ٹی وی پر پیش کی جانے والی تراکیب نوٹ
کرکے کچھ نہ پکایا کریں کیونکہ اب ہمارے صبر کی حد آچکی ہے، پیمانہ لب ریز
ہوچکا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے شوہروں کی طرح ہم بھی گھر کے
سُکون کی خاطر ہر وہ چیز خوشی خوشی کھا لیتے ہیں جسے پہلی پہلی بار پکایا
گیا ہو۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ایسے لمحات میں کیا جانے والا صبر ہی شاید
ہمیں جَنّت میں داخلے کا حقدار بنائے گا!
ایک دن ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ ٹی وی پر کوئی
کوکنگ ایکسپرٹ آلو گوشت پکانا سکھا رہی تھی اور اہلیہ بہت انہماک سے آلو
گوشت کی ڈِش تیار کرنے کے مختلف مراحل دیکھ رہی تھیں۔ ہم نے حیران ہوکر
پوچھا کہ آپ کو آلو گوشت پکانا آتا تو ہے پھر اِس میں نیا کیا ہے جو اِس
قدر انہماک سے دیکھا جارہا ہے۔ اہلیہ نے ’’جواب عرض ہے‘‘ کے طور پر فرمایا
کہ ہے تو آلو گوشت ہی مگر محترمہ نئے طریقے سے سکھا رہی ہیں۔ ہم نے پوچھا
نیا طریقہ کون سا ہے۔ جواب ملا کہ گوشت کو ذرا سا کَچّا رکھا جا رہا ہے کہ
ذائقے میں نئی بات (!) پیدا ہو۔ ہم نے مزید حیران ہوکر اہلیہ کو یاد دلایا
کہ ٹی وی چینل کی کوکنگ ایکسپرٹ نے کون سا کمال کیا ہے۔ یہ کمال تو آپ
تقریباً روز ہی دکھاتی ہیں!
اہلیہ نے خشمگیں نظروں سے ہمیں گھورتے ہوئے پوچھا۔ ’’کون سا کمال ہے جو میں
روز دکھاتی ہوں؟‘‘
ہم نے انجان بننے کی عمدہ اداکاری کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو کچھ پکاتی ہیں
اُس میں ایک آدھ آنچ کی کسر رہ جاتی ہے مگر اب شکایت اِس لیے نہیں کرتے کہ
ایک تو ہم عادی ہوچکے ہیں اور دوسرے یہ کہ اب ہمیں اِس میں لُطف آنے لگا
ہے! اگر کبھی کوئی چیز تمام بین الاقوامی یعنی خاندان و برادری کے معیارات
کے مطابق پک جائے تو خاصی اجنبیت محسوس ہوتی ہے!
یہ سُن کر اہلیہ کا پارہ چڑھ گیا۔ اُنہوں نے کریلوں کی کھال اُتارنے کا عمل
موقوف رکھتے ہوئے زبان کی چُھری سے ہماری کھال اُتارنے کا آغاز کیا! ہم نے
سمجھایا کہ بات ہرگز وہ نہیں جو آپ کی سمجھ میں آئی ہے بلکہ ہم تو صرف یہ
بتانا چاہتے ہیں کہ گھر کی آبرو برقرار رکھنے کے لیے اب ہم ہر اُس چیز کو
کُھلے دِل سے تسلیم اور قبول کرتے ہیں جو آپ کے ہاتھوں سے پک کر ہم تک
پہنچے۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا کہ آلو گوشت جب پکانا آتا ہی ہے تو پھر خواہ
مخواہ تجربات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ضروری ہے کہ کسی اچھی خاصی ڈِش کو
تجربات کی نذر کرکے لَذّت سے محروم کیا جائے؟
ہم نے یاد دلایا کہ ٹی وی چینلز تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی سوغات ہیں۔ جب
یہ آن لائن آپائیں نہیں تھیں تب بھی تو گھریلو خواتین کھانا پکایا ہی کرتی
تھیں۔ اور اُن کا کتابوں میں لکھی ہوئی ترکیبوں پر کم ہی انحصار تھا۔ یہی
سبب ہے کہ شوہروں اور بچوں کو کچھ ڈھنگ کی ڈِشیں مل جایا کرتی تھیں!
ہم اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جب ہمارے جوان ہونے تک ٹی وی چینلز کی بھرمار
نہیں ہوئی تھی یعنی جو کچھ ہماری ماں نے ہماری خالہ یا نانی سے سیکھا تھا
اُسی پر اکتفا کیا اور جب تک ہاتھوں دَم رہا، اچھا کھلایا۔ ہم یقین سے نہیں
کہہ سکتے کہ اگر اُن کے دور میں ٹی وی چینلز آگئے ہوتے تو کیا وہ آن لائن
کچن سے عجیب و غریب ڈِشوں کی ترکیبیں سیکھ کر ہم پر تجربے کرتیں۔ ہمارا
خیال ہے کہ کوئی بھی ماں اِتنی سَفّاک نہیں ہوسکتی کہ کھانا پکانے کے نام
پر اپنی اولاد کا صبر آزمائے! مگر پھر خیال آتا ہے کہ آج کل کی خواتین بھی
تو مائیں ہیں۔ خُدا جانے یہ کیسی مائیں ہیں! آن لائن کچن نے گھر کے اچھے
خاصے کچن کو آف لائن کردیا ہے۔
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زمانہ learn یعنی
سیکھنے کا ہے۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر relearn کا ہے یعنی نئے سِرے سے اور
مزید سیکھنا ہے۔ مگر اِن دونوں مراحل سے گزرنے سے بہت پہلے آپ کو unlearn
کی منزل سے گزرنا ہے۔ جو کچھ بہت پہلے سے بلکہ عشروں سے سیکھا ہوا ہے یعنی
جو بُھوسا دِماغوں میں بھرا ہوا ہے اُسے نکال پھینکنا ہے۔ ہمارا خیال ہے ٹی
وی چینلز نے خواتین کے دِماغوں سے بُھوسا نکال پھینکنے کا ٹاسک سنبھال لیا
ہے۔ جو کچھ بڑی بوڑھیوں نے سِکھایا تھا اُسے ذہن سے کُھرچ پھینکنے کے لیے
خواتین انتہائی بے تاب دکھائی دیتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ بعض اوقات تو اُمورِ
خانہ داری کی کوئی ماہر مِنی اسکرین پر خواتین خانہ کو قالین سے دُھول
نکالنے کا ہُنر بھی سِکھا رہی ہوتی ہیں! برتنوں کو صاف رکھنے اور چمکانے کے
اِتنے ٹوٹکے ٹی وی چینلز پر پیش کئے جاتے ہیں کہ برتن اگر جان لیں تو حیرت
کے مارے جان دے دیں!
کچن آن لائن کی وباء نے زندگی کو آسانی سے محروم کرنے میں اہم کردار ادا
کیا ہے۔ ٹی وی پر پیش کی جانے والی ترکیبوں کی روشنی میں تیار کی جانے والی
ایسی ایسی چیزیں کھانے کو ملی ہیں کہ ہمارا دِماغ پک گیا ہے۔ قابل ذکر بات
یہ ہے کہ اگر کسی ڈِش میں کوئی کسر رہ جائے تو اُسے خصوصیات قرار دے کر
تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ مثلاً بریانی میں گوشت ذرا سا کَچّا رہ جائے تو یہ
کہلائے گی کَچّے گوشت کی بریانی! اگر ٹی وی دیکھ کر گھر میں بنائے جانے
والے پُلاؤ کے چاول ٹوٹ جائیں تو یہ کہلائے گا ٹوٹے ہوئے چاولوں کا پُلاؤ۔
اگر دال میں مرچ ذرا زیادہ ہوجائے تو ’’مِرچوں بھری دال‘‘ قرار دینے میں
کیا ہرج ہے! اِسی صورت پراٹھا توے پر زیادہ دیر رہ جائے تو آپ کو پیش کیا
جائے گا جَلا ہوا یا اَدھ جَلا پراٹھا!
خواتین خانہ کچن میں جتنے تجربات کرتی ہیں اُتنے ہی تجربات اگر وہ کسی
باضابطہ لیباریٹری میں کیا کریں تو سائنس دان کے درجے پر فائز ہوں! آپ
سوچیں گے خواتین خانہ لیباریٹری میں کیا ایجاد کریں گی۔ ٹھیک ہے، وہ کچھ
بھی ایجاد نہیں کر پائیں گی مگر ہمارے سرکاری اداروں کے سائنس دانوں کا بھی
تو یہی حال ہے! اُنہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔
تمام شوہروں کی بہبود کے پیش نظر ہم ملک بھر کی خواتین خانہ کو مشورہ دیں
گے کہ ٹی وی پر کوکنگ شو کو محض دِل پشوری کے لیے دیکھیں، شوہروں کے معدے
پر سینہ زوری کے لیے نہ دیکھیں۔ جو کچھ اچھی طرح پکا سکتی ہیں اُسے کوکنگ
ایکسپرٹ کے مشوروں کی روشنی میں پکاکر ہمارے مُنہ کو لگا ہوا برسوں پُرانا
ذائقہ برباد نہ کریں! کوکنگ ایکسپرٹس کا کیا ہے، اُنہیں تو انٹ شنٹ پکانے
کا اچھا خاصا معاوضہ ملتا ہے۔ اور پھر اپنا پکایا ہوا اُنہیں کون سا کھانا
پڑتا ہے! ذرا سا چکھ کر وہ تو ایک طرف ہٹ جاتی ہیں اور قوم کی مائیں،
بہنیں، بیٹیاں لکیر پیٹتی رہتی ہیں!
|
|