جانے نہ پائے

پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو کیا شوق چُرایاہے کہ ہمہ وقت ’’کڑِّکی‘‘تھامے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ۔پہلے ہمارے ’’معصوم‘‘ پرویز مشرف کو پھانسا( حالانکہ پیپلز پارٹی نے اپنے دَور میں اُنہیں بہت سینت سنبھال کے رکھا ہوا تھا )۔ عرصہ ہو گیا مشرف تَڑپ ، پھڑک رہے ہیں لیکن ظالم حکمرانوں کی ’’کڑّ ِکی‘‘ کا دروازہ کھُلنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔اُدھر فوجی بھائیوں کو بھی پرویز مشرف کی بے قراری پر دھیان دینے کی فُرصت نہیں کیونکہ وہ خود دہشت گردوں کے شکار پر نکلے ہوئے ہیں۔اب تو ہمارے کمانڈو کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ طبلے کی تھاپ پر گنگناتے رہتے ہیں کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا

اُدھر میاں نواز شریف صاحب نے نئی ’’کِچن کابینہ‘‘ بنا لی ہے جس پر چوہدری نثار احمد کا مطلق زور نہیں چلتا ۔نئی کِچن کابینہ ’’حق کا پرچم لے کر اُٹھو ، باطل سے ٹکراؤ ۔۔۔ مارو یا مَر جاؤ ‘‘ جیسے نسخۂ کیمیا پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی صورت پرویز مشرف کا نام ECL سے نکالنے کو تیار نہیں ۔ چوہدری نثاراکثر دِل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے خادمِ اعلیٰ کے پاس آتے رہتے ہیں ۔ خادمِ اعلیٰ چوہدری صاحب کی اَشک شوئی کو تو اپنا ’’فرضِ عین‘‘ سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی مُنہ ’’بسورتے ‘‘ہوئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ بڑے بھائی کے سامنے تو اُن کی ’’ہِلتی انگشتِ شہادت‘‘ بھی فالج زدہ ہو جاتی ہے ، بھلا زبان کھولنے کی جرأت کہاں ۔تسلیم کہ پرویز مشرف کا معاملہ آہستہ آہستہ بوسیدہ ہوتا جا رہا ہے اور عنقریب قصۂ پارینہ بھی بن جائے گاکیونکہ اب الیکٹرانک میڈیا کو بھی مشرف صاحب میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی اور جس کا ’’َکھہڑا‘‘ الیکٹرانک میڈیا چھوڑ دے وہ تو ویسے ہی منصۂ شہود سے غائب ہو جاتا ہے لیکن حکمرانوں کی تازہ ’’واردات‘‘ملاحظہ ہو کہ اب وہ FIA نامی ’’ کڑّ ِکی‘‘ لے کرشیخ الاسلام کے شکار کو نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔پرویز رشید کہتے ہیں ’’طاہر القادری صاحب پرویز مشرف کی طرح آئے تواپنی مرضی سے تھے لیکن جائیں گے قانون کی مرضی سے ‘‘۔ہم نے تو یہی سنا تھا کہ کابینہ میں سب سے با خبر وزیرِ اطلاعات ہوتا ہے لیکن اﷲ رے بے خبری ، ہمارے وزیرِ اطلاعات کو اتنا بھی علم نہیں کہ مُرشد تو اُسی آئین و قانون کی’’ ایسی تیسی ‘‘کرنے کے لیے اپنا ’’دیس‘‘ چھوڑ کر پاکستان تشریف لائے ہیں ۔وہ ایسی ’’نا معقول جمہوریت‘‘ پر لعنت بھیجتے ہیں جس میں ایک مجتہد العصر ، ولیٔ کامل، پیر ِ ِ طریقت و شریعت ، شیخ الا سلام پروفیسر ڈاکٹر کو عام انتخابات میں صرف ایک ہی نشست کے قابل سمجھا جائے اور باقی سب کچھ جاہل ، اُجڈ اور گنوار سمیٹ لے جائیں ۔’’مولانا انقلاب‘‘کو بشارت ہوئی ہے کہ اُن کے ’’چُٹکی‘‘ بجاتے ہی حکومت غائب ہو جائے گی ۔کچھ عقیدت مندوں نے مُرشد سے دَست بستہ پوچھا کہ کہیں اُن کی ’’چٹکی‘‘ پورا ملک ہی تو غائب نہیں کر دے گی ، کیونکہ اُن کے پاس تو کسی اور ملک کی شہریت بھی نہیں ۔مُرشد نے جلال میں آ کر نعرۂ مستانہ بلند کیا اور فرمایا ’’میری چٹکی میرے حکم کے تابع ہے ، ملک کو کچھ نہیں ہو گا۔یہ چٹکی صرف اُن کے لیے بنائی گئی ہے جو’’ایویں خوامخواہ‘‘ اپنے احسان گنواتے رہتے ہیں ‘‘ ۔حکمرانو! ہوشیار باش، یہ الطاف بھائی کی’’ بڑھکیں‘‘ نہیں بلکہ سَچ مُچ ایسا ہونے جا رہا ہے اور ڈرو اُس وقت سے جب ’’چٹکی‘‘ کا وقت قریب آن لگے۔

کچھ عقل سے عاری کہتے ہیں کہ طاہر القادری صاحب کا تو حال اُس شخص جیسا ہے جو خالی جیب میلے میں جا گھُسے ، اسی لیے وزیرِ اعظم صاحب نے بھی کہا تھا ’’ پَلّے نئیں دھیلہ ، تے کَردی میلہ میلہ‘‘ ۔طاہر القادری کی پٹاری میں ہے ہی کیا سوائے چوہدری برادران اور شیخ رشید جیسے کھوٹے سکوں کے ۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ اِن عقل کے دشمنوں کو نہیں پتہ کہ کبھی کبھی کھوٹا سِکّہ بھی کام آ جاتا ہے اور پھر وہ پیرِ طریقت و شریعت ہی کیا جو کھوٹے کو کھَرا ثابت نہ کر سکے ۔دُنیا دیکھے گی کہ ہماری انقلابی فوج کے میمنہ اور میسرہ سنبھالنے والے چوہدری برادران اور شیخ رشید ہی انقلاب لائیں گے۔ ویسے تو ’’انقلابی مارچ‘‘ کے لیے مُرشد نے مُحترم عمران خاں کو بھی ’’لاہوری صُلح‘ ماری تھی لیکن خاں صاحب ایسے ’’ٹِکّی‘‘ ہوئے کہ جان چھڑانی مشکل ہو گئی ۔وہ تو ’’پھَڈا‘‘ اِس بات پہ پَڑ گیا کہ انقلابی مارچ کی قیادت کون کرے گا ؟۔خاں صاحب کا فرمان تھا کہ تباہ کاریوں میں اُن کی ’’سونامی‘‘ کا کوئی ثانی نہیں جبکہ شیخ الاسلام ’’ضدّی خاں‘‘ کو یہ سمجھاتے سمجھاتے ’’اوازار‘‘ ہو گئے کہ اُن کے عقیدت مندوں کے بحرِ بے کنار کے مقابلے میں سونامی ’’ کَکھ‘‘ بھی نہیں ۔اُنہوں نے تو خاں صاحب کو یہ بھی کہا کہ وہ اپنی سونامی کا موازنہ اُن کے جیالے مریدین سے کر کے دیکھ لیں جنہوں نے راولپنڈی میں پولیس کو ایسی ’’پھینٹی‘‘ لگائی کہ اب راولپنڈی کی آدھی پولیس ہسپتالوں میں پڑی ہائے ہائے کر رہی ہے ۔ دونوں اپنی اپنی ضِد پر اَڑے رہے اور پھر راہیں جُدا ہو گئیں۔اِس کے باوجود مقصدپھر بھی ایک کہ میاں برادران کو سعودی عرب بھیج کر ہی دَم لیں گے ۔ہم بھی انتظار میں ہیں کہ جیت کا سہرا کِس کے سَر بندھتا ہے ۔ جو بھی کامیاب ہوا ہم اُسی کی جانب ’’لُڑھک‘‘ جائیں گے۔خاکم بدہن ، اگر دونوں ہی ناکام ہو گئے تو پھر نواز لیگ تو ہے ہی ۔ ویسے بھی لوگ اب تک تو ہمیں ’’نواز لیگیا ‘‘ ہی سمجھتے ہیں ۔اگر کوئی یہ سمجھتاہے کہ ہم لوٹے بلکہ ’’لوٹی‘‘ ہیں تو اُسے اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے کیونکہ ایک بہت معروف مذہبی سکالر جب ایک چینل سے ’’پھُدک‘‘ کر دوسرے چینل میں گئے تو اُنہوں نے فرمایا ’’ چینل کوئی مذہب نہیں ، جسے تبدیل نہ کیا جا سکے‘‘ ۔اُن کے اِس ارسطوانہ فتوے کو سیاستدانوں پر بھی ’’اپلائی‘‘ کیا جا سکتا ہے اور ہم لکھاریوں پر بھی کیونکہ سیاسی جماعت بھی کوئی مذہب تو نہیں کہ جسے تبدیل نہ کیا جا سکے اور ہم لکھاریوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ جب جی چاہے پارٹی بدل لیں ۔اگر کوئی نا معقول ہمیں ’’چڑھتے سورج کا پجاری‘‘ کہے تو کہتا رہے ، ہمارے پاس تو ’’عظیم ‘‘ مذہبی سکالر کا فتویٰ موجود ہے ۔

یوں تو حکمران کپتان صاحب کو بھی پھانسنے کے لیے اُن کے گرد گول گول گھومتے رہتے ہیں لیکن کپتان صاحب بھی بڑے کائیاں ہیں ۔وہ کبھی اونچا شارٹ کھیلتے ہی نہیں جو کَیچ ہونے کا خطرہ ہو یہ الگ بات ہے کہ بڑے میاں صاحب پھر بھی’’ گُگلی‘‘پھینکنے سے باز نہیں آتے ۔پہلے عیادت کے بہانے شوکت خانم چلے گئے، پھرخاں صاحب نے ضِدکی تو چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کروا ڈالی ۔وزیرِ اعظم ہاؤس میں چائے کی دعوت پر بلانے کی کوشش کی، بات نہ بنی تو خاں صاحب کے گھر ’’بنی گالہ‘‘ جا پہنچے اور اب جب کہ خاں صاحب بہاولپور میں جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو پروگرام کو تہس نہس کرنے کے لیے بنّوں کے آئی ڈی پیز کیمپس کا دورہ کرنے کی دعوت دے ڈالی اور ساتھ ہی یہ لالچ بھی کہ جنرل راحیل شریف بھی وہاں موجود ہونگے ۔خاں صاحب نے بھی ’’چھکا‘‘ مارتے ہوئے رانا ثنا اﷲ کے ’’تِیلی پہلوان‘‘ کو ساتھ بھجوا دیا اور خود بہاولپور جا کر ایسا ’’کھڑاک‘‘ کیا کہ حکمرانوں کے چودہ کیا چوبیس طبق روشن ہو گئے ۔اب اُنہوں نے چار سیٹوں کی بجائے پورے الیکشن کو ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے اور حکومت کو ایک ماہ کا ’’الٹی میٹم‘‘ دیتے ہوئے چار ایسے مطالبات پیش کیے ہیں جنہیں پورا کرناحکومت کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں۔اب 14 اگست کو خاں صاحب کم از کم 10 لاکھ سونامیوں کے ساتھاسلام آباد پہنچیں گے اور پھر دما دَم مَست قلندر۔ویسے خاں صاحب نے یا تو کَسرِ نفسی سے کام لیا ہے یا پھر جوشِ جذبات میں اُن کی زبان ’’غوطہ‘‘ کھا گئی اور وہ 100 لاکھ کہنے کی بجائے 10 لاکھ کہہ گئے۔اگر شیخ الاسلام ایک کروڑ انقلابیوں کے ساتھ باہر نکل سکتے ہیں تو کیا خاں صاحب اتنے ہی ’’گئے گزرے‘‘ ہیں کہ ایک کروڑ سونامیوں کو اکٹھا نہیں کر سکتے؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643305 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More