محترم قارئین السلامُ علیکم
کل ہمارے بہت پیارے دوست مُحترم فخرُالدین بھٹی صاحب جو علاقائی ناظم بھی
ہیں اور اپنے علاقے کی ہر دِلعزیز شخصیت بھی لوگوں کے کام آنے کو عبادت سے
تعبیر کرتے ہیں میں جب اُنہیں دیکھتا ہوں تو دِل خوُش ہوجاتا ہے کہ ایسے
لوگ نایاب اور ناپید ہوتے جاتے ہیں کل رات مجھ سے ملنے فیکٹری آئے تو موضوع
غریبی اور مزدوروں کی حالت زار تھا ہم نے اُن سے ایک سُوال کیا فخر بھائی
یہ تو بتائیں کہ آپکی نظر میں مَزدوروں کا سب سے بڑا دُشمن کُون ہی ۔
وہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر کہنے لگے میرے خیال میں ٹھیکیدار ہی مزدور کا
دُشمن ہے اُنکے ساتھ ایک معروف اخبار کے صحافی بھی تشریف لائے تھے میں نے
یہی سُوال اُن سے بھی پوچھا وہ کہنے لگے میرے خیال میں استحصالی نظام ہی
مزدوروں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ میں دونوں حضرات کے خیالات سُن کر بولا مجھے
آپ دونوں حضرات کی آرا سے اتِفاق ہے بیشک یہ دونوں بھی مزدور کے دُشمن ہیں
لیکن سب سے بڑے دُشمن نہیں۔
اِس پر فخر بھائی بڑے تحمُل سے بولے عشرت بھائی آپکے خیال میں مزدوروں کا
سب سے بڑا دُشمن کون ہے جب میں نے جواب دیا تو وہ دونوں اِحباَب اپنی
کرسیوُں سے اُچھل پڑے اور مجھ سے میرے جواب کی توجہیہ طلب کی تب میں نے
اُنہیں ایک واقعہ سُنایا جسے سُن کر یہ دونوں حضرات تو مطمئین ہوگئے آپکی
آرا کا مُنتظر رہوں گا۔
یہ واقعہ ۱۹۹۳ کا ہے ابا جان نے ایک نئی فیکٹری خریدی تھی جس کی مینجمنٹ
اور پرچیزنگ کا شعبہ مجھے دیا گیا اور دوسرے انتظامی امور سنبھالنے کیلئے
میرے چھوٹے بھائی کو چُنا گیا کچھ ہی عرصہ کے بعد پرچیزنگ کے سلسلے میں
مجھے پنجاب اور سندھ کے دورے پر جانا پڑا جب میں اسی سلسلے میں بدین کے
نزدیک شہر گولارچی پہنچا جسے فاضل راہو شہید کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
مجھے وہاں جس بات نے سب سے زیادہ مُتاثر کیا وہ مزدوروں کی قابلِ رشک اُجرت
تھی پنجاب اور سندھ کے تقریباً شہروں میں اُس وقت فی نگ کی مزدوری ایک
روپیہ تھی جبکہ گولارچی میں اُس وقت فی نگ مزدوری پانچ روپیہ تھی سرمایہ
داروں نے کوشش کی کہ مزدور یا تو مزدوری کم کردیں ورنہ مزدور دوسرے شہر سے
لائے جائیں لیکن وہاں کے مزدوروں کے باہمی اتحاد اور اتفاق کی وجہ سے
سرمایہ داروں کو مزدوروں کے آگے گُھٹنے ٹیکنے پڑے اور مزدورں کو فتح حاصل
ہوئی میں جب اپنے شہر واپس آیا تب سوچنے لگا کہ اگر یہی مزدوری میرے شہر کے
مزدوروں کو بھی حاصل ہوجائے تو اُنکی زندگی بھی آسودہ ہو سکتی ہے
لہٰذا چند دِنوں بعد میں نے اپنی فیکٹری کے مُلازمین کو جمع کیا اور اُنہیں
تمام حالات بھی بتائے کہ اگر آپ لوگ بھی کوشش کریں اور اتفاق اور اتحاد کا
عملی مظاہرہ اور حکمت عملی سے کام لیں اور اپنے میں سے قابل لوگوں کو چُن
کر اپنے مطالبات فیکٹری مالکان کے سامنے رکھیں تو کوئی بعید نہیں کہ آپکا
اتحاد سرمایہ دار طبقے کو جھکنے پر مجبور نہ کردے کیونکہ آپکی اجرت پانچ
گُنا بڑھنے کا اثر نہ ہی فیکٹری مالکان کی جیب پر پڑیگا اور نہ ہی اسکا بہت
زیادہ اثر عوام پر پڑتا ہے یہ خرچہ لاگت میں جاتا جسکی مثال میں نے یوں دی
کہ اگر ۵۰ کلو کے ایک بیگ کی مزدوری ایک روپیہ ہے اس طرح فی کلو مزدوری دو
پیسہ آتی ہے اور اگر یہی مزدوری فی بیگ پانچ روپیہ ہو تو فی کلو مزدوری دس
پیسے آئیگی اس طرح آٹھ پیسے فی کلو مزدوری زیادہ پڑے گی جہاں فیکٹری مالکان
فی کلو پرافٹ ایک روپیہ تک رکھتے ہیں تو کیا غریب مزدور جو اپنے خون پسینے
سے ان اشیا کو تیار کرتا ہے کیا وہ دس پیسہ کا بھی حقدار نہیں؟
ان تمام باتوں کو بیان کر کے میں نے اُن مزدوروں سے یہ بھی التجا کی کہ
میرا نام اِس معاملے میں نہ لیجئے گا ورنہ تمام فیکٹری مالکان میری جان کو
آجائینگے۔ اُن سب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ آپ کا نام نہیں آئیگا اور ہم جلد
ہی باہمی مشاورت سے اپنا ایک لیڈر چُن لیں گے بس آپ ہماری پسِ پردہ رہنمائی
کرتے رہئے گا میں نے بھی حامی بھر لی اور اُنہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین
دِلایا
دوسرے دِن جب میں فیکٹری جانے کے لئے نِکل رہا تھا تب اماں نے بتایا کہ
اقبال تمہارے ابا کا فون آیا تھا کافی غصے میں لگ رہے تھے اور تمہیں بُلایا
ہے اس لئے پہلے ابو کی فیکٹری چلے جاؤ اماں چونکہ میری عادتوں سے واقف تھیں
لہٰذا نصیحت کرنے لگیں دیکھو ابا اگر کوئی بات سمجھائیں تو بڑے آرام سے
سننا درمیان میں مت بولنا جواب دھیمے لہجے میں دینا ہاں میں ہاں ملاتے رہنا
میں تمام نصیحتیں سُن کر سوچ رہا تھا کہ آخر مجھ سے ایسی کونسی خطا ہو گئی
ہے جس کی وجہ سے ابا مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں میں اِسی ادھیڑ بن میں ابو کی
فیکٹری جا پہنچا ابا کو سلام کرنے کے بعد جب میری نظر اپنی فیکٹری کے لیبر
ٹھیکیدار پر پڑی تب میرا ماتھا ٹھنکا اور بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آئی
میرے بیٹھتے ہی ابا شروع ہو گئے اقبال میں تو تمہیں بڑا سمجھدار سمجھتا تھا
لیکن تم تو جس شاخ پر بیٹھے ہو اُسی کو کاٹنے کے درپے ہو صبح سے فیکٹری
مالکان تمہاری فون پر شکایت کر رہے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ تم میں
مینجمینٹ کی صلاحیت نہیں بلکہ تم اچھے بھلے کام میں انتشار کا سبب بن رہے
ہو ۔اور اب مجھے بھی ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں نے مینجمنٹ کا شعبہ تمہیں
دیکر غلطی کی ہے جو شخص اپنی لیبر کو خود بغاوت کا درس دے وہ مینجمنٹ کیا
خاک سنبھالے گا
ان تمام باتوں کو سُن کر میرے اندر ایک الاؤ جل رہا تھا میں نے ایک نیکی کی
کوشش کی تھی میں نے تو سب مزدوروں کا بھلا چاہا تھا میں تو یہ چاہ رہا تھا
کہ کسی غریب کا چولھا کسی دن بُجھا نہ رہ جائے مگر یہ کیسی آگ بھڑک اُٹھی
جس نے میری شخصیت کو ہی داغدار کردیا جس نے میری صلاحیتوں پر سوالیہ نشان
لگا دیا اُس پر مزید ستم یہ کہ آخر میں ابا نے یہ بھی کہہ دیا لگتا ہے
تمہیں لیڈر بننے کا شوق ہے جو لوگ آگ سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اکثر
اپنے ہاتھ جلا لیتے ہیں میری سماعتیں جواب دے چُکی تھیں
میری آنکھیں بھیگ چُکی تھیں زُباں پہ بارِ گراں تھا اماں کی نصیحتیں یاد
تھیں کرسی سے اُٹھتے ہوئے فیکٹری کی چابیاں ابا کے حوالے کی اور فقط اِتنا
کہہ سکا
ابا آپ ٹھیک کہتے ہیں واقعی میں مینجمنٹ کا آدمی نہیں بلکہ مجھے لگتا ہے
میں کسی کام کا آدمی نہیں میں چند دن تک ایک کرب کی کیفیت میں مُبتلا رہا
پھر ایک چھوٹی سی دُکان سنبھال لی اور جب کافی عرصہ کے بعد میں اُسی فیکٹری
میں اپنے چھوٹے بھائی سے ملنے گیا اور جب میں واپس آنے لگا تب میں نے گیٹ
کی باہر چند مزدوروں کی جھلک دیکھی جو مجھ سے کہہ رہے تھے اقبال بھائی ہمیں
مُعاف کردینا میں نے فقط اتنا کہا تمہارا دُشمن کوئی اور نہیں تم خود ہو
آج اُس بات کو پندرہ برس گزر گئے ابو کی بیماری اور ضعیفی کی وجہ سے اور سب
کے اسرار پر تقریباً ایک سال سے ابو والی فیکٹری میں سنبھال رہا ہوں اور آج
پندرہ برس کے بعد بھی مزدور کی مزدوری فی نگ صرف دو روپیہ ہے اسی لئے میں
نے فخر بھٹی صاحب سے کہا تھا کہ مزدور کا سب سے بڑا دُشمن خود مزدور ہے آپ
کا کیا خیال ہے؟ |