وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک کے
بعد ایک توانائی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ بلاشبہ توانائی بحران نے
ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اسی لیے قوم ان
منصوبوں پر کام ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہے۔ گو ابھی ان منصوبوں نے باقاعدہ
پیداوار شروع نہیں کی، مگر درخت لگ گیا ہے تو پھل بھی لگ ہی جائے گا۔ دیامر
بھاشا اور اس نوعیت کے دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں پر اگلے چند ہفتوں میں کام کا
آغاز ہونے والا ہے، اس تناظر میں کالا باغ ڈیم کا معاملہ ایک بار پھر زندہ
ہوگیا ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے اس ڈیم پر بھی کام شروع کرنے کے مطالبات
سامنے آرہے ہیں۔
کالا باغ ڈیم جسے پاکستان کا سب سے متنازع منصوبہ بنادیا گیا ہے، پر 1953ء
میں کام شروع ہوا۔ بنیادی طورپر یہ بجلی بنانے کا منصوبہ ہے، لیکن اس سے آب
پاشی اور دیگر مقاصد کے لیے 7 لاکھ ایکڑ فٹ پانی بھی حاصل ہوسکتاہے۔ منصوبے
سے متعلق مختلف فنی رپورٹوں اور دیگر امور پر اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں
،مگر 60 برس اور اربوں روپے پھونکنے کے باوجود اس ڈیم پر کام ٹھپ پڑا ہے۔
درحقیقت غلط فہمی، سیاست اور بداعتمادی اس منصوبے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں،
ان تینوں معاملات کا حل نکالے بغیر اس منصوبے پر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔
سب سے پہلے غلط فہمی کے معاملے کو دیکھتے ہیں۔ ایک شخص جو کالا باغ ڈیم کی
تعمیر کے خلاف احتجاج کررہا تھا، اس سے پوچھا، بھائی تمہیں اس ڈیم کی تعمیر
پر کیا اعتراض ہے؟ وہ چیخا کچھ بھی ہوجائے، سندھ میں ڈیم نہیں بننے دیں
گے!! یعنی اس بے چارے کو یہ بھی معلوم نہیں تھاکہ کالاباغ ڈیم کہاں بن رہا
ہے؟ وہ تو یہ سمجھتے ہوئے سڑک پر آکھڑا ہوا تھا کہ بس کوئی سندھ مخالف
معاملہ ہے۔ اس شخص کی طرح اور لوگوں میں بھی کالا باغ ڈیم کے متعلق غلط
فہمیاں پائی جاتی ہیں، ان غلط فہمیوں نے لاکھوں لوگوں کو اس منصوبے کے خلاف
کھڑا کردیا ہے۔ دوسری طرف ماضی کی حکومتوں نے ان غلط فہمیوں کے ازالے کے
لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔
کالا باغ ڈیم منصوبے کو سب سے زیادہ نقصان سیاست نے پہنچایا ہے۔ ایک خالص
فنی معاملہ سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ گیا اور وہ اس ڈھول کو گلے سے اتارنے
پر تیار نہیں۔ بلوچستان کا تو اس معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں، باقی
تین صوبوں میں اس کے حق اور مخالفت میں مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن کالا
باغ ڈیم منصوبے کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ
جلسے، جلوس اور مظاہرے اس کے معاملے پر ہوئے ہیں۔ سندھ میں ’’قومی تحریک‘‘
کے طورپر اس کے خلاف مہم چلائی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کالا باغ
ڈیم سندھ میں گالی بن چکا ہے۔ کسی جماعت میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ سندھ
میں اس ڈیم کے حق میں جلسے، جلوس تو دور کی بات کوئی چھوٹا سا مظاہرہ ہی کر
دکھائے۔ جو سیاسی راہنما پنجاب میں بیٹھ کر کالا باغ ڈیم کے حق میں دلائل
کے ڈھیر لگادیتے ہیں، سکھر پہنچتے ہی ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ پیپلز
پارٹی تو خیر ایک قوم پرست جماعت ہے، اس کی بات تو چھوڑیے۔ن لیگ کو دیکھ
لیں، اس کے کسی سندھی راہنما کو کالاباغ ڈیم کے حق میں بیان دینے کا کہیں
تو وہ ہاتھ جوڑے گا۔ ق لیگی اس بارے میں بہت ڈینگیں مارتے ہیں، وہ اپنے
سندھی راہنماؤں سے اس ڈیم کے حق میں کوئی بیان کیوں نہیں دلواتے؟ اس بات کو
تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ سندھی قوم پرست کالاباغ ڈیم منصوبے کو سندھ
دشمن منصوبے کے طورپر پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سندھ کی ہر قابل ذکر
جماعت خواہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو، کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں قوم پرستوں کے
ساتھ ہے۔ ہم نے بارہا پلیجو، بشیر قریشی، قادر مگسی جیسے قوم پرستوں کے
ساتھ خالد محمود سومرو اور دیگر علماء کو بیٹھے دیکھا ہے، بلکہ جے یو آئی
سندھ سے وابستہ بعض اکابر علماء کرام نے تو کالا باغ ڈیم کے خلاف باقاعدہ
فتویٰ بھی جاری کیا ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر سندھ اور خیبر پختونخوا کو اعتراض ہے۔ خیبر
پختونخوا کے قوم پرستوں نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے
نوشہرہ کے زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔ ماہرین نے اس بارے میں کافی مضبوط دلائل
دیے ہیں، جبکہ ڈیم کی بلندی کو کئی فٹ کم کرنے کی پیشکش بھی کی گئی ہے، جس
سے خیبرپختونخوا کا اعتراض بہت حد تک دور ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ معاملہ
چوں کہ صرف نوشہرہ تک محدود تھا، اس لیے ڈیم کے خلاف صوبے کے باقی حصوں میں
کوئی ہلچل نہیں ہوئی، مظاہرے بھی صرف نوشہرہ تک محدود رہے، تاہم سندھ کا
معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
قارئین جانتے ہیں کہ دریائے سندھ صوبہ سندھ کے انتہائی جنوب میں بحیرہ عرب
میں گرتا ہے، اب فنی معاملہ یہ ہے کہ اگر سمندر میں ایک مخصوص مقدار میں
میٹھا یعنی دریا کا پانی نہ چھوڑا جائے تو سمندری پانی دریا کے ڈیلٹا اور
اس سے ملحقہ علاقوں کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے جس سے زمینیں سمندر برد
ہوجاتی ہیں۔ پرانے زمانے میں دریا کے پانی پر کوئی روک ٹوک ہوتی نہیں تھی،
اس لیے وہ کثرت سے سمندر میں گرتا رہتا تھا۔ انگریز دور میں جب دریائے سندھ
پر بیراج وغیرہ بنائے گئے تو انہوں نے خاص طورپر اس بات کا خیال رکھا کہ
سمندر میں گرنے والے دریائی پانی میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ہمارے بہت سے
کالم نگار بھائی جو سمندر میں گرنے والے پانی کو ضایع قرار دیتے نہیں
تھکتے، شاید یہ فنی نکتہ ان کے سامنے نہیں ہوتا۔
سندھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو سمندر کو مطلوبہ میٹھا
پانی نہیں ملے گا، جس سے سندھ کی زمینیں سمندر برد ہوکر خراب ہوجائیں گی۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ڈیم سے کئی نہریں بھی نکالی جائیں گی، جن میں سے
بیشتر پنجاب کو سیراب کریں گی، اس طرح پہلے سے پانی کی کمی کا شکار سندھ
ریگستان بن جائے گا۔ اس پر حکومتی ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ ڈیم میں
صرف اضافی پانی جمع کیا جائے گا۔ سندھی قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ وہ اضافی
پانی ہے کہاں؟ اگر ایسا کوئی پانی موجود ہے تو اب صوبے کو کیوں نہیں دیا
جارہا؟ اور اگر یہ ڈیم محض سیلابی پانی جمع کرنے کے لیے بنایا جارہا ہے،
ملک میں اتنے سیلاب تو نہیں آتے جن کے لیے اتنے بڑے ڈیم بنادیے جائیں؟
کالا باغ ڈیم پر سندھ کے اعتراضات ایسے نہیں ہیں جنہیں محض سیاست یا بے
وقوفی قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ قوم پرستوں
نے فنی معاملات کو سیاست زدہ کرکے حل کے راستے کم کردیے ہیں۔ ہمارے ہاں اس
منصوبے پر انتہا پسندانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ حامی جن میں سے بیشتر کا تعلق
پنجاب سے ہے، وہ مخالفین کے اعتراضات کو اہمیت دیے بغیر ہر صورت مجوزہ نقشے
اور پلاننگ کے تحت کالا باغ ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مخالفین کسی
کی بات سننے پر آمادہ نہیں، انہوں نے صرف نہ کھپے، نہ کھپے کی رٹ لگا رکھی
ہے۔ یہ منصوبہ دو انتہاؤں میں بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے۔ اگر پہلے گروہ کی
بات مان لی جائے تو صوبے اور قومیں آپس میں لڑ پڑیں گی۔ مخالفین کی مانیں
تو توانائی کے ایک بڑے منصوبے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
سندھ کے اعتراضات ایسے نہیں جو دور نہ کیے جاسکتے ہوں۔ فنی اعتراضات کو فنی
طریقوں سے دور کیا جاسکتا تھا ،مگر سابق حکومتوں کے سیاسی مفادات اور
کمزوری نے اس معاملے کو الجھادیا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو پورے معاملے
میں صرف بداعتمادی نظر آتی ہے۔ خیبر پختونخوا اور سندھ وفاقی حکومت پر
اعتماد کرنے پر تیار نہیں، اگر وفاقی حکومت چاہتی تو ان صوبوں کو ٹھوس
ضمانت دے کر کالا باغ ڈیم پر راضی کیا جاسکتا تھا، مگر حکومتوں نے اس
معاملے کو صرف بیان بازی تک محدود رکھا۔ سیاست دانوں اور فوجی آمروں کی
نالائقی نے صوبوں کے درمیان بداعتمادی کو بڑھاوا دیا، صورت حال یہاں تک
پہنچ گئی کہ آج لوگ کہتے ہیں ہمیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور پاکستان میں
سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ شاید یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں!! |