برائلر مرغی

آفتاب کی زندگی کسی ہلچل کا شکار نہ تھی سب کچھ بہت ’chill‘ تھا ۔ ہنستا مسکراتا خاندان،کامیاب تعلیمی ریکارڈ، عمدہ اور جدید لائف سٹائل ،تمام فی زمانہ سہولتوں اور مستی کے ساتھ، خوش آئند مستقبل کی بہترین منصوبہ بندی کا اعتماد ۔۔۔ سب کچھ perfect تھا ۔۔۔ تا وقتیکہ اس نے عملی زندگی میں قدم رکھا ۔۔۔۔۔۔ انسانی رویے اور تعلقات اسکی کتابی عقل و دانش سے بالا تر ہونے لگے ، بسا اوقات وہ اپنے آپ کو دنیا کا بے وقوف اور گھامڑ ترین انسان تصور کرنے لگتا ۔

اعلیٰ ، معیاری روزگار کا حصول اسکے لئیے قطعاً دشوار نہ تھا ا اسکے ماں باپ کی عمر بھر کی مشقت ، صبر اور کامیاب منصوبہ بندی کا ہی ثمر تھا کہ آفتاب ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں لاکھوں روپے کی تنخواہ پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ ماں باپ نے سکھ کا سانس لیا اور مستقبل کے شاندار خوابوں میں کھو گئے ۔۔۔ عزت اور دولت کے خواب۔۔۔۔ جنہیں انہوں نے تعلیم کے ہتھیار سے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔ اب نزدیک تر ہوتے نظر آ رہے تھے ۔

مگر آفتاب کی زندگی سے سکون اور اطمینان اس طرح غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔یک دم اسے کئی محاذوں کا سامنا تھا ۔۔ ۔ محنت سے تو وہ کبھی نہیں گھبرایا تھا یہی تو وہ خاص گھٹی تھی جو اسکے ماں باپ نے اسے پلائی تھی کہ وہ زندگی کے کسی مرحلے پر ناکام نا ہو ۔۔۔۔۔ مگر جلد ہی آفتاب پر یہ حقیقت آشکار ہونے لگی کہ کمپنی میں اپنی قدر و قیمت بڑھانے کے لئے اسے کچھ اور مہارتیں بھی درکار تھیں ۔۔۔۔ کتابوں سے حاصل ہونے والے علم نے اسے صرف نمبر دیے تھے ، زندگی کا پتا دینے والا علم ۔۔۔ اس لسٹ میں شا مل نہیں تھا جو اسکے والدین نے اسکے لئے تیار کی تھی

آفتاب متوسط طبقے کے محدود آمدنی رکھنے والے والدین کا ایسا خواب تھا جو ان کے آنے والے مخدوش مستقبل کو سہارا دینے کا ضامن تھا ، اسکی پرورش میں خاص اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اسے دنیا کی مارکیٹ میں قبولیت حاصل ہو ،زمانے کے سردوگرم اسکی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو گزند نہ پہنچا سکیں ۔ انہوں نے اپنے ہونہار سپوت کو ایسے حفاظتی حصار میں پروان چڑھایا تھا جہاں ہر طرح کے وٹامن، ٹانک اور متوازن غذا سے اسکے جسم کی تمام ضروریات کو پورا کیا گیا ، کھیل کود، جسمانی مشقت اور معاشرتی میل جول سے احتراز برتا گیا مبادا کوئی جسمانی یا معاشرتی وائرس انکی دن رات کی محنت پر پانی نہ پھیر دے ۔ وہ تو آفتاب کو نہ جانے کس طرح دل پر پتھر رکھ کر وظیفوں کے سائے میں تعلیمی اداروں میں بھیجتے رہے ۔ آفتاب کے ذہنی سکون کی خاطر اپنی مالی ،معاشرتی پریشانیاں دھیمی آواز میں بھی گھر میں دہرائی نا جاتیں کہ کہیں آفتاب پر اسکے منفی اثرات مرتب نہ ہوں ۔

آفتاب کے والد کی calculation کے مطابق آفتاب اگر فنانس کے شعبے میں اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور پھر کسی بھی محکمے میں کلیدی عہدہ حاصل کرلیتا تو پھر اسے دن دوگنی اور رات چو گنی ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ یہی وہ ٹارگٹ تھا جسکے حصول کے لئے جو جو اشیاء اور عوامل درکار تھے ان پر مکمل توجہ دی گئی ۔ بہترین سکول اور اساتذہ کا حصول ہر قیمت پر کیا گیا ۔ کمپیوٹر، انٹر نیٹ، موبائل فون کا جدید ماڈل اور ایسی تمام تفریحات جو اس مقصد کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہو سکیں ۔ اس پہلو پر خاص توجہ دی گئی کہ آفتاب backward نا رہ جائے ۔

لیجئے بالآخر آفتاب کے والدین اپنی recipie کے مطابق آفتاب کو تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔ اب انتظار تھا تو اس ڈش کے serve ہونے کا ۔۔۔۔۔

آفتاب اپنی کلّی توانائیوں کے ساتھ چاق و چوبند زمانے کی دوڑ میں داخل ہوا مگر ۔۔۔۔۔ اس کا استقبال confusion نے کیا ۔۔ confusion یعنی ابہام وہ تحفہ تھا جو اس کی نسل کو بطورِ خاص عطا ہوا تھا ۔۔
وہ محنت سے اپنے فرائض ادا کرے یا کسی اور کی کارکردگی اپنا لیبل چسپاں کردے ؟؟؟؟؟ ،

وہ باس کے بیوی بچوں کے لئے بیش قیمت تحفے لے کر جائے یا رات گئے تک اپنے بیوی بچوں کو نظر انداز کر کے اپنے دفتری کام نپٹائے ۔۔۔ ، برانڈڈ کپڑے پہنے latest موبائل لے یا والد کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بچت کرے ، والدین کے دیے ہوئے وقت کو سود سمیت واپس لوٹائے یا بیوی کے ساتھ socialization کے لئے وقت نکالے ۔۔۔۔

پاکستان میں رہ کر اپنی بقاء کی جنگ لڑے یا بیرونِ ملک جا کر اپنی شناخت از سرِ نو حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔۔۔۔۔

confusion کا تو یہ عالم تھا کہ جب ایک دن سرِ راہ کچھ ا’چکّوں نے اسے گھیر کر اسے اسکی گاڑی، پرس ، قیمتی موبائل اور گھڑی سے محروم کر دیا ۔۔۔۔۔ وہ یہ سوچتا ہی رہ گیا کہ پولیس تھانے جا کر رپورٹ درج کروائے یا رکشہ لے کر گھر چلا جائے

آفتاب کے سامنے آپشنز کا ڈھیر تھا جو اسے کسی فیصلے تک پہنچنے نہیں دیتا تھا جبکہ اسے جلد از جلد مطلوبہ اشارے اکٹھے کرکے اس ’لائف پزل‘ کو مکمل کرنا تھا اسے پروگرامنگ کے مطابق مقررہ وقت اور معیار کے ساتھ اگلے مرحلے میں داخل ہونا تھا ۔۔۔۔ پیچھے رہ جانے کا مطلب تھا ’ایک لائف چانس کا خاتمہ ‘ جسکی اسے اگلے مرحلوں میں ضرورت پڑ سکتی تھی -

’ بھاگتی دوڑتی تیز رفتار ٹیکنالوجی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کسی غلط فیصلے یا تاخیر کو برداشت نہیں کر سکتا تھا‘

نہ جانے کیوں ۔۔۔آفتاب کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی خودکار فیکٹری کی conveyer belt پر پڑا ہوا زیرِ تکمیل مشینی پرزہ ہے جسے مقررہ وقت پر آگے بڑھا دیا جائے گا خواہ اسکی تکمیل مکمل ہوئی ہو یا ابھی وہ نا مکمل ہو ۔۔۔۔۔۔ آفتاب نا مکمل نہیں رہنا چاہتا تھا -

مگر اس ’ تکمیل‘ میں بھی ابہام تھا ۔۔۔۔۔ یہ ابہام یہ confusion کیوں پیدا ہوا ؟؟ ؟ کیا اس لئے کہ اسکی پرورش میں کوئی خامی رہ گئی تھی؟ یا اسکی فطرت سے حساسیت اور جذباتیت کو نکالا نہ جا سکا تھا؟ intensive and programmed breeding کے عمل میں جہاں آفتاب کو تمام حفاظتی ٹیکے لگائے گئے تھے وہیں اسکے حساس جذبات کو بھی روندنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی ۔۔۔۔ پھر ایسا کیسے ہو گیا ؟؟؟ نہیں نہیں کسی دوسری سوچ کی کوئی گنجائش نہیں صرف اس راستے پر چلو جس پر سب چل رہے ہیں یہی ترقی کا راستہ ہے دل کی مت سنو مار ڈالو، دبا دو، کچھ تو کرو ۔۔۔۔ ترقی کے جن کو آگے بڑھنا ہے اسے روکا نہیں جا سکتا ہیڈ آپریٹر ٹیکنالوجی ہے اسے ایندھن چاہیئے۔۔۔ خوراک چاہیئے ۔۔۔اور لاؤ ۔۔۔ ایسے آفتاب لاؤ جنکی پرورش صرف اس لئے کی گئی ہے تاکہ ٹیکنالوجی کے جن کو ایندھن مل سکے ایسے آفتاب جو بے شک دل کے عارضے میں مبتلا ہوں ۔۔۔ ڈپریشن کا شکار ہوں۔۔مگر۔۔۔ جسمانی چور پر چاق و چوبند اور نفسیاتی طور پر تابعدار ہوں -

خیال رہے ذیادہ لمبی عمر کی بھی ضرورت نہیں بس اتنا وقت چاہیئے کہ ناکارہ ہونے سے پہلے اپنے جیسی آنے والی نسل میں حصّہ ڈال سکے پھر بے شک چل بسے۔۔۔۔

آفتاب کو اب کچھ اور نہیں سوچنا چاہیئے اسکے سانس لینے کا مقصد اپنے جیسی یا اپنے سے زیادہ تابعدار نسل تیار کرنا ہے بالکل اس طرح جیسے اس کے والدین نے کی تھی۔۔۔۔۔

آفتاب کی بے چینی کو قرار آگیا اسکی ہلچل مچاتی زندگی میں ٹھہراؤ آگیا اسکا بیٹا امتیاز اسکے سامنے تھا ۔۔۔ وہی خواب۔۔ وہی پلاننگ۔۔۔۔ کوئی دوسرا راستہ اسکے سامنے نہیں تھا ۔۔ اسے اپنے بیٹے ، اپنی آنے والی نسل کو مستقبل کے لئے تیار کرنا تھا ۔۔۔جلد از جلد۔۔۔ وقت بہت کم ہے ۔۔۔میڈیکل سائنس اسے بتا رہی ہے
اور جب کئی برسوں کی ان تھک محنت کے بعد اس نے اپنے لائق فائق بیٹے کے ذریعے زمانے کی ترقی میں اپنا حصّہ ڈال دیا، تو اس نے تعریف اور تحسین کی توقع میں زمانے کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔ مگر وہاں صرف ایک لمبی خاموشی اور بے اعتنائی نے اسکا استقبال کیا اسے احساس ہونے لگا کہ وہ۔۔۔ پولٹری فارم کے ڈربے میں بند وہ بوڑھی برائلر مرغی ہے جو اپنے حصّے کے انڈے دے چکی اور اب دنیا اسکے گوشت کی منتظر ہے ۔۔۔۔۔۔
Aneela Shakeel
About the Author: Aneela Shakeel Read More Articles by Aneela Shakeel: 10 Articles with 20062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.