ہم ترقی نہیں کر سکتے

ہر چھ ماہ بعد سردیوں کے شروع ہونے سے پہلے یا گرمیوں کے شروع ہونے پر آپ نے اکثر چروائے آتے جاتے دیکھیں ہونگے،سردیوں میں یہ گرم اور گرمیوں میں سرد علاقوں کا رخ کرتے ہیں،دیکھنے میں یہ لوگ بہت غریب ،ان پڑھ،سادہ نظر آتے ہیں مگر یہ بہت بڑے لیڈر ہوتے ہیں، یہ چروائے شہروں میں کم اور دیہاتوں میں زیادہ نظر آتے ہیں آپ نے دیکھا ہوگا کے دو چار بندے ہوتے ہیں اور وہ سینکڑوں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں اگے لگائے ان کو ہانکتے جاتے ہیں اور وہ سینکڑوں بھیڑ بکریاں اگے اگے چلتی رہتی ہیں راستے میں اکثر کھیت،فصلیں،گھاس وغیرہ آتا ہے تو بکریاں ان میں منہ مارنے کی کوشش کرتی ہیں،یا جنگل میں یہ ادھر ادھربھاگتی ہیں مگر چروائے ایک آواز نکالتے ہیں اور وہ پورا بکریوں کا ریوڑ ناک کی سیدھ میں چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ چروائے ان کو نہ صرف کنٹرول کرتے ہیں بلکہ سالہاسال کبھی ادھر کبھی ادھر دوڑاتے رہتے ہیں۔ان جانوروں کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں،اگر یہ سب متحد ہو جائیں تو ان چرواوں کی کیا جرت کہ وہ ان کو کنٹرول کر سکیں،اگر یہ بگڑ جائیں تو چرواوں کے پاس کوئی حل نہیں کہ وہ ان کو سنبھال سکیں،مگر پھر بھی ان دو چار بندوں نے لاتعداد، بکریاں اپنے خوف سے اپنے ڈراو سے اگے لگائی ہوتی ہیں۔کہنے کو یہ عام سی بات ہے اور ہم میں سے ہر کوئی ایسا منظر اکثر دیکھتا ہے بلکہ بچپن میں تو ہم شوق سے ان کو دیکھا کرتے تھے،اور اس بات پر حیران ہوتے کہ انہوں نے ان کو کیسے لائن میں لگا رکھا ہے ۔روزانہ ان بکریوں کو زبح کیا جاتا ہے ،ان کو مارہ جاتا ہے ،ان کو بیچا جاتا ہے ان سے کام بھی لیا جاتا ہے، ان پر ظلم بھی کیا جاتا ہے سردیوں،گرمیوں میں ان کو باہر بھی رکھا جاتا ہے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا دودھ، پیا اورگوشت بھی کھایا جاتا ہے ان کی چمڑی بھی اتاری جاتی ہے مگر ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی یہ جانور کوئی ایسی حرکت نہیں کر سکتے جو ان چند آدمیوں کی مرضی کے خلاف ہو۔کہنے کو یہ جانور ہیں ان میں سنس نہیں یہ بھیڑ بکریاں ہیں مگر جب انسان جاہل ہو جائے ،لالچی،خود غرض،شخصیت پرست،ہو جائے، کوئی شعور نہ رکھتا ہو تو وہ بھی کسی جانور سے کم نہیں ہوتا اس کا حال بھی ان ہی بھیڑ بکریوں جیسا ہوتا ہے ،اگر ہم اپنے ملک میں دیکھیں تو عوام ،عام آدمی ،مزدور،ملازم اس کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ،اپنے پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا بلکہ چند آدمی جو اس ملک میں قابض ہیں ان کروڑوں لوگوں کو ہانگتے جا رہے ہیں ،یہاں پر انسان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو ایک جانور کے ساتھ ہو تا ہے اس کو زبح بھی کیا جاتا ہے بیچا بھی جاتا ہے مارہ بھی جاتا ہے اس سے کام کروا کر اپنا فائدہ بھی حاصل کیا جاتا ہے ،ان کی مجبوریوں سے فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے مگر یہ عوام ہے کہ منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکال سکتی۔برسا برس سے اس ملک کی عوام کے ساتھ بھیڑ بکریوں والا سلوک ہو رہا ہے مگر کوئی بولتا نہیں۔بالکل اسی طرح ،جس طرح ڑیوڑ میں چند آدمی ہوتے ہیں ان کے اگے، دو ،دو، چار، چار، جانور ہوتے ہیں مگر جب ان سے بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پورے ڑیوڑ کے مالک ہیں اسی طرح اس ملک میں بھی ہمارے سیاست دان چند سو یا چند ہزادر ووٹ وہ بھی زبر دستی کاسٹ کروا کر یہ کہتے ہوئے ان کو شرم نہیں آتی کہ ہم،پورے کشمیر کے ،یا اٹھارہ کروڑ عوام کے نمائندے ہیں۔ اس میں قصور اس جانور نما انسان کا ہے جو حق بات کرتے ہوئے،سچ بولتے ہوئے ڈرتا ہے۔عوام کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر یہ لوگ جو خود کو عوام کا لیڈر کہتے ہیں ۔

ایک صاحب بازار میں عوام سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے حلقے میں گنتی کے چار لوگ ہیں جو الیکشن لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ ہم میں سے ہی کوئی نہ کوئی آئے گا بلکہ یہ طے کر رکھا ہوتا ہے کہ اس دفعہ تم اگلی دفعہ ہم،اب کوئی ووٹ دے یا نہ دے،کسی کا کام ہو یا نہ ہو،کسی کو نوکری ملے یا نہ ملے ہمیں کیا ہمارے علاوہ تو کسی اور نے آنا نہیں کہ ہمیں ڈر ہو ، اور یہ اصل بات ہے کہ یہ کسی ایسے شخص کو سامنے نہیں آنے دیتے جو عوام کی بات کرے جو ان کے مسائل کی بات کرے،جو ان کی مشکلات کی بات کرے۔ان کے بچے یہاں نہیں ہوتے ،ان کے گھر یہاں نہیں ہوتے ،ان کے مسائل یہاں کے نہیں ہوتے ،لہذا ان کو کیا ضروروت پڑی کہ وہ عوام کی مشکلات سنتے پھریں،یہاں پر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تمام سرکاری نوکریاں ،یہاں تک کہ محکمے بھی بانٹ رکھے ہیں کہ یہ تمہارے،یہ میرے، تمہارے بندے کس میں ہونے، میرے کس میں،کوئی میرٹ کوئی قابلیت نہیں دیکھی جاتی،بس اپنی اپنی چاپلوسی،اور خوش آمد دیکھی جاتی ہے،باقی عوام قابل،میرٹ پر اترنے والے اپنے ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے ،مزروں کی طرح ان کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں،اسی حالت میں ان کی عمر ڈھل جاتی ہے ،جب ان کو سمجھ آتی ہے کہ ہم نے ساری زندگی غلط لوگوں کا انتخاب کیا ،یہ ہمارے لوگو نہیں تھے بلکہ ان کی کوئی اپنی ہی دنیا ہے تو اس وقت ،ایک بار پھر وقت ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے،اور یہ سلسلہ پھر نسل در نسل چلتا جا رہا ہے ، ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والوں کی باتیں اور دلیل سننے، عوام کو کس طرح گمرہ کرتے ہیں اور پھر اپنی آنکھوں پر پٹی باند ھ کر، عوام کے مسائل سے بے خبر ہو کر ،نہ ہونے والے ایشو کو زیر بحث لا کر، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عوام کا ساتھ دیا اور بڑی ہمدردی کی بات کی ہے ،ان کی زبان دیکھیں،ان کے وعدے دیکھیں ،جھوٹ بولنا اور پھر اس پر ڈٹ جانا ،جھوٹا شخص کیسے اس ملک کی قوم کی نمایندگی کر سکتا ہے ۔ اسٹیج پر جا کر یہ کچھ بولتے ہیں اور اپنے اپنے بند کمروں میں یہ اپنے لوگوں کو کچھ اور بریف کرتے ہیں ،ان کے منصوبے ترقی کہ نہیں بلکہ عوام کو دھوکا دینے کے ہوتے ہیں،آئندہ کوئی نئی چال چلنے کے ہوتے ہیں،۔مگر سچ یہی ہے کہ یہ عوام ،اس ملک کا عام آدمی حقیقت میں ان لوگوں کے سامنے بھیڑ بکری سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔سیاست کا یہ انوکھا انداز دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں نہیں یہ بس برصغیر کے اندر کا اپنا انداز ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود ہم ترقی نہیں کر سکے،اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔۔

 

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75054 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.