سید امام۔بندر روڈ سے مسان روڈ تک

بعض شخصیا ت اس قدر متا ثر کن ہوتی ہیں کہ انسان ان کی شخصیت اور اثرات سے ہمیشہ متاثر رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلنداخلاق کی حامل شخصیت محسوس کرنے والے کو اپنے اثرات کی گرفت میں اس طرح محبوُس کر لیتی ہے کہ وہ اس کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے۔میری زندگی میں ایک ایسی ہی شخصیت سید امام مرحوم کی تھی۔ آپ ایک ملن سار،با اخلاق و با کردار،، حق گو ،برد بار، وضع دار، عجزو انکساری کا پیکر، مُتَدبرِو مُتَدیِن، مُتشرِع و مُتشکرِانسان تھے۔ میری رائے میں وہ وحشتؔ کلکتوی کے اس شعر کا نمونہ تھے ؂
وحشتؔکروں غرور تو کس بات پر کروں
پاتا ہوں میں تو اپنے سے بہتر ہر ایک کو

خوش اخلاقی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس سے آپ کا کوئی تعلق ہو یا جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہو اس کے ساتھ خوش اخلاقی برتنا۔ دوسرے یہ کہ خوش اخلاقی کو اپنی عادت بنا لینا اور ہر ایک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ خوش اخلاقی کی پہلی قسم سے بھی آدمی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ملتا ہے مگر خوش اخلاقی کی دوسری قسم کے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ میٹھی زبان ، اچھا سلوک اس وقت بھی جب بہ ظاہر اس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو تب بھی مفید ہے لیکن اگر وہ آدمی کا عام اخلاق بن جائے تو اس کے فائدوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ سید امام ان ہی آدمیوں میں سے تھے کہ جن کا اچھا اخلاق ان کی عام عادت بن چکا تھا وہ اپنے سے بڑوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چھوٹوں کے ساتھ بھی ملنساری اورشفقت سے پیش آیا کرتے تھے ، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؂
خدا تو ملتا ہے ، انسان ہی نہیں ملتا
یہ چیز وہ ہے جو دیکھی کہیں کہیں میں نے

گہرا سانولا رنگ،کتابی چہرہ، بڑی آنکھیں، کشادہ پیشانی، لانبا قد، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،آنکھوں پر گہرا سا چشمہ لگا ہوا۔ابتدا میں کلین شیو بعد میں مختصر سی داڑھی رکھ لی تھی، کالے رنگ پر سفید بال حسین امتزاج تھاپھر سر کے بالوں اور داڑھی پر مہندی لگا کر سرخ کر نے لگے تھے ۔ سنجیدہ طرز گفتگو،معلومات کا وسیع خزانہ، ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے میں ماہر، سیاست سے گفتگو کی حد تک گہری دلچسپی، میں نے انہیں ایک مثالی انسان پایا۔شادی ہوئی رخصتی کے وقت دلھن تو روتی ہی ہے(اُس زمانے میں ایسا ہی تھا اب قدریں بدلتی جارہی ہیں، بیوٹی پارلر سے ہزاروں روپوں میں کرائے گئے میک اپ کی خاطر دلھن کو تلقین کی جاتی ہے کہ خبر دار رخصتی کے وقت اگر ایک بھی آنسونکالا) لیکن امام صاحب کی آنکھوں میں آنسو نمایا ں تھے، دولھا بنے ہوئے رخصتی کے وقت تمام لوگوں کو صبر کی تلقین کررہے تھے، شادی کے بعد عید آئی سسر نے کچھ رقم عیدی کے طور پر دی آپ نے عید کے حوالے سے مختصر باتیں کیں اور کہا کہ میری خوشی اس میں ہے کہ میں عیدی کے طور پر صرف ایک روپیہ لوں، چنانچہ آپ نے تمام رقم واپس کر دی اور صرف ایک روپیہ عیدی کے طور پر لے لیا۔یہ وہ باتیں ہیں جو امام صاحب کو دیگر لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ان کا اخلاق و کردار مشعل راہ ہے اور باعث تقلید بھی۔

رہن سہن انتہائی سادہ ، بندر روڈ پرریڈیو پاکستان کے پیچھے ایک پرانی بلڈنگ کی ددوسری منزل پر ایک کمرے کے فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔شادی مسان روڈ کی ایک بستی میں رہنے والے خاندان میں ہوئی ان کے ہمرہ ان کی ضعیف والدہ اور ایک بہن بھی تھیں ، شادی کے بعد اپنے فلیٹ کے اوپر ایک چھو ٹا سا کمرہ تعمیر کرا لیا تھا ۔گھر کا ماحول انتہائی مذہبی تھا، ماں، بہن اور بیٹے صوم و صلواۃ کے سخت پابند، ہر وقت فرش پر جائے نمازبچھی ملتی تھی، نماز کے علاوہ کلام مجید کی تلاوت اور تسبیحات پڑھانا آپ کا معمول تھا ۔ میں ان دنوں برنس روڈ پر واقع ایس ایم کالج کا طالب علم تھا ،کبھی کبھار کالج سے واپسی پر امام صاحب کے گھر چلاجایا کرتا، امام صاحب بہت ہی محبت اور پیار سے ملتے، ان کی والدہ اور بہن بھی بہت نیک اور پر خلوص تھیں۔ امام صاحب کی شادی میرے والد صاحب کی پھو پھی زاد بہن سے ہوئی تھی شادی سے قبل وہ اور ہم نزدیک ہی رہا کرتے تھے، آپس میں قرابت اور محبت مثالی تھی جو بعد میں دوری میں بدل گئی ۔ان کی چھوٹی بہن ’’حمیرہ صمدانی ‘‘ میرے حقیقی عم جناب مغیث صمدانی کی شریک حیات تھیں ۔محترمہ عمہ حمیرہ صمدانی مرحومہ نیک، با اخلاق، ملن سار، محبت کرنے والی خاتون تھیں، دنیا سے بہت جلد چلی گئیں، نیک لوگ دنیا سے جلد ہی چلے جاتے ہیں، ان کے انتقال کی خبر مجھے اسلام آباد میں وکیل صمدانی صاحب کے گھر ملی تدفین میں شرکت نہ کر سکاجس کا مجھے ہر دم ملال رہتا ہے۔

سید صاحب کی شادی کا ایک واقعہ یہاں قلم بند کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، اس واقعہ سے یقین اور ایمان کی پختگی کا احساس نمایاں ہو تا ہے ۔ ان کی شادی کی تاریخ تو یاد نہیں البتہ اسقدر یاد ہے کہ اس دن قیامت کی بارش ہوئی گلیوں میں اسقدر پانی جمع ہوگیا کہ گھروں تک میں داخل ہوگیا، بارات کا وقت قریب آگیاجو اسی موسلا دھار بارش میں آئی ، اس زمانے میں شادی ھال کا فیشن نہیں تھا، گھروں کے سامنے شامیانے لگا کرتے تھے، بارش نے ان شامیانوں کو کملا کے رکھ دیا تھا ،ہر ایک پریشانی کے عالم میں تھا ، سب کے اوسان خطا تھے ،بارات کالی پیلی ٹیکسیوں میں آئی ، کم ہی لوگ ہوں گے، جس ٹیکسی میں دولھا تھا اسی ٹیکسی میں بری کا سامان اور زیورات بھی تھے ، بارش نے سب کو مخبوط الحواس کر کے رکھ دیا تھا، باراتیوں کے حواس بھی باختہ تھے جس کے باعث وہ ٹیکسی سے بری کا سامان نکالنا بھول گئے اور ٹیکسی والا معمول کے مطابق چلا گیا، اﷲ کی رحمت جاری و ساری تھی، نکاح کا وقت قریب آیا تو باراتیوں کو سامان کی سوجھی، ایک دوسرے سے معلو م کیا جاتا رہا ، ہر ایک نے یہی کہا کہ ہم نے تو نہیں نکالا، اب سارا کھیل دھرا کا دھرا رہ گیا، لوگ ہکا بکا رہ گئے ، یہ بات عام ہوئی کہ بری کا تمام تر سامان ٹیکسی سے نکالا ہی نہیں گیا، اب کیا ہو سکتا تھا، ٹیکسی کا نمبر نوٹ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارے ہاں اس قسم کی باتوں کا رواج ہے ، تمام لوگ شدید بارش اور طوفان سے تو پریشان تھے ہی اس ناگہا نی نے رہی سہی کسر پوری کردی، سید صاحب دولھا نبے ہوئے بھی مطمئن نظر آرہے تھے، انہیں ا ﷲ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور یقین تھا ، انہیں دوسروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ’ اﷲ بہتر کرے گا انشاء اﷲ سامان مل جائے گا‘،یقینا ان کے دل و دماغ میں اس وقت قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم رہا ہو گا جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے مایوسی کفر ہے ‘‘ گو مہ گو ں کی کیفیت جاری تھی ، فیصلہ ہوا کہ نکاح کی رسم شروع کردی جائے، قاضی نے رسم نکاح شروع کی،سید صاحب ایجاب و قبول کے جملے ادا کررہے تھے دوسری جانب اﷲ تعالیٰ نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو نیک ہدایت سے نوازا ، اس نے جوں ہی وہ سامان اپنی ٹیکسی میں دیکھا موسلا دھار بارش میں الٹے پاؤں سامان واپس کرنے پہنچ گیا افسر دہ چہروں اور بھیگے بدن کے ساتھ نکاح میں شریک لو گوں کے ہاتھ دعا کے لیے دراز تھے،بظاہر یہ دعا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے نو بیاہتا جوڑے کے لیے تھی لیکن سید صاحب کے دل میں کچھ اور ہی تھا جسے پرور دگار نے قبول فرمایا ، دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کومنہ پر پھیرنے سے قبل وہ تمام سامان لوگوں کی نظروں کے سامنے تھا۔ یقین پختہ ہوگیا کہ دنیا میں نیک لوگ موجود ہیں، ٹیکسی ڈرائیور جو مالی طور پر یقیناً کمزور ہوگا شیطان کے دھوکے میں نہ آسکا ، اس پر نیکی غالب آگئی، نیک صفت انسان کو کس کس نے دعا نہیں دی ہوگی۔ ٹیکسی ڈرائیور اپنے نیک عمل سے بہت کچھ کر گیا جسے ہم آج بھی اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔

سید صاحب عالم تو نہ تھے البتہ عامل ضرور تھے ۔ جادو ٹونا، عملیات ، سفلی عمل ،اثرات کا اتار بھی کیا کرتے تھے لیکن یہ عام نہیں تھا ،جاننے والے اگر ایسی مشکل میں آجاتے تو امام صاحب سے ہی رجوع کیا جاتا۔ جِنّاَت کی موجودگی سے ا نکار نہیں کیا جا سکتا۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی اور ان سے پہلے جنات کو آگ سے پیدا کیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے تر جمہ ’’ اسی نے انسان کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہے پیدا کیا اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔‘‘(سورۃ الرحمن: آیت ۱۴۔۱۵)۔ اسی سورۃ میں اﷲ تعالیٰ نے انسان و جن کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے تر جمہ’’سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے‘‘ (سورہ رحمٰن، آیت نمبر ۱۳) ۔جنات اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی، ایسی مثالیں عام ملتی ہیں یہ اس زمانے کاذکر ہے کہ ہماری رہائش لیاری کے علاقے آگرہ تاج کالونی میں تھی ، اسے مسان روڈ بھی کہا جاتا ہے، یہ رہائشی بستی جس قطعہ زمین پرمشتمل ہے یہاں قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کی رہائش کے ساتھ ساتھ مسان گھاٹ بھی تھا، اس بستی میں قائم غازی محمد بن قاسم اسکول جس میں راقم نے پہلی تا ششم تک تعلیم بھی حاصل کی ہندوؤں کی رہائش گا ہ تھی ۔تاج جامعہ مسجد کے پاس ہندوؤں کا مسان گھاٹ بھی تھا جہاں پر ہندو اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعدکچھ عرصہ تک جاری رہا، مسلمانوں کی اکثریت جب اس علاقے میں آباد ہو گئی تو ہندو یہاں سے منتقل ہو گئے۔ اس بستی کے قیام کے ابتدائی دنوں میں اکثر زمین کی کھدائی کے دوران انسانی اعضاء نکلا کرتے تھے۔ یہاں ایک عامل ’’پانی والا بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔میں اپنے دوستوں سبطین، ظفر، سعید، احمد،شکیل(پیارے) کے ہمرہ اکثر اس عامل کے گھر جو غوثیہ روڈ پر واقع تھااور ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا چلے جاتے ،اس وقت مقصد تماشہ دیکھنا ہوتا تھا۔ اس عامل کے پاس مرد، عورت اور بچے ایسے آتے جن کے بارے میں یہ یقین ہوتا کہ ان پر جن یا بھوت کا اثر ہے، یہ عامل تمام لوگوں کی موجودگی میں ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھتا تھا ساتھ ہی مخصوص الفاظ بھی ادا کیا کرتا تھا ، اس کے اس پڑھنے کے بعد جن یا بھوت کے اثر کا حامل مریض ہاتھ پیر مارنے لگتا اس کے قریب کے لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کیا کرتے ، اس کے بعد عامل اس مریض سے پوچھتا کہ کہ بتا کہ تو کون ہے جن یا بھوت؟ وہ اسے جواب دیتا کہ وہ کون ہے، یہ پوچھتاکہ تو نے اسے کب، کہاں اور کیوں پکڑا، جواب میں مریض کہتا کہ فلاں درخت کے نیچے ، سنسان جگہ ، قبرستان وغیرہ وغیرہ سے، وہ ان کی تعداد بھی معلوم کیا کرتا کہ وہ تعداد میں کتنے ہیں جواب میں وہ کبھی کہتا کہ ایک ہی ہوں ، کھبی اپنے خاندان کے بارے میں بتا یا کرتا۔ اس کے بعد عامل اس کو جانے کے لیے کہتا اگر جن کمزور ہوتا تو چلا جاتا ، کبھی عامل اسے بوتل میں بند کردیا کرتا اور کبھی لوبان کی دھونی کے ذریعہ جلا دیا کرتا۔ ہم نے یہ صورت حال کئی برس دیکھی، یہ عامل ذات کا کچھی یا تُرک تھا۔اس طرح راقم کوجِنّاَت کو سننے،انسانی روپ میں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا تجربہ رہا۔

میں نے اپنے گھر میں اپنی امی کی زبانی یہ بات کئی بار سنی ہوئی تھی کہ وہ جب چھو ٹی سی تھیں ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا تو اکثر ایک سانپ ان سے کھیلا کرتا تھا، وہ ان کے گلے میں کبھی ایک جانب کبھی دوسری جانب گھومتا رہتا اور وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے پکڑتی اور کھیلا کرتی تھیں ، جب کوئی ان کے پاس آجاتا تو وہ غائب ہو جاتا، ان کے والدین نے کسی عامل کے ذریعے اس سانپ کو جو دراصل ’جن ‘تھا چلتا کیا۔ہم بہن بھائی اکثر اپنی امی کو اس واقعہ کی یاد دلا کر مذاق کیا کرتے تھے۔ جن کے انسان پر وارد ہونے کا ایک واقعہ ہمارے خاندان میں یہ بھی مشہور تھا کہ امام صاحب کے سسر محترم حنیف احمد مرحوم جو میرے والد کے حقیقی پھو پھا تھے ہندوستان میں ایک مر تبہ ان پر ایک جن آگیا بتا نے والوں نے بتا یا کہ جس وقت وہ ان پر یا ان میں موجود ہوتا تو وہ انگریزی میں گفتگو کیا کرتے تھے، گو یا جن انگریز تھا یا اس کی زبان انگریزی ہوگی ۔ و اﷲ عالم با لثواب،والد صاحب مرحوم (انیس احمد صمدانی) نے بتا یا تھاکہ ان کے والد یعنی میرے حقیقی دادا (حقیق احمد مرحوم) بھی عامل تھے اورجِنّاَت وغیرہ کے اثرات کا توڑ کیا کرتے تھے ۔جناب حنیف احمدمرحوم پر جو جن وارد ہوا اس کو انہوں نے ہی اپنے عمل کے ذریعہ دور کیا۔میں بچپن ہی سے جِنّاَت وغیرہ کے بارے میں سنتا چلاآرہا تھا۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں امریکہ کے صدر آئیزن آور پاکستان تشریف لائے انہوں نے پی اے ایف بیس مسرور (اس وقت اس کا نام بیس ماری پور تھا) پر اتر نا تھا ماری پور روڈ کے کنارے جو کچی بستیاں تھیں جن میں آگرہ تاج کا لونی، انجام کالونی، کچھی کالونی وغیرہ انہیں حکومت نے منتقل کرنے کا منصوبہ بنا یا تا کہ امریکی صدر کو پاکستان کے غریب لوگوں کی غریب بستیاں دیکھنے کو نہ ملیں، لیاری ندی سے موجودہ وزیر مینشن تک ماری روڈ کے کنارے آباد ان بستیوں کو منتقل کر کے ملیر کے علاقے کھوکھرا پار کالونی میں آباد کر دیا گیا ۔ ان بستیوں کو راتوں رات مسمار کیا گیا ، پھربھی کچھ گھر کھنڈرات کی صورت میں باقی رہ گئے۔ آئیزن آور ماری پور ائیر پورٹ پراترے اور ماری پور روڈ سے گزرے ، انہوں نے اسی سڑک پر بشیر احمد ساربان کو اپنی اونٹ گاڑی لیے دیکھا ،وہ اس پر عاشق ہوئے اور اپنے ہمراہ امریکہ لے گئے ۔اس قصہ کی کہانی اخبارات کی زینت بھی بنی۔ ہمارا گھر محفوظ رہا لیکن اب اس کے سامنے دور تک ٹوٹے پھوٹے مکان، مٹی کے ڈھیر اور کھنڈرات تھے، رات کے وقت خاص طور پر خوف ناک منظر ہو تا، ایک شب میں تنہا اپنے گھر کی جانب آرہا تھا گُھپ اندھیرا تھا، ٹوٹے پھوٹے گھراور کھنڈرات خوف ناک منظر پیش کررہے تھے ابھی میں اپنے گھر سے چند قدم پر ہی تھا کہ دو سے تین فٹ اونچا انسان نما ، دیکھنے میں بونے قد کا انسان لگ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے میرے سامنے آگیا لیکن چند قدم دور آکر رک گیا ،اب میں اور وہ آمنے سامنے تھے وہ تو اطمینان سے تھا لیکن میرے اوسان خطا ہو چکے تھے، بدن کپ کپا رہا تھا، ، قدم وہیں رک گئے، واپسی کی صور ت میں یہ خوف لاحق تھا کہ اگر میں نے واپسی کی اور اس کی جانب سے پیٹ ہوگئی تو یہ مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے ، اس وقت میرے آس پاس کوئی دوسرا نہیں تھا، میں ابھی فیصلہ کرنے ہی والا تھا کہ اس نے اپنا رخ میری جانب سے واپس موڑ ا اور تیزی کے ساتھ چلتے چلتے غائب ہو گیا۔ میں بمشکل تمام گھر پہنچا ، تیز بخار اور سردی جو در اصل خوف تھا ، بعض لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ جن تھا جو انسانی روپ میں اس جگہ اکثر نظر آتا ہے۔

۱۹۷۰ ء کی بات ہے میری امی کو بخار آگیا، معمولی سی بات تھی، علاج ہوا اتر گیا لیکن کھانسی نہ گئی، ایسا بھی اکثر ہوتا ہے، کھانسی کی دوا استعمال کرتی ر ہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو تا رہا یہاں تک کہ آواز سے یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے کوئی مرد کھانس رہا ہے ، سب کو تشویش ہوئی، امام صاحب کی شادی میرے والد صاحب مرحوم کی پھو پھی زاد بہن کفیلہ (بائی) سے ہو چکی تھی، ان کی سسرال کا راستہ ہمارے گھر سے ہو کر جاتا تھا چنانچہ امام صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ زیادہ تر رات کو اپنے گھر واپس جاتے ہوئے ضرور آیا کرتے اور بہت بہت دیر بلکہ رات گئے تک باتیں کرتے رہتے، ہر موضوع پر تفصیل سے گفتگو کیا کرتے، ان کی گفتگو اس قدر شیریں اور پر اثر ہوا کرتی تھی کہ ہم سب ان کے ساتھ خوشی سے بیٹھے رہتے۔جب انہیں امی کی اس کیفیت کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں کل آپ کو اس کے بارے میں بتاؤں گا ، اگلے ہی دن وہ آئے اور کچھ تعویذ ، پڑھاہوا پانی اور ساتھ ہی ہمیں پڑھنے کے لیے کچھ بتا یا، انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ ان پر (ہماری امی پر) کسی مرد جن کا اثر ہے ، ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ کچھ نہیں کرے گا ، اسے جانے میں کچھ وقت لگے گا ۔ سارے بہن بھائی چھوٹے تھے ، خوف زدہ ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا، ان کی کھانسی اسی طرح جاری رہی ، کھانستے وقت مرد کی آواز نمایاں ہوا کرتی لیکن کوئی اور بات کبھی نہیں ہوئی۔ امام صاحب کا عمل جاری رہا انہوں نے نے بتا یا کہ وہ رات میں پڑھائی بھی کرتے ہیں۔چند روز گزرنے کے بعد ایک دن امی پر کھانسی کا شدیددورہ پڑا لیکن اس دورے کے باوجود ان میں وہ نقاہت یا کمزوری دیکھنے میں نہیں آئی۔ بیٹھے بیٹھے کھانس رہی تھیں البتہ اس دن انہوں نے مرد کی آواز میں بولنا شروع کیاچند جملے ہی ذہن میں ہیں ، مرد کی آواز میں کہاکہ ’’میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا‘‘،’’ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘، ’’تم لوگ مت ڈرو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ وغیر وغیرہ، میں امی کے پاس ہی تھا ، میری کسی بہن سے چائے کے لیے کہا کہ میں چائے پیوں گا، چائے بنادی گئی، تھوڑی سے چائے پی ، آدھا کپ چائے باقی تھی، مجھے مخاطب کیا ، کہنے لگیں !تو میرا بیٹا ہے ، میں نے کہا کہ ہاں ہوں، گویا ہوئیں! میرا ایک کام کرے گا میں نے کہا کرونگا ، پھر کہا کہ یہ کپ میں جو چائے ہے اسے دروازے کے باہرپھینکدے، بظاہر یہ عام سی بات تھی ، لیکن اس وقت کچھ عجیب سا ڈر اور خوف کی کیفیت طاری تھی، میں نے کہا کہ اسے میز پر رکھ دیں ،پھینکنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن مصر ہوئیں کہ میں اسے باہرپھینک دوں ، میں ان کے اصرار پر سمجھ گیا کہ بات کچھ اور ہے، میں نے ڈرتے ڈرتے انکار کردیا ، کھانسی کے دورے میں بے انتہا اضافہ ہوا حتیٰ کہ رفتہ رفتہ کھانسی بند ہوگئی اور ان کی اس کیفیت میں بھی تبدیلی آگئی یعنی وہ اپنی آواز میں باتیں کرنے لگیں، رات میں امام صاحب آئے تو انہیں اس کیفیت سے آگاہ کیا گیا انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ چائے باہر دروازے پر نہیں پھینکی، ایسا کرنے کی صورت میں’جن‘ ان کے اوپر سے تو چلا جاتا لیکن باہر دروازے پر اپنا بسیرا جما لیتا۔اس طرح امام صاحب نے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلائی۔

اکثر لو گ جِنّاَت کے ہاتھوں مشکل میں گرفتار ہونے والوں پر یقین نہیں کرتے اور انہیں نفسیاتی مریض سمجھتے ہیں۔ میرے کالج کے ایک پروفیسر ساتھی آجکل اسی پریشانی سے دوچار ہیں، خود میں جس گھر میں کوئی ۱۴ برس (۱۹۸۵ء ۔۱۹۹۹ء) رہائش پذیر رہا ، میرے منتقل ہوجانے کے بعد وہاں کے رہائشی اسی پریشانی سے دوچارہوئے۔ چند سال پہلے کی بات ہے میں نارتھ کراچی سے گلشن اقبال منتقل ہو اہی تھا میرے ایک دوست جو ایک مقا می کالج کے پروفیسر ہیں کی بیوی (وہ بھی پروفیسر ہے ) اس مشکل سے دو چار ہوئی۔ میرا دوست سخت پریشانی میں تھا، ہر طرح کا علاج کرایا، حتیٰ کہ نفسیاتی معالج کا علاج بھی ہوا لیکن تمام علاج بے سود ثابت ہوئے۔خاتون کی بعض حرکات جن کا ذکر میرا دوست کیا کرتا ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ معاملہ جِنّاَت کے اثر وغیرہ کا ہے۔ بہت عرصہ بعد اسے کسی عامل کے بارے میں معلوم ہوا ،سردیوں کا زمانہ تھا میرے دوست نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں مجھے کسی نے ایک عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی میں رہتا ہے اس کے پاس بیگم کو لے جانا ہے اچھا ہے ایک سے دوہوں گے ، نہ معلوم کیا صورت ہو، میں تیار ہو گیا، اس کی طبیعت واقعی خراب تھی ، میں اس کے ساتھ ہو لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد نماز مغرب وہاں پہنچ گئے۔کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے ان کو فارغ کر نے کے بعد اس عامل نے میر ے دوست کی بیوی کو سامنے بٹھایا ، اس کے برابر میرا دوست بیٹھا تھا اور اس کے برابرمیں تھا ، عامل نے تفصیل معلوم کی اور عمل شروع کردیا، خاتون کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا ،بڑی بڑی آنکھیں باہر کی جانب، ہم سب کوگھور گھو ر کر دیکھنے لگی، عامل نے یہ محسوس کیا کہ جن آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے کہا ، کمرے کی لائٹ مدھم کردیں ، عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے لگا ، اتنے میں کوئلے دھک گئے، عامل نے دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن میں ڈالکر اس عورت کی ناک کے نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک ماری تھی کوئلوں پر ڈالدیا، مرچوں کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن وہ عورت جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ، اس عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی ، کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا ، عامل اس سے مخاطب ہوا ، پوچھا کہ ’بتا تو کون ہے‘؟ مردانہ آواز میں جواب دیا کہ’ میں جن ہوں‘، دیگر سوال کیے کہ تو اس عورت کو چھوڑدے ، کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے میں نہیں جاؤنگا وغیرہ وغیرہ ،عامل نے یہ عمل دہرایا ، مرچوں کی دھونی نے اس کمرے میں بیٹھے تمام لوگوں کا برا حال کر دیا تھالیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار عامل نے ’جن‘ کو جانے پر مجبور کر دیا ، اس نے جانے کا وعدہ تو کرلیا لیکن فوری طور پر نہیں گیا ، ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا، میرا دوست پہلے ہی بیمار تھا اس صورت حال کے بعد اسے سردی اور بخار ہوگیا، ڈیفنس سے گلشن اقبال تک کا سفر خاصا طویل تھا، میرے دوست کے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا ، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو میں آگے بیٹھونگا‘‘،میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو میرے ہوش گم ہو گئے میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ یعنی ’جن ‘ اس عورت میں موجودہے، اب کیا ہوسکتا تھا، میرا دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی کوئی۱۲ سال کی بیٹی بھی اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر تھی،میرا دوست بھی صورت حال محسوس کررہا تھا، لیکن اس نے اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ گاڑی چلا سکتا، اﷲ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے، وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی تھی، گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، میں گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے، اسی لمحے میرے دوست نے اپنی بیوی کی خیرت پوچھی، شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے ، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رہے‘‘ ، اس کے بعدوہ میری جانب مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں نے اپنے دوست سے کچھ کہا ، اس کے جواب میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر برس پڑی، بولی ،’’ خاموش نہیں رہے گا، ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘، اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کردیے،میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے چلتی گا ڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو گا، میرے بدن کا ایک ایک رُواں کھڑا تھا، بدن کپ کپانے لگا، وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش ہوگئی، میں بدستور گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ تمام مسلسل پڑھتا رہا اور دعا کر تا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آجائے، جب ہم شہید ملت روڈ کے پل پر پہنچے تووہ پھر مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ پان کھلااورسگریٹ پلا‘‘، میں نے جواب دیا کہ میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا اپنے میاں سے کہووہ کھلائے گا، اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’سگریٹ کی دکان پر گاڑی روک ، سنا نہیں تونے، میں نے کہا کہ اچھا دکان آجائے تو روکتا ہوں لیکن میں نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش ہورہی، گھر آگیا ، خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور اپنے گھر کی راہ لی۔میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی تو اسے ان تمام باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس قدرخوف میں مبتلا کیا، اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہوگئی۔امام صاحب کی طرح کتنے ہی لوگ انسانوں کومشکل سے نجات دلانے میں مصروف ہیں۔اﷲ تعالیٰ انہیں اس نیک کام کی یقینا جزا دے گا۔یہ میری زندگی کا نہ بھو لنے والا واقعہ ہے،جب کبھی مجھے اس کا خیال آجاتا ہے’ جن‘ سے ہو نے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جِنّاَت پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ۔یقینا اﷲ کی یہ مخلوق موجود ہے ۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی ۔کلام مجید کی سُور ۂ جن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ تر جمہ ’’اور ہم میں سے (پہلے سے بھی) بعض نیک (ہوتے آئے ہیں) اوربعض اور طرح کے (ہوتے آئے ہیں‘‘۔( آیت نمبر ۱۱ )،اسی سُو رۂ میں کہا گیا کہ ’’ آپ ان لوگوں سے کہیے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہے کہ جِنّاَت میں سے ایک جماعت نے قرآن سناپھر (اپنی قوم میں واپس جاکر انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست بتلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے اوراب اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے‘‘۔(سُورۂ جن ، آیت نمبر ۱۔۲ )۔امام صاحب اب ہم میں نہیں اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفر دوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو۔میں ان کی شخصیت سے متا ثر تھا ، ان کے اچھے اخلاق اورحُسنِ تعلق نے مجھے ان کی شخصیت پر قلم اٹھا نے پر مجبور کیا۔ ( ۳۰ دسمبر ۲۰۰۶ء)۔ مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل )
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438071 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More