ہمارے معاشرے کی بے شمار خامیوں
میں ایک خامی اِخلاق وکردار کی سر فہرست ہے اسکی وجہ صبر وبرداشت کا فقدان
ہے اگر ان چیزوں پر قابو پا لیا جائے اور اسلامی طور طریقے اپنا لئے جائیں
تو ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں ظلم و زیادتی ، بد اخلاقی اور
بے صبری کی جگہ اَمن و سکون اور خوشحالی کا دور دورہ ہو ایسے معاشرے میں
اگر شیطان کے بہکاوے میں آکر یا نفسیاتی شرارت کے باعث کسی فرد سے جرم کا
ارتکاب ہو جائے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اسے ایسی عبرت ناک سزا دی
جائے کہ معاشرے کے دوسرے افراد کسی جرم کی جرات نہ کر سکیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ مفاد پرست ، خود غرض ، نااہل اور موقع پرست
قیادت کے نتیجے میں ظلم و تشدد ،ناانصافی غیر مساویانہ تقسیم اور دیگر
سماجی نا انصافیوں کا نشانہ بنا ، ظالم و جابر حکمران اور ان کے کارندے
مظلوم انسانوں کو مختلف طریقوں سے ظلم کا شکار بناتے رہے اسکی واحد وجہ
اخلاقیات کی کمی ہے اور اخلاقیات کی کمی تبھی ہوتی ہے جب انسان اپنے مذہب
سے منہ موڑ لیتا ہے ۔ معاشرے کی اصلاح اور اسے انسانی اقدار کی اہمیت سے
باخبر کرنے والے مصلحین نے ہر دور میں یہ کوشش کی کہ انسان کو جس حد تک
ممکن ہو گناہ اور بے راہ روی سے بچایا جائے اور اخلاق کی تعلیم سے روشناس
ہو۔
اخلاقی تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ۔ ’’ مومنوں میں سب
سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو ‘‘ ۔ ابو داؤد
نے فرمایا کہ اسلامی معاشرے کا فرد ہونا اور اسلامی نام رکھ لینا کافی نہیں
بلکہ مسلمان کیلئے لازم ہے کہ اچھے اخلاق کا مالک ہو ۔رسول اﷲ ﷺ کا فرمان
ہے ۔ ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور
مومن وہ ہے جس کی طرف سے اپنی جان و مال کے بارے میں لوگوں کو کوئی خوف و
خطر نہ ہو ‘‘ ۔ ایک حدیث شریف میں مسلمانوں کو جانوروں کے ساتھ بھی ظلم و
زیادتی سے منع فرمایا گیا ہے ،کسی جاندار کتے اور بلی کو بھی ستانے کی
اجازت نہیں بلکہ اس کو بھی بہت بڑا گناہ تصور کیا گیا ہے ۔نماز روزے کا
تعلق حقوق اﷲ سے ہے اﷲ جس سے چاہے گا اپنے حقوق کا حساب لے گا اور جسے چاہے
در گزر فرمائے گا لیکن اخلاق کا تمام تر تعلق حقو ق العباد سے ہے ، جس نے
اﷲ کے بندوں کے ساتھ پیار و محبت کا رویہ اختیار کیا دوسروں کے ساتھ اچھے
اخلاق سے پیش آتا رہا ، ایثار و قربانی کا جذبہ اپنایا تو ایسے انسان سے اﷲ
خوش ہو کر اسے جنت میں داخل کرے گا ، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اخلاقی
بلندی کا مرتبہ حاصل کرنے کیلئے دوسروں سے ہمدردی اور خیر خواہی کرے ، کسی
کیلئے تکلیف اور زحمت کا باعث نہ بنے ، ہر انسان چاہتا ہے کہ اگر اسے کوئی
مشکل پیش آئے ، پریشانی ہو یا کوئی مصیبت آجائے تو دوسرے اس کے ساتھ ہمدردی
کریں ۔یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے اخلاق وکردار سے پہچانا جاتا ہے ، بہتر
اخلاق اسے انسانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچاتا ہے جب کہ برے اور گندے خصائل
اسے ذلیل و رسوا کر کے پستی میں ڈال دیتے ہیں ، اسی لئے ایک اچھا انسان
اپنے اخلاق و کردار کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرتا ہے یہ اس کی شناخت
اور کامیاب زندگی کیلئے بے حد ضروری ہے ،اسی وجہ سے دین و شریعت میں بہتر
اخلاق اور اچھے اوصاف کی بڑی اہمیت ہے ۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی تعلیم کی کمی نے دنیا کے چند ممالک کو
صراط مستقیم پر چلنے کی بجائے فرعونی و ابلیسی سانچے میں ڈھال رکھا ہے،
تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ہر دور میں زمین اور اس پر بسنے والے
انسانوں کو ہر قسم کے فساد سے پاک رکھنے کی ذمہ داری تعلیم یافتہ لوگوں کے
سر رہی ہے، تاہم تعلیم یافتہ افراد کا باصلاحیت ،نیک سیرت ، خوش اخلاق ،
فرض شناس اور باکردار ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں کو ئی شک
نہیں کہ نظام تعلیم نے ہی دنیا کو ترقی کی منازل طے کروائی ہیں اور اسی وجہ
سے دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے،
آرام و آسائش کی جدید تر سہولیات حاصل ہو گئی ہیں انسان دنیا کو اپنی مٹھی
میں کرنے اور چاند پر گھر بسانے کی سوچ رہا ہے لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے
باوجود دوسری طرف بد اخلاقی کی اتنی پستی میں جا گرا ہے کہ اسے انسان کہنا
گویا لفظ انسان کی توہین ہے ،اگر ہم اخلاقی گراوٹ کے اسباب پر نظر ڈالیں تو
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان خدا ترس ہونے کی بجائے مادہ پرست ہو گیا
ہے ۔یہ امر انتہائی بد نصیبی کا باعث ہے کہ آج کا پڑھا لکھا انسان کہیں نہ
کہیں بے انصاف ، بے درد ، بد دیانت ، سنگدل ،رشوت خور ، موقع شناس ، کام
چور ، پیسوں کا غلام ، انسانیت کا دشمن اور خود غرض نظر آتا ہے، یہ وہی
انسان ہے جو امن و سکون کی زندگی کے بجائے جنگ وجدل کا شکار ہے ، اتحاد وا
تفاق کو چھوڑ کر دولت کا پجاری بناہوا ہے ، عبادت و ریاضت کو چھوڑ کر حسن
کی رنگینیوں کا بھکاری بنا ہے ،انسانیت کی خدمت کرنے کی بجائے دوسروں کے
گلے کاٹ رہا ہے پاکیزگی اور پاک دامنی کی زندگی چھوڑ کر بے حیائی کی انتہا
کو پہنچ چکا ہے۔
مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی دو الگ چیزیں ہیں، مال و دولت فقط انسان
کی ضرورت ہے ، اﷲ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت
اور ان کی ضروریات کی خاطر پیدا کی ہیں مگر انسان خود اپنے خالق و مالک کی
مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو ایک طرف تو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے
خلاف ہیں اور دوسرا خود اس کیلئے بھی نقصان دہ ہیں ۔مادہ پرستی وہ مہلک مرض
ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے
انسان کو متنبہ کیا ہے اور مادہ پرستی کو اسبابِ فریب قراردیتے ہوئے اس سے
بچنے کی تاکید کی ہے،اﷲ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی میں بہت سی مخلوقات پیدا
کیں مگر تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا اﷲ
تعالیٰ نے انسان کو کو بہترین دل ودماغ عطا کیا اور یہی وجہ ہے کہ ایسی
ایسی ایجادات عمل میں لائی گئیں جن کا تصور بھی نہ تھا ،انسان آج ترقی پہ
ترقی کئے جا رہا ہے ،تقریباً ہر ملک بامِ عروج تک پہنچ چکا ہے ،زمانہ قدیم
سے آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ انسان
نے اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت دماغ کا استعمال کیا اور اس مقام تک پہنچااور
دیکھتے ہی دیکھتے یہ انسان جو کل تک جاہلیت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا آج
چاند تک پہنچ چکا ہے ۔تخلیقی کارنامے انجام دینے کے باوجود یہی انسان آج
مادہ پرستی کے گہرے سمندر میں ڈوب چکا ہے اور اسی مادہ پرستی نے انسان کے
اخلاق کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ کی آماجگاہ بن
گیا ہے آج کے دور میں انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے
حصول کیلئے کوشاں ہے ، مادہ پرست انسان مادی ترقی ، مال و زر اور اسباب کی
کثرت کو زندگی کا معراج تصور کرتا ہے بھلے وہ خدائی ضابطوں ، انسانی رشتوں
اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اسی وجہ سے انسانی زندگی میں
توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہو رہا ہے ۔اگر انسان یہ
سمجھتا ہے کہ مال وزر کی کثرت اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور اس سے وہ
راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو اس خیال اور وہم کو اپنے دل و دماغ سے
نکال باہر کرے کیونکہ انسان مادیت میں غرق ہو کر نہیں بلکہ اپنے اخلاق و
کردار کو سنوار کر اور دوسرے انسانوں کے حقوق ادا کر کے ہی وہ اس سے بہرہ
ور ہو سکتا ہے،انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے چال چلن پر غور کرتا
ہے اور خود اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتا ،یہی وجہ ہے کہ انسان سب کچھ
حاصل کرکے بھی خوش نہیں رہ پاتا۔
لہذٰا ان تمام چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے ،پاکستان میں نظام تعلیم کو
بدلنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ آج کی نظام تعلیم نے اخلاقیات سے کنارہ کشی
کر لی ہے جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں احساس ، مروت، انسانیت ، اخلاق ،
تحمل ، اپنایت ،برداشت نام کی کوئی چیز نہیں بچی۔
آخر میں رسول ﷺ کی چند ہدایات عرض ہیں کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے ،کسی پر
ظلم نہ کیا جائے ،کسی کے ساتھ دھوکہ ،بے ایمانی اور فریب نہ کیا جائے ،
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ،یہ وہ اخلاقی تعلیمات ہیں جنہیں اﷲ اور
اس کے رسول ﷺ نے ایمان کا خاص حصہ قرار دیا ہے ۔
’’ نام سے نہیں اچھے کام سے ایک انسان مکمل انسان اور مسلمان کہلاتا ہے ‘‘
۔ |