’’انقلاب‘‘ سے انٹرویو
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
ویسے تو قوم نے اور بھی بہت سے
راگ پاٹھ سُنے ہیں تاہم ایک راگ ایسا ہے جسے سُن سُن کر کان پک گئے ہیں مگر
کمال یہ ہے کہ جب بھی یہ راگ شروع ہوتا ہے، لوگ متوجہ ہوجاتے ہیں کہ شاید
اِس بار کوئی ڈھنگ کی تان سُنائی دے جائے، کوئی خوش کن سرگم لگ جائے۔ مگر
اے وائے ناکامی کہ قوم کی اُمیدوں پر پانی پِھر کر رہتا ہے۔ ہم انقلاب کے
راگ کی بات کر رہے ہیں۔ جسے چار چھ افراد کی حمایت حاصل ہوجائے وہ پہلی
فُرصت میں یعنی موقع دیکھتے ہی انقلاب لانے پر تُل جاتا ہے۔
ہم نے سوچا کیوں نہ انقلاب سے معلوم کیا جائے کہ اُس پر کیا بیت رہی ہے اور
وہ آنے کے موڈ میں ہے بھی یا نہیں۔ انقلاب تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ اُس نے
گوشہ نشینی کے نام پر روپوشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ ہماری اور آپ کی خوش
نصیبی ہے کہ انقلاب نے اپنی غیر معمولی مصروفیت (یعنی روپوشی و گوشہ نشینی!)
کو کچھ دیر کے لیے بالائے طاق رکھتے ہوئے چند باتیں کرنے پر رضامندی ظاہر
کی تاکہ اُس کے خیالات اُن لوگوں تک پہنچیں جن کے لیے اُسے لانے کا بیڑا
اُٹھایا جاتا رہا ہے۔
٭٭٭
٭ سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں؟
انقلاب : مزاج برہم ہے۔
٭ کیوں؟
انقلاب : کیوں نہ ہو؟ ایک زمانے سے میں برپا ہونے کو بے تاب ہوں مگر اِس
منزل تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ پہنچوں کیسے؟ جو بھی سیاست میں قدم رکھتا ہے،
مجھے برپا کرنے کی بات کرتا ہے۔ اور پھر خود ہی ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ
میں برپا نہ ہو پاؤں یا پھر اُس کی مرضی سے برپا ہو رہوں۔ پریس کانفرنس کے
نام پر چند حاشیہ بردار صحافیوں کو جمع کرکے انقلاب لانے کا مُژدۂ جاں فزا
سُنا دیا جاتا ہے۔ انقلاب نہ ہوا، موسمی پھل ہوا کہ آئے گا اور سب کھائیں
گے۔
٭ آپ نے گوشہ نشینی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟
انقلاب : گوشہ نشینی کا تو بہانہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ میرے نام پر ایسی ایسی
باتیں کی جارہی ہیں کہ میرے پاس اب مُنہ چُھپانے کے سِوا چارہ نہیں رہا۔ جو
بھی سیاسی اکھاڑے میں اُترتا ہے وہ مجھے برپا کرنے سے کم کی بات نہیں کرتا۔
ایک ضِد سی ہے کہ
نام لے لے کے تِرا ہم تو جیے جائیں گے
لوگ یونہی ’’تجھے‘‘ بدنام کیے جائیں گے!
میرا نام لے لے کر پاکستانی قوم کو اِتنے سبز باغ دکھائے گئے ہیں کہ اگر وہ
تمام باغ ایک جگہ جمع کردیئے جائیں تو ایسی ہریالی ہو کہ چاند سے بھی
دیکھیں تو چین کی عظیم دیوار دکھائی دے نہ دے، ہریالی ضرور دکھائی دے!
٭ بہت سے لوگ ہیں جو آپ کو لانا چاہتے ہیں۔ مگر آپ اب تک نہیں آ پائے۔ اب
تک یہ پتا نہیں چلا کہ وہ آپ کو لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے یا آپ آنا ہی
نہیں چاہتے۔
انقلاب : میں تو آنے کے لیے تیار ہوں مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ بلا جواز اور
بلا ضرورت ہی چلا آؤں۔ کچھ حالات بھی تو ہوں۔ بے بُلائے مہمان کی طرح جانا
مجھے قبول نہیں۔ مجھے ’’بے فضول‘‘ میں ’’بیزتی‘‘ خراب کرنے کا کوئی شوق
نہیں۔ خواہش تو میری یہ ہے کہ میرے راستے میں بہترین قسم کے سُرخ قالین
بچھائے جائیں مگر مجھے برپا کرنے والوں کے پاس تو میری راہ میں بچھانے کے
لیے دری بھی نہیں۔ ایسے میں بھلا میں کیسے آسکتا ہوں؟ میں کوئی ایرا غیرا،
نتھو خیرا تو ہوں نہیں کہ یونہی چلا آؤں؟ میرے لیے بھی بینڈ باجے کا انتظام
کیا جائے، مجھ پر نچھاور کرنے کے لیے پُھول یا پُھول کی پتیاں ہونی چاہئیں۔
یہ کیا کہ سُوکھا سُوکھا چلا آؤں؟ ’’میں صدقے، میں واری‘‘ کی صدائیں سُننے
کے لیے تو میں بھی بے تاب ہوں۔ مزاجاً میں بھی اب پاکستانی ہوتا جارہا ہوں۔
اگر میں کبھی کسی نہ کسی طرح برپا ہوگیا تو دُنیا دیکھے گی کہ پاکستانیت کے
رنگ میں رنگنے پر انقلاب کا کیا رنگ ہو جاتا ہے!
٭ آپ کو لانے کی بھرپور تیاری تو کی جارہی ہے مگر یہ بتائیے کہ اِس قوم میں
آپ کو برداشت کرنے کا تَپّڑ بھی ہے یا نہیں؟ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے
آنے سے کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا؟
انقلاب : بھئی اب ایسے سوالات نہ کرو کہ میں اپنی ہی نظروں میں گِر جاؤں
اور پھر اُٹھ نہ پاؤں؟ کبھی کبھی میں بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ
میں آخر ہوں کیا۔ پاکستان کے سیاست دان میرا نام لے لے کر ایسی تبدیلیوں کے
راگ الاپتے ہیں کہ میں بھی حیرت سے سوچنے لگتا ہوں کہ میں کیا کیا کرسکتا
ہوں! پھر اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اب تک برپا نہیں ہوا۔
٭ کیوں؟ برپا نہ ہونے پر اﷲ کا شکر کیوں ادا کرتے ہیں آپ؟
انقلاب : پاکستانی سیاست دانوں کے دماغ کا کوئی سِرا نہیں ملتا۔ یہ کب کیا
بول بیٹھیں، کچھ پتا نہیں۔ کب یہ کیا دعویٰ کر بیٹھیں، پورے یقین سے کچھ
نہیں کہا جاسکتا۔ جب یہ کسی چیز کی تعریف کرنے پر تُلتے ہیں تو زمین آسمان
کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اگلے میں اِتنا دَم خَم بھی
ہے یا نہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ لوگ قطب مینار پر چڑھاکر سیڑھی نہ
ہٹالیں! اکثر اِنہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔
٭ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں سمیت پوری قوم کو انقلاب کے لیے تیار
رہنے کا حکم دیا ہے اور چوہدری شجاعت حسین کو ’’انقلاب کا رابطہ کار‘‘ مقرر
کیا ہے۔ اِس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟ آپ اِس طریق کار سے مطمئن ہیں؟
انقلاب : مطمئن کیا ہونا ہے، میں تو پریشانی اور بے حواسی سے دوچار ہوں۔
میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ میرے نام پر یہ کیسے کیسے اعلانات کئے جارہے
ہیں۔ انقلاب کیا کوئی فلم یا گانوں کا البم ہے جسے ریلیز کیا جائے؟ یا کیا
یہ کوئی کتاب ہے جس کی رُونمائی ہو؟ طاہرالقادری نے تو یہ بھی کہا ہے کہ
کارکن اور عوام تیار رہیں، وہ انقلاب کی تاریخ کا جلد اعلان کریں گے!
انقلاب کیا کسی تاریخ پر برپا ہونے والا واقعہ ہوتا ہے؟ میرے نام پر یہ کیا
تماشا ہو رہا ہے؟ کبھی کبھی جی میں آتا ہے کہ اِتنا ہنسوں کہ پھر اپنے آپ
میں نہ رہوں۔ اور کبھی یہ سوچتا ہوں کہ ایسا کُھل کے روؤں کہ اِس قوم کے
لیے قِلّتِ آب کا بحران نہ رہے! انقلاب کے اِن ٹھیکیداروں نے میرا نام لے
کر جو کچھ کرنے کی ٹھان رکھی ہے وہ ایک دن مُجھے خون کے اِتنے آنسو رُلائے
گا کہ میں اپنے ہی آنسوؤں میں ڈوب مروں گا اور میڈیا والے انقلاب کی ’’موت
ما قبلِ پیدائش‘‘ کا ماتم ہی کرتے رہ جائیں گے! میرے miscarriage تو بہت
ہوئے ہیں مگر اب شاید یار لوگ میرے still-birth کے درپے ہیں!
اضافی تشویش یہ ہے کہ طاہرالقادری نے چوہدری کو شجاعت حسین کو میرے معاملے
میں رابطہ کار مقرر کیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر کبھی کسی نے میرے بارے
میں چوہدری صاحب سے کچھ پوچھ لیا تو وہ کیا جواب دیں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو
کہ وہ کہیں کچھ اور میرے بارے میں سمجھ لیا جائے کچھ اور! اُن کی باتوں میں
مفاہیم کے کئی جہان آباد ہوتے ہیں۔ ایک ہی بات کا مفہوم ہر سُننے کے لیے
کچھ اور ہوتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ چوہدری صاحب کا کہا مکمل طور سمجھ
لینا بھی انقلاب سے کم نہیں! چوہدری صاحب کو انقلابی تحریک کا رابطہ کار
بناکر طاہرالقادری نے ملک میں انقلابی تبدیلی لانے کے خواہش مند افراد کے
ساتھ ساتھ خود مجھے بھی الجھن میں مبتلا کردیا ہے، بلکہ سچ پوچھیے تو مجھ
پر ’’وختا‘‘ ڈال دیا ہے! انقلاب کا معاملہ چوہدری صاحب کے حوالے کرنے سے
طاہرالقادری کی چالاکی اور میری مظلومیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ |
|