کانچ

ہمیں بچپن ہی سے کانچ پسند ہے۔پتہ نہیں کیوں،لیکن ہے۔ہمارے گھر میں کانچ کا برتن روز مرہ معمول میں استعمال نہ ہوتا تھا۔صرف اس وقت جب مہمان آتے تو کانچ کے گلاسوں میں ان کو شربت جوعام طور پر ٹھنڈے پانی میں چینی حل کر کے تیار کیا جاتا،پلایا جاتا۔پھر گلاس سنبھال کر گڑاستی پے سجا دیے جاتے۔ہمیں تانبے کے گلاسوں میں جنہیں قلعی کیا گیا ہوتا پانی یا شربت پینا پڑتا۔یہ بے ڈھنگے،لمبے تڑنگے گلاس بالکل اچھے نہ لگتے تھے،لیکن ہمیں انہیں میں پینا پڑتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کانچ کے گلاس بڑے لمبے عرصے تک صحیح سلامت رہے۔

جب گھر میں ہماری حکومت قائم ہوئی تو ہم نے بچپن کی محرومیوں کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔جن میں سے ایک گھر کے عام روزمرہ استعمال میں کانچ کے گلاسوں کا استعمال بھی تھا۔سب سے پہلے تو جہیز میں آئے ہوئے گلاسوں کے سیٹ کی قربانی دی گئی۔اس کے بعد شیشے کا گلاسوں کی آمد اور رفت کا سلسلہ اتنی تیزی سے چلا کہ ہم نے اپنے ارادے اور فیصلے میں حماقت کا عنصر پایا اور ان پڑھ والدین کی دانائی کی داد دینا ہی پڑی۔لیکن پھر بھی ہمیں شیشے کے گلاس پسند ہیں۔

شیشے کے برتن ہمیں کیوں پسند ہیں : شاید اس وجہ سے کہ اس میں پانی یا شربت ڈال کر دیکھیں تو جو پیاری چمک اوردمک نظر آتی ہے وہ اس کے سوا کہاں ملتی ہے۔شیشے کی نزاکت کسی اور چیز میں کہاں ملتی ہے۔نزاکت کے ساتھ ساتھ جو شیشے کے برتنوں کی مدھر سی آواز ہے یعنی کانچ کی آواز کتنی بھلی لگتی ہے۔

کانچ میں آخر کیا ہے جو ہمیں اتنا اچھا لگتا ہے، کانچ میں بہت کچھ ہے: کانچ میں رشتہ ہے،یہ رشتہ ہے ماں باپ اور اولاد کا،بہن بھائی کا،میاں بیوی کا،استاد اور شاگرد کا،زمین اور آسمان کا،پھول اور خوشبو کا،انسان اور انسانیت کا،مصنف اور تحریر کا،نظراور دل کا،محبت اور آنسوکا،جذبے اور اظہار کا،انجانے لوگوں سے بندھن کا،کوئل اور کوکوکا،بلبل اورگیت کا، ساز اور آواز کا،زندگی اور موت کا،سانس اور روح کا،بندے اور خدا کا،شاعر اور تخیل کا،شاعری اور فلسفے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کانچ نہیں یہ رشتہ ہے اسے محفوظ رکھنا ہے۔اسے گرنے نہیں دینا ۔یہ ٹوٹ گیا تو پھر نہیں جڑے گا، بکھر گیا تو پھر کبھی اکٹھا نہ ہو گا،اس رشتے سے زندگی کا لطف ہے ،اس سے زندگی کی بہار ہے،اس سے زندگی کے معانی ہیں اس سے زندگی میں رنگ ہیں اس سے زندگی حسین ہے، اس سے زندگی میں سورج چاند،ستارے ہیں،اس سے زندگی میں روزوشب ہیں،اس سے زندگی میں موسم ہیں،اس سے زندگی میں رت بدلتی ہے، اس سے زندگی میں تہوار آتے ہیں،اس سے زندگی میں مزے ہیں، اس سے جھولا جھولنے میں لطف آتا ہے، اس سے زندگی میں جدوجہد ہے، اس سے زندگی میں خوشی ہے، اس سے زندگی میں غم ہے، اس سے زندگی میں روٹھنا اور منانا ہے، اس سے زندگی میں لینا اور دینا ہے، اس سے زندگی میں منزل ہے، اس سے زندگی میں رستہ ہے، اس سے زندگی میں بہاؤ ہے، اس سے ہواؤں میں روانی ہے، س سے قوسِ قزح میں رنگ ہیں، اس سے شہد میں مٹھاس ہے، اس سے آنکھ میں روشنی ہے، اس سے ذہن میں سکون ہے، اس سے روح بدن میں ہے، اس سے کائنات قائم ہے، یہ رشتہ ہے۔۔۔

کانچ ایک موقع ہے جو ہاتھ سے نکل جائے تو واپس نہیں اآتا۔اس لیے اس کی حفاظت لازم ہے اسے ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا،اسے ضائع نہیں ہونے دینا، اسے احتیاط سے سنبھانا ہے،کیونکہ میرؔ صاھب فرماتے ہیں:
غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز
میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا

کہا جاتا ہے جو وقت کو ضائع کرتے ہیں وقت انہیں ضائع کر دیتا ہے۔موقع وقت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور کبھی کبھی ہاتھ آتا ہیاانگلش میں کہتے ہیں کہ خوش قسمتی آپ کے دروازے پر دستک دیتی ہے لیکن ایک بار۔دنیا میں کتنے ہی لوگ اپنے ماضی پر پچھتانے والے ملیں گے۔انہوں نے کانچ توڑ دیا اور اب جوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔مگر:
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
سدا عیش دوران دیکھاتا نہیں

کانچ زندگی ہے صرف ایک ہی بارملتی ہے ایک بار جو سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی پھر نہیں جڑتی۔زندگی کا چانس صرف اور صرف ایک ہے۔ کانچ کا چانس بھی صرف ایک ہے۔ کانچ نازک ہے زندگی اس سے بھی زیادہ نازک ہے۔ کانچ کسی سے بھی ٹوٹ سکتا ہے زندگی کسی سے بھی روٹھ سکتی ہے۔کانچ نے آخر ایک نہ ایک دن ٹوٹ ہی جانا ہوتا ہے زندگی نے بھی آکرایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔
شیشہ ہو یا دل ہو آخر ٹوٹ جاتا ہے

کانچ سب کو پیارا لگتا ہے زندگی کس کو اچھی نہیں لگتی۔ کانچ پھر بھی جاتا ہے یعنی کٹاؤ ڈال دیتا ہے زندگی بھی دل کاٹ دیتی ہے۔کانچ کے پار دیکھا جاتا ہے اور یہ چیز اسے پسندیدہ بھی بناتی ہے ایسے ہی زندگی کے ماضی ، حال اور مستقبل پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔اور یہ بات زندگی کو پیارا بناتی ہے۔کانچ بے رنگ ہے تو زندگی بھی بے رنگ ہے اور اگر کانچ کے کئی رنگ ہیں تو زندگی کے کیا کوئی کم رنگ ہیں۔کانچ کی بے شمار شکلیں ہیں تو زندگی کی اس سے بھی زیادہ صورتیں ہیں۔کانچ ہر طرف ہے تو زندگی بھی ہر طرف ہے۔ کیا ہوا اور فضا بھی شیشہ ہیں؟اگر ہیں بھی تو زندگی ہواؤں اور فضاؤں سے آگے تک ہے۔کیا آسمان بھی کانچ ہے تو زندگی آسمان کی شمعیں روشن کرتی ہے۔کانچ پانی جیسا ہے تو زندگی پا نی کی روانی ہے۔پانی میں زندگی ہے اور زندگی کا رنگ بھی پانی جیسا ہے۔

کانچ میں اپنی تصویر بھی نظر آتی ہے تو زندگی بار بار یہ عمل دھراتی ہے۔زندگی بذاتِ خود ایک آئینہ ہے۔زندگی اپنی تصویر بھی دیکھاتی ہے اور دوسروں کی بھی، کانچ تو صرف دوسروں کی شکل دیکھاتا ہے اپنی کبھی نہیں ۔

کانچ کو آنچ نہ آنے دینا ہی زندگی کا اصل کمال ہے۔لیکن یہ کسی کسی کو حاصل ہے۔ اکثر کانچ کو آنچ آہی جاتی ہے۔اور کانچ کے لیے آنچ ہی کافی ہے ہتھوڑے مارنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔
ٰٓ شیشہء دل اتنا نا اچھالو
یہ کہیں ٹوٹ جائے گا
یہ کہیں پھوٹ جائے گا

کانچ کو آنکھ سے جو مشابہت ہے قدرت کا کمال ہے۔ آنکھ کے رشتے کتنے نازک ہوتے ہیں شاید شیشے سے بھی زیادہ۔شیشے کو تو چوٹ لگنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آنکھ کو تو اتنی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔آنکھ کی چمک اپنے اندر شیشے جیسی نزاکت رکھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی نمی اور آنسو کی بے مثال بناوٹ بھی رکھتی ہے۔آنکھ کو شیشے پر برتری حاصل ہے لیکن تعلق انتہائی قریبی ہے۔

شیشے اور آنکھ میں مذید قربت لانے والی چیز عینک ہے جو اکثر شیشے کی بنی ہوتی ہے اور جس کے بغیر آنکھ ناکارہ اور بے کار سی لاگتی ہے۔اس لحاظ سے تو شیشہ اور آنکھ یک جان دو قالب والی بات بنتے ہیں۔
دل بھی شیشہ، آنکھ بھی شیشہ، زندگی بھی شیشہ، تعلقات بھی شیشہ، جذبات بھی شیشہ، ہر چیز شیشہ۔ یہ زندگی دراصل شیشے کا کاروبار ہے، یہاں احتیاط کی انتہائی ضرورت ہے۔ میرؔ صاحب فرما گئے ہیں:
لے سانس بھی آہستہ ،کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا

ششے کا ذکر جنت جے بغیر نا مکمل ہی رہے گا جہاں شیشہ صفت حوریں اور موتی صفت غلمان ہوں گے۔محلات بھی شیشے سے تعمیر شدہ ہوں گے۔

ویسے اگر دل کے شیشے کی بات کی جائے تو یہ شیشہ جتنا صاف اور شفاف ہو گا دنیا بھی اتنی دور تک نظر آئے گی۔انسان کے دل کا نیٹ اپنے شیشے کی صفائی سے بہت دور تک دیکھ سکتا ہے۔اور اگر یہ شیشہ دھندلا ہو تو کسی دوسرے کو کیا دیکھنا اپنا آپ ہی نظر نہیں آتا۔

کائناتی وسعتوں کو نظر میں لانے کے لئے بھی شیشہ درکار ہے۔ٹیلی سکوپ عدسوں کے استعمال سے کیا کرشمے دیکھاتی ہے۔اور یہی کارنامہ الٹ سمت میں خوردبین سر انجام دیتی ہے۔یعنی دورونزدیک اور چھوٹی بڑی دونوں قسم کی چیزوں کی صورت میں شیشہ درکار ہے۔

شیشہ شراب کی صراحی کے لئے بھی مستعمل ہے جسے دیکھ کر مئے کشوں کو سکون مل جاتا ہے۔بَلا کے بِلا نوش اپنے ساقی سے گزارش کرتے سنے جاتے ہیں:
مجھ بِلا نوش کو تلچھٹ ہی ہے کافی ساقی
بھر دے چلو میں جو شیشے میں ہی باقی ساقی

کانچ کی چوڑیوں کا ذکر نہ کرنا مشرقی ہونے پر حرف لاتا ہے مشرق میں چوڑیوں اور خاص طور پر کانچ کی چوڑیوں کو جو اہمیت حاصل ہے اسے معاشرتی اور ادبی زندگی سے گفتگو سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ چوڑیوں کے ساتھ جذبات اور امیدیں منسلک ہوتی ہیں اور ان چیزوں سے ہی زندگی وابستہ ہے۔یعنی کانچ ایک بار پھر زندگی کی علامت ٹھہرا۔

انسان کی تمدنی زندگی کا مطالعہ اس بات کا احساس پیدا کرتا ہے کہ انسان پتھر سے شیشے کی طرف سفر کر رہا ہے۔ کسی زمانے میں ہر چیز پتھر کی بنائی جاتی تھی اور آج ہر چیز شیشے کی بنانے کی کوشش جاری ہے۔ برتنوں میں شیشہ آئے تو کافی دیر ہو چکی ہے اب فرنیچر بھی شیشے کا ہو گیا ہے۔ رہائشوں گاہوں میں شیشے کا کافی عمل دخل بڑھ چکا ہے اور مذید بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اس سے انسان کی جبلت کا اندازا بھی ہوتا ہے کہ وہ شیشے کی طرف میلان رکھتی ہے ،اور چاہتی ہے کہ ہر چیز شیشے کی ہو جائے۔

شیشے کا ذکر ہو اور شیشے میں اتارنے کا ذکر نہ ہو مناسب نہیں۔بہت سے شیشہ بدن یہ ہنر بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور بروئے کا ر بھی لاتے ہیں۔دنیا میں ہر زمانے اور علاقے میں ایسے بھان متی ضرورہوئے ہیں جو کسی بھی شخصیت کو اتنی آسانی سے شیشے میں اتار لیتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

قصہء مختصر کانچ کو زندگی میں ہمیشہ اہمیت حا صل رہی ہے لیکن اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن کیا ستم ظریفی ہے کہ انسان ہر چیز تو شیشے کی بناتا جا رہا ہے اور خود پتھر کا ہوتا جا رہا ہے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285254 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More