لفظ "داعش" عبارت "الدولۃ
الاسلامیۃ فی العراق و الشام" کا مخفف ہے۔ اس دہشتگرد گروہ نے شام میں داخل
ہونے سے پہلے اپنے لیے "داع" کا نام انتخاب کیا تھا، یعنی "الدولۃ السلامیۃ
فی العراق" مگر شام میں داخل ہونے کے بعد اس لفظ میں حرف "ش" کا اضافہ
کردیا تا کہ اس میں ملک شام بھی شامل ہوجائے۔
داعش، امریکہ کے دہشتگردانہ اہداف کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہداعش
رہنماؤں کے اہداف
گروہ داعش کی حمایت کرنے والے قائدین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس گروہ کی تشکیل
کا مقصد اسلامی ممالک بالخصوص شام اور عراق میں شریعت خلافت اسلامیہ کے دور
کو دوبارہ لوٹانا ہے مگر ان کے قول و عمل میں مکمل تضاد پایا جاتا ہے۔
کیونکہ نفاذ قوانین اسلام کے برخلاف وہ وحشیانہ قسم کی جنایتیں انجام دیتے
ہیں اور صرف ایک اللہ اکبر کہہ کر بےگناہوں اور اپنے مخالفین کا سر تن سے
جدا کردیتے ہیں اور ان کے سروں کے ساتھ کھیل کھیلتے ہیں، یہ ساری چیزیں ان
کی تفریح کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان وحشیانہ اعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان
ساز اور صلح پسند دین کا چہرہ دنیا کی نظروں میں مخدوش ہوکر رہ گیا ہے کہ
جسے بہانہ بناکر اسلام مخالف اور صہیونی عناصر اسلام کو بدنام کرنے کی
کوششیں کررہے ہیں۔
شام میں دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دینے کے بعد داعش کا عراق میں داخل
ہونا اور موصل پر قبضہ کرنا اور دوسری طرف سے سامرا میں امام حسن عسکری
علیہ السلام کے روضے پر قبضہ کے لیے حملہ کرنا مگر اس حملے کو ناکامی کا
منھ دیکھنا پڑا، ان ساری دہشتگردانہ کارروائیوں کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا
ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہوا کہ اس تکفیری گروہ نے اتنی تیزی سے علاقے میں
کنٹرول حاصل کرلیا، ایسا گروہ جو اپنے مخالفین کو کافر اور ان کے خون کو
مباح جانتا ہے۔ وسیع پیمانے پر فوجی ساز و سامان سے لیس ہونا اس حقیقت کو
ثابت کرتا ہے کہ انہیں علاقے کے بعض ممالک بالخصوص سعودی عربیہ اور قطر کی
پشت پناہی حاصل ہے۔ اور ان کے بغیر وہ ایک خطرناک ترین دہشتگرد گروہ میں
تبدیل نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی لیے بارہا عراق کے اعلی عہدیدار بالخصوص عراقی
وزیر اعظم نوری مالکی نے کہا کہ سعودی عربیہ اور قطر دہشتگردی کے اصلی
حامیوں میں سے ہیں کہ جو ہر ممکن طریقے سے ان دہشتگردوں کی مالی اور فوجی
مدد کرتے ہیں تا کہ وہ اپنے خطرناک اہداف کو حاصل کرسکیں کہ جن کا اصلی
مقصد علاقے میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینا اور اس کے ذریعے سے علاقائی
قوتوں کو تحلیل کرنا ہے، ورنہ اگر ان ممالک کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو یہ
دہشتگرد گروہ تھوڑے عرصے میں نیست و نابود ہوجائیگا۔
داعش کی تشکیل کس زمانے میں ہوئی؟
اس سوال کی بازگشت سن 2004 کی طرف ہوتی ہے، کہ جس وقت عراقی القاعدہ کے
سرغنہ ابومصعب زرقاوی نے "جماعت توحید و جہاد" نامی ایک گروہ کی بنیاد
رکھی۔ زرقاوی کے پاس اس گروہ کی قیادت تھی جس نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ
بن لادن کی بیعت کررکھی تھی۔ اس طرح وہ علاقے میں القاعدہ کا نمائندہ بن
گیا۔
امریکی حملے کے موقع پر یہ گروہ ایک جہادی گروہ بن کر ابھرا جس نے امریکی
فوجیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسی وجہ سے اس گروہ کو عراقی عوام میں تیزی
سے مقبولیت حاصل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ گروہ مضبوط ترین عسکریت
پسندوں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
سن 2006 میں زرقاوی ایک ویڈیو میں ظاہر ہوا جس میں اس نے مجاہدین کی ایک
مشاورتی کونسل بنانے کی خبر دی اور اس کی قیادت کو عبداللہ رشید بغدادی کو
سونپی۔ مگر جس مہینے میں یہ کام انجام پایا اسی مہینے میں زرقاوی مارا گیا
اور ابوحمزہ مہاجر کو عراقی القاعدہ کا رہبر بنایا گیا۔
2006 کے اواخر میں ایک فوجی گروہ عراق میں تشکیل پایا کہ جس میں عراق کے
تمام بنیاد پسند عناصر اور تنظیمیں شامل تھیں، اس گروہ کا نام "الدولۃ
الاسلامیۃ فی العراق" رکھا گیا جس کی قیادت ابوعمر بغدادی کے ہاتھوں میں
تھی۔
اپریل 2010 میں امریکی فوجیوں نے ثرثار نامی علاقے میں ایک فوجی آپریشن کیا
اور ایک گھر پر حملہ کیا جس میں ابو عمر بغدادی اور ابو حمزہ مہاجر موجود
تھے، اس حملے میں دونوں طرف سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور آخرکار ہوائی
بمباری کے ذریعے یہ دونوں ہلاک ہوگئے۔
ایک ہفتے بعد اس گروہ نے ایک بیان میں ان دونوں کے مرنے کی تصدیق کی۔
الدولۃ الاسلامیۃ کی مشاورتی کونسل نے دس روز کے بعد ایک میٹنگ رکھی اور اس
میں ابوعمر بغدادی کی جگہ ابوبکر بغدادی کو قیادت کے لیے انتخاب کیا اور آج
یہی شخص "الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق و الشام" کا امیر ہے۔
داعش دہشتگردداعش کا امیر کون ہے؟ اور اس کا ماضی کیسا ہے؟
اس دہشتگرد گروہ کا سرغنہ ابوبکر بغدادی ہے مگر اس کا اصلی نام "ابراہیم
عواد ابراہیم علی البدر" ہے۔ اس کے اور بھی اسماء و القاب ہیں جیسے علی
البدر السامرائی، ابو دعا، ڈاکٹر ابراہیم اور کرار وغیرہ۔
ابوبکر 1971 میں شہر سامرا میں پیدا ہوا۔ ابوبکر البغدادی بغداد اسلامی
یوینیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے کہ جہاں سے اس نے بیچلرز، ماسٹرز اور
ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ اس کے گھر کے افراد کافی عرصہ پہلے پاکستان چلے گئے تھے
اور اس وقت وہیں زندگی بسر کررہے ہیں۔
ابراہیم عواد بن عواد بن ابراہیم البدری ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا کہ
جو سلفی تکفیری عقیدے کا حامل تھا۔ اس کا باپ ابو بدری قبیلے کے بزرگان میں
سے تھا کہ جس کا نسب قریش سے ملتا ہے اور اس کے چچا عراق کے اسلام پسند
مبلغین میں سے ہیں۔
بغدادی نے اپنی سرگرمیوں کی ابتدا تبلیغ اور لوگوں کو پڑھانے لکھانے سے
شروع کی مگر کچھ ہی عرصے بعد وہ جہاد کے میدان میں اتر گیا اور جہادی
سلفیوں کے اہم ترین ارکان میں شمار ہونے لگا۔
اس نے اپنی سب سے پہلی سرگرمی مسجد امام احمد بن حنبل سے شروع کی جہاں اس
نے ایک چھوٹا سا جہادی گروپ بنایا۔ اس گروپ نے کئی دہشتگرادنہ کارروائیاں
بھی انجام دی ہیں۔
اس کے بعد بغدادی نے بنیاد پرستوں کی اہم شخصیتوں کے ساتھ مل کر "اہل سنت و
الجماعت آرمی" نامی ایک گروہ کی بنیاد رکھی اور بغداد، سامرا اور دیالہ میں
اپنی سرگرمیوں کو پھیلایا اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ مجاہدین کی مشاورتی
کونسل کے ساتھ ملحق ہوگیا اور شرعی کونسلز کی تشکیل کے لیے اسی کونسل میں
کوشش کی اور اسی دوران "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق" کی تشکیل کا اعلان کیا
گیا۔
ابوبکر بغدادی کے ابوعمر بغدادی کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے، کہ ابوعمر
بغدادی نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جانشین ابوبکر بغدادی ہی
ہوگا۔ یہ واقعہ 16 مئی 2010 میں پیش آیا اور ابوبکر بغدادی الدولۃ
الاسلامیۃ فی العراق کے امیر کے طور منتخب ہوا۔
القاعدہ کی دہشتگردانہ کارروائیوں اور زرقاوی دور کے علاوہ ابوبکر بغدادی
کے آنے کے بعد الدولۃ الاسلامیہ فی العراق نے عراق میں کئی دہشتگردانہ
کارروائیاں انجام دی ہیں جن کی وجہ سے سیکڑوں بےگناہ عراقیوں کا خون بہایا
گیا۔
اس گروہ نے سب سے اہم کارروائی مسجد ام القری پر حملہ کرکے انجام دی کہ جس
میں عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے خالد فہداوی مارے گئے۔ اسی طرح اسامہ بن
لادن کے خون کا بھی بدلہ لینے کے لیے متعدد کارروائیاں انجام دی گئیں کہ جن
میں سیکڑوں فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور عوام کا خون بہایا گیا۔
عراقی القاعدہ سے وابستہ اینٹرنیٹ ویب سائٹ نے بن لادن کا بدلہ لینے کے لیے
سو سے زیادہ خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اس کے بعد اس گروہ نے کچھ
خاص آپریشنز بھی انجام دیئے کہ جن میں مرکزی بینک، وزارت انصاف، ابوغریب
اور حوت کی جیلوں پر حملہ شامل ہے۔
ابوبکر بغدادی کی قیادت میں عقیدتی اعتبار سے گرچہ داعش اور القاعدہ سلفی
شمار کئے جاتے ہیں مگر عسکری اعتبار سے داعش کو کچھ خاص امتیازات حاصل ہیں
اسی وجہ سے داعشی جلد ہی القاعدہ سے جدا ہوگئے۔ داعش، القاعدہ کی مانند
نہیں ہے کہ جو صرف جنگ پر ہی اکتفا کرلے بلکہ زمینوں کو فتح کرنا اور ان پر
قبضہ کرنا ان کے اہم جنگی اہداف و مبانی میں سے ہے۔
بغدادی جب کسی شہر کو فتح کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنے اہلکاروں وہاں کے
مقامی لباس میں بھیجتا ہے جو وہاں جاکر گھروں میں پرامن طریقے سے زندگی
گزارنے لگتے ہیں اور اگلے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ بیعت
کے لیے قبیلوں کے سرداروں سے مذاکرہ کرتے ہیں اگر ان سرداروں نے بیعت قبول
کرلی تو داعش کے چند قابل اعتماد افراد ان کے پاس رہ جاتے ہیں اور قبیلے کی
راہنمائی کرتے ہیں اور شہر کے گورنر کو انہیں کے درمیان میں سے انتخاب کرتے
ہیں۔ لیکن اگر کسی سردار نے ان کی بیعت قبول نہیں کی تو وہ خفیہ آپریشنز کے
ذریعے اس پر دباؤ بناتے ہیں۔ اسی طرح گروہ داعش ایسے علاقوں کے فتح کرنے
کو ترجیح دیتا ہے جو قدرتی ذخائر سے مالامال ہوں کہ جن میں سب سے پہلی
ترجیح تیل کی دولت سے مالامال علاقے ہیں۔ یہ حربہ داعش کو مالی طور مضبوط
بنانے کے علاوہ اس کے حریفوں کو ناتواں بنانے میں کافی مدد دیتا ہے۔
گروہ داعش، القاعدہ سے کیوں الگ ہوا؟
جب داعش نے شام میں اپنے قدم جمائے تو اس نے النصرہ فرنٹ کے سامنے اپنا
محاذ بنایا اور کہا کہ النصرہ فرنٹ کے کمانڈرز خائن ہیں اور کئی بار انہوں
نے داعشی کمانڈرز کے ساتھ خیانت کی ہے۔ ان الزامات کے پیش نظر النصرہ نے
القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری سے شکایت کی، اور ظواہری نے بھی اس مشکل کو حل
کرنے کے لیے بغدادی اور النصرہ کے کمانڈر جولانی کو شرعی عدالت میں حاضر
ہونے کے لیے اپنے سامنے بلایا مگر بغدادی نے اس حکم کو نظرانداز کردیا اور
اپنی ایک آڈیو فائل الجزیرہ کو بھیج دی جس میں یہ پیغام تھا کہ ہم صرف اور
صرف بن لادن کو رہبر کے طور پر قبول کرتے ہیں ظواہری کے احکامات ہمارے لیے
اہمیت نہیں رکھتے۔ اس اتفاق کے بعد النصر کے اکثر غیرملکی مجاہدین داعش سے
ملحق ہوگئے۔
داعش کے اہم ترین عسکری ارکان
بعثی دور کے باقیات، صدام کے قریبی افراد، عراق و شام سے علیحدہ ہونے والے
فوجی، نیز یوروپ، چیچن، بوسنیا، مشرقی ترکسان، لیبیا، افغانستان اور اسی
طرح چند دیگر ممالک کے افراد جو بغدادی کی رہبری میں داعش سے وابستہ ہونے
کے لیے آمادہ ہیں۔
بغدادی نے کس طرح جنگ کا راستہ اپنایا؟
سن 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد بغدادی نے فلوجہ میں امریکی افواج
کے خلاف حملے میں شرکت کی اور وہاں صدام کے پرانے ساتھیوں اور عہدیداروں سے
آشنائی اور ملاقات ہوئی اور اس کے بعد مختلف گوریلا جنگوں کی رہبری کی۔ اسی
دوران وہ امریکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔
امریکی حکومت نے ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں دیا ہے کہ جیل میں انتہاپسند
افراد کے ساتھ بغدادی کے تعلقات کس نوعیت کے تھے اور وہ ان سے کس طرح متاثر
ہوا۔
داعش اس قدر طاقتور کیسے بنی؟
بغدادی کی ایک اہم سیاست یہ بھی تھی کہ اس نے جیل سے آزاد ہونے والے تمام
انتہاپسندوں کو اپنے حلقے میں شامل کرلیا۔ ان میں کچھ ایسے بھی افراد تھے
جو بم بنانے اور دھماکہ کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اس طرح بغدادی کی تنظیم
"الدولۃ الاسلامیہ فی العراق" امریکہ کے خلاف جنگ کرنے والی تنظیم میں
تبدیل ہوگئی اور دیگر ممالک سے سینکڑوں افراد اس تنظیم سے جڑ گئے۔
اس تنظیم کو شہرت کب ملی؟
سن 2011 میں ابوبکر بغدادی کا نام امریکہ کی بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا اور
ان افراد کے لیے دس ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا جن کی اطلاعات اسے گرفتار
کرنے میں مدد کرینگی۔ جب کہ ایمن الظواہری کو گرفتار کرنے کے لیے 25 ملین
ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا۔ شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ایک ماہ
کے اندر ہی سن 2011 میں الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق و الشام نامی تنظیم
تشکیل پائی۔ اس وقت تک یہ تنظیم، القاعدہ سے وابستہ تھی۔ اس تنظیم کے اکثر
افراد عراق سے شام منتقل ہوگئے اور انہوں نے النصرہ فرنٹ کے ساتھ مل کر
شانہ بہ شانہ بشار اسد کی فوج کا مقابلہ کرنا شروع کردیا۔ سن 2013 میں
ابوغریب جیل پر حملہ ہوا اور پانچ سو سے چھ سو تک القاعدہ کے پرانے اور
ماہر قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جو بعد میں داعش سے وابستہ
ہوگئے۔
داعش کا نفوذ کن علاقوں میں ہے؟
بغدادی ابتدا میں الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق کا رہبر تھا یعنی اس کا مقصد
صرف عراق میں حکومت کرنا تھا مگر جب شامی بحران شروع ہوا تو وہ اس ملک کی
طرف متوجہ ہوا اور اس نے اس تنظیم کے نام میں شام کا نام بھی بڑھا دیا اور
شام میں بھی جنگ اور خونریزی میں مشغول ہوگیا۔ البتہ بغدادی کا ارادہ اس سے
بھی زیادہ ہے اور وہ اپنی حکومت کے قلمرو میں لبنان، اردن، فلسطین اور
اسرائیل کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔
گروہ داعش کو شام کے علاقے رقہ، حسکہ اور دیرالزور اسی طرح عراق کے علاقے
موصل اور تکریت میں قدرت اور طاقت ملی ہے۔ اس تنظیم نے اسلامی حکومت قائم
کی اور وہ لوگوں سے مالیات بھی لیتے ہیں اور تیل کو بیچ کر اپنی مالی قدرت
کو بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت بغدادی کی مالی توانائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
کوئی بھی شخص، گروہ یا قبیلہ داعش کو نہ مانتا ہو تو بغدادی اسے دشمنوں کی
فہرست میں شامل کردیتا ہے۔ اس گروہ کے مجاہدین دیگر مذاہب کے افراد کو کافر
جانتے ہیں۔ داعش، اسیروں، اپنے دشمنوں اور خیانت کاروں کے لیے ایک عدالت
تشکیل دیتی ہے اور انہیں عبرتناک سزائے موت دیتی ہے۔ سزائے موت دیئے جانے
والے افراد میں عام شہری اور فوجی کافی تعداد میں نظر آتے ہیں اور معمولاً
اس سزا کو بہت ہی بےرحمانہ طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ حقیقت میں بغدادی کا
سب سے اہم اسلحہ لوگوں میں ڈر اور خوف کا پیدا کرنا ہے جسے وہ لوگوں کو
بےرحمی سے موت دے کے پیدا کرتا ہے۔
کیا داعش دہشتگرد عراق میں مستقل کارروائیاں انجادم دیتے ہیں یا دیگر
گروہوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں؟
داعش نے کچھ گروہوں اور تنظیموں کے ساتھ اتحاد کررکھا ہے، جیسے: منافقین
اور بعثی حکومت کے باقیات، نقشبندیہ کے عناصر جو سیکولر بعثی گروپ سے
وابستہ ہیں کہ جس کا سربراہ ابراہیم عزت الدوری ہے، 1920 انقلاب کی بٹالین،
جیش الاسلامی اور جیش المجاہدین جیسے اانتہاء پسند گروہ کے اراکین۔
شواہد یہ بتاتے ہیں کہ جن افراد نے موصل اور عراق کے دیگر شہروں پر حملہ
اور قبضہ کیا وہ کئی تنظیموں کے اتحاد کا نتیجہ ہے کونکہ موصل جیسے بڑے شہر
کا اتنی آسانی کے ساتھ قبضہ میں آجانا آسان کام نہیں ہے اور کسی ایک گروہ
کا کام نہیں ہوسکتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ خود داعش کا ماضی بھی اتنا
مضبوط نہیں رہا ہے کیونکہ فلوجہ میں چھ ماہ رہنے کے باوجود اسے یہ کامیابی
نہیں مل سکی تھی کہ وہ پوری طرح سے اس شہر کو قبضے میں لے سکے۔ عراقی فوج
فلوجہ میں سال گذشتہ دسمبر سے مسلسل مقابلہ کررہی ہے۔
عراق کی منحل شدہ فوج (ایسی فوج جو سقوط بغداد کے بعد 2003 میں منحل ہوگئی
تھی) کے افسران بھی اس اتحاد کے اہم ارکان میں سے ہیں۔ انہیں افسران کی وجہ
سے یکے بعد دیگرے عراقی شہروں کو قبضے میں لینا آسان ہوگیا کیونکہ یہ
باتجربہ افسران ہیں کہ جنہیں 1991 میں ایران و عراق کی آٹھ سالہ جنگ اور
2003 میں امریکہ کے کے عراق پر حملے کا تجربہ ہے۔ اس لیے وہ گوریلا جنگوں
میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔
موصل کسی ایک گروہ کے حملے کا نتیجہ نہیں بلکہ کئی مسلح گروہوں کے اتحاد کا
نتیجہ ہے، اس بات پر ایک دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ سقوط موصل و تکریت کے بعد
فرمانروا معین کئے گئے جب کہ داعش اپنی سیاسی اصطلاح میں گورنر کی جگہ لفظ
والی کا استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس مدعیٰ پر یہ بھی دلیل ہے کہ ان شہروں کے لیے جو فرمانروا
معین کئے گئے وہ حزب بعث سے تعلق رکھتے ہیں۔ البتہ یہ واضح ہے کہ سقوط شدہ
شہر کے لیے گورنر کا معین کرنا صرف ایک ظاہری اور صوری کام ہے مگر اس سے یہ
بات ظاہر ہوتی ہے کہ انقلابیوں کی عسکری کونسل موصل اور تکریت میں اپنی
طاقت بڑھانا چاہتی ہے۔ انقلابیوں کی عسکری کونسل جو حزب بعث کی ہی کونسل ہے
نے ہاشم جماس (جو حزب بعث کے اراکین اور صدام کے فوجیوں میں سے ہے) کو موصل
کا فرمانروا اور تکریت کا فرمانروا احمد عبد الرشید (صدام دور میں صلاح
الدین کے گورنر) کو معین کیا ہے۔
داعش کے ارکان شام میں اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئےمغربی ممالک بالخصوص
امریکہ کا عراق و شام میں سرگرم ان دہشتگرد گروہوں کی حمایت کا کیا مقصد
ہے؟
جب شام کے حالات تحریک مزاحمت کے مفاد میں ثابت ہوئے اور امریکہ، داعش اور
صہیونی حکومت، لبنان و شام میں اپنے ناپاک عزائم حاصل کرنے میں ناکام رہے
اور اسرائیل بھی اپنی داخلی سلامتی کو محفوظ بنانے میں ناتواں رہا تو انہوں
نے شام سے ملحق عراق کی سرحدوں کا رخ کیا۔ اس مثلث کی یہ نئی کارروائیاں
چند درج ذیل اہداف کے لیے انجام دی گئیں:
ا۔ تحریک مزاحمت کے تعلقات کے ذرائع منقطع کرنا؛ اس میں شک نہیں ہے کہ داعش
کے جغرافیائی علاقے دیرالزور سے لیکر شام کے شہر حسکہ اور عراق کے انبار،
نینوا اور صلاح الدین تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ علاقے شیعوں اور سنیوں کے
لیے اسٹریٹجک اور حیاتی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس علاقے پر داعش کا قبضہ شیعوں
کی نظر میں تحریک مزاحمت کے شام کے ساتھ تعلقات منقطع ہونے کے مترادف ہے۔
ان علاقوں پر قبضے کی منصوبہ بندی امریکہ اور اسرائل کے ذریعے انجام پائی
ہے، جب کہ امریکہ اور اسرائیل کو شام میں منھ کی کھانی پڑی۔
یہ تحلیل اس وقت زیادہ واضح محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے دیکھا کہ غیرملکی
طاقتوں نے کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ بناکر شام کو فوجی حملے کی
دھمکی دی، وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ وہ خود شامی فوج کا محاصرہ تورنے میں
ناکام رہے۔ اس آپریشن کی ناکامی کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے بہت شور
مچایا، جنگ قلمون میں بعض اسرائیلی عہدیداروں نے کہا تھا کہ ہم حزب اللہ کو
لبنان کے مشرقی پہاڑوں پر قابض نہیں ہونے دینگے۔ اسرائیل کے بعض فوجی تجزیہ
نگاروں نے اپنے حکام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یبرود کا زخم تازہ رہنا
چاہئے اس لیے مسلسل بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں کار بم دھماکے ہونے
چاہئے۔ جب کہ اس طرح کی کارروائیاں کرکے انہیں مسلسل ناکامی کا منھ دیکھنا
پڑا ہے۔
یہ واضح سی بات ہے کہ علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کا داعش کو مہرہ بنانا
تحریک مزاحمت کی نسبت ان کی بےچینی اور پریشانی کو ثابت کرتا ہے۔ ایرانی
صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی نظریہ کی مخالفت میں کہا تھا کہ مناسب وقت میں
دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم قدم اٹھائیں گے۔ ایرانیوں نے اس طرح کے
بیانات سے یہ واضح کردیا کہ وہ کسی بھی طرح عراق میں اپنی پالیسیوں کو
ناکام نہیں ہونے دینگے۔
امریکہ اور اسرائیل کی یہی سیاست عراق، سعودی عربیہ اور اردن کے سنیوں کی
نسبت بھی ہے۔ امریکہ اور صہیونی دہشتگرد ان ممالک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں،
بلکہ کبھی کبھی تو امریکہ کی بات نہ ماننے پرامریکہ انہیں سزائیں بھی دیتا
ہے۔
2۔ شام، افغانستان اور عراق میں امریکہ کی شکست پر پردہ ڈالنا؛ امریکہ
تحریک مزاحمت کے ذریعے ملنے والی شکست کا بدلہ لینا اور دوسری طرف سے اپنی
شکست خوردہ سلطنت کو بچانا چاہتا ہے۔ امریکہ صہیونی حکومت کی حمایت، داعش
کو عراق میں سرگرم کرنے کے لیے کرتا ہے۔
3۔ علاقے میں امریکہ کی عزت اور شبیہ کو بہتر بنانا، اور یہ کام دہشتگردی
کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے ہی ممکن ہے۔
4۔ علاقے میں ایران کے نفوذ کو کم کرنا، بالخصوص جوہری معاہدے کے بعد جو
اسی طرح ممکن ہے۔
5۔ شام میں تحریک مزاحمت کی کامیابی اور امریکہ کی رسوائی میں کمی اسی وقت
ممکن ہے کہ جب عراق اور شام میں دہشتگردی کو بڑھاوا دیا جائے۔
6۔ ایران کی سلامتی کو چیلنج کرنا اور اس ملک کو دہشتگردانہ چیلنجز کے
درمیان قرار دینا، ان کارروائیوں کا مقصد ہے۔ اسی لیے دہشتگردی کا بازار
افغانستان، پاکستان، شام اور عراق میں گرم رکھا جارہا ہے۔
7۔ لبنان کی حزب اللہ کو انہیں امور میں مشغول کرنا اور صہیونی حکومت کی
جانب توجہ سے روگرداں کرنا۔
8۔ روس میں خوف کا ماحول پیدا کرنا اور بالواسطہ یہ دھمکی دینا کہ روس کو
بھی داہشتگردانہ کارروائیوں سے جوجھنا پڑسکتا ہے۔
9۔ اقوام متحدہ کو دوبارہ زندہ کرنا کہ وہ پھر سے امریکہ کے حق میں فیصلہ
دے تا کہ امریکہ بین الاقوامی حالات کو بہانہ بناکر اپنے توسیع پسندانہ
اہداف حاصل کرسکے۔ جب کہ کچھ عرصے سے چین اور روس اس طرح کی توسیع پسندانہ
کارروائیوں کے خلاف ویٹو کرتے چلے آرہے ہیں، مگر امریکہ عالمی امن و سلامتی
کو بہانہ بناکر دوبارہ اس نظام کو فعال اور زندہ کرنا چاہتا ہے۔
عراق میں داعش کی کارروائیوں سے امریکہ کو جو منافع حاصل ہورہے ہیں اس کے
بارے میں باتیں کافی ہیں مگر جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ تحریک مزاحمت اور ان
کی پشت میں روس اور چین بھی اس تنظیم کو دندان شکن جواب دینگے۔ ایسی تنظیم
جو امریکہ کے لب مرگ جسم کو اضافی آکسیجن دے رہی ہے کہ تاکہ علاقے میں
امریکہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرسکے ور اس دہشتگرد تنظیم کے ذریعے اپنی
شبیہ دوبارہ بہتر بناسکے۔
|