ہنسی آتی ہے

پاکستان میں ذہانت کا معیار پوری دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہاں ہر وہ شخص ذہین ہے جس کا باپ با اثر ہے۔ باپ کا اثر جتنا زیادہ ہے، ذہانت اولاد سے اتنی زیادہ ٹپکتی ہے۔ غریبوں کے بچے میرٹ کے باوجود ذہین قرار نہیں دیے جاتے اور اپنی حق تلفی پر کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ نوے کی دہائی کا واقعہ ہے میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا ایک سنٹر چیک کر رہا تھا۔ موقع پر پہنچے تو سارا عملہ سب کام بھول کر ایک بچے کے گرد جمع تھا۔ ہمیں دیکھ کر وہ لوگ دائیں، بائیں ہو گئے۔ بچہ شکل و صورت سے بہت سادہ سا لگ رہا تھا۔ پرچہ دیکھا تو ایک آدھ سوال کے سوا اس نے سارا حل کر لیا ہوا تھا۔ ہم اس لڑکے کو چیک کرنے کے لیے اس کے ارد گرد گھومنے لگے۔ ہماری پندرہ بیس منٹ کی موجودگی میں بچے نے پرچے پر کچھ نہیں لکھا۔ میرے ایک ساتھی نے تنگ آکر کہا ’’بیٹا لکھو، لکھ کیوں نہیں رہے؟‘‘۔ اس بچے نے جواب دینے کی بجائے اونچی آواز میں باقاعدہ رونا شروع کر دیا۔ عملے کے ایک آدمی نے آہستہ سے بتایا کہ جناب یہ فلاں شخصیت کا بیٹا ہے اور آپ اسے اس طرح تنگ کر رہے ہیں جو زیادتی ہے۔ ہم نے خود کو کسی امتحان میں ڈالنے کی بجائے آکر چئیرمین کو رپورٹ کر دی۔ چئیرمین نے رپورٹ پڑھی، مسکرا کر جواب دیا، وہ عملہ میں نے نہیں لگایا۔ اوپر سے بنی بنائی لسٹ آئی تھی۔ میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بہتر ہے آپ بھی محتاط رہیں۔ وہ لڑکا بہت اچھے نمبروں میں کامیاب ہوا اور آج زبردست کاروباری ہے۔ کاروبار میں اربوں روپے کما رہا ہے جو اس کی ذہانت کا ثبوت ہے۔ میں اس سے کبھی ملا تو نہیں لیکن کبھی اخبار میں اس کی کامیابیوں کے بارے خبر آئے تو مجھے ہنستی آتی ہے۔

یہ پرانا واقعہ مجھے آج یوں یاد آیا کہ حکومت بلوچستان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے انتہائی ذہین اور ہونہار فرزند کو میرٹ پر بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کا نیا وائس چئیرمین مقرر کیا ہے۔ جناب ارسلان افتخار کہتے ہیں کہ ان کی تقرری کی اطلاع ان کے والد صاحب کو اخبارات کے ذریعے ملی اور انہوں نے فون کرکے انہیں بہت سی ہدایات دیں۔ ماشاء اﷲ حکومت بلوچستان کو اس قدر ذہین آدمی کافی کوشش سے ملا ہوگا جو صوبے کے عوام کی یقینی خوش قسمتی ہے۔ جناب ارسلان افتخار نے کہا کہ مجھے ان سیاستدانوں پر بڑی ہنستی آتی ہے جو سنی سنائی باتوں پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ میں میرا کام معاملات کو چینلائز کرنا ہے۔ بلوچستان میں دیگر مواقع اور دیگر پراجیکٹس بھی ہیں۔ ہمارا کام ان کی نشاندہی کرنا اور ان کے بارے میں حکومت کو بتانا ہے۔ ہمارا کام بہت محدود ہے۔
ہنسنا اور خوب کھل کر ہنسنا ہر شخص کا جمہوری حق ہے۔ ارسلان صاحب آپ کو ہنسی آئی تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ لوگوں کو اگر آپ کی باتوں پر ہنسی آئے تو آپ کو بھی برا نہیں ماننا چاہیے۔ بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چئیرمین کے طور آپ کی تقرری اتنے بڑے عہدے پر آپ کا یکایک آنا سنی سنائی نہیں دیکھی دکھائی باتیں ہیں۔ آپ جب اس عہدے پر اپنا جائز حق جتاتے ہیں تو لوگوں کو بہت ہنسی آتی ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اس سارے عمل کے بارے میں آپ کے والد لاعلم تھے تو لوگوں کو مزید ہنسی آتی ہے اور یہ ہنسی ہنسنا آپ کی طرح لوگوں کو بھی جمہوری حق ہے۔ آپ کے والد چیف جسٹس ہوتے تو ہو سکتا ہے لوگوں کی اس گستاخانہ ہنسی پر سوموٹو ایکشن لیتے اور لوگوں کی ہنسی چھین لیتے۔ لیکن اب ان کی بے بسی پر لوگوں کو ہنسی آتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح آپ کے قریبی عزیز رانا ثناء اﷲ کی باتیں سن کر قوم کی ہنسی آتی ہے۔ ویسے آپ مزید ہنسنا چاہتے ہیں تو رانا صاحب کی خدمات حاصل کر لیں۔ وہ ہنسانے کے معاملے میں پروفیشنل ہیں، مگر آج کل فارغ ہیں۔ آپ بھی ہنس لیں گے اور وہ فارغ وقت اچھا گزار لیں گے۔
آپ کو بورڈ آف انوسٹمنٹ کے معاملات کو چینلائز کرنا ہے۔ اس معاملے میں قوم آپ کی ذہانت کی ہمیشہ سے قائل ہے۔ جس طرح آپ نے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے معاملات کو چینلائز کیا تھا اس سے آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آچکی ہیں۔ ویسے نیب والے ظالم لوگ ہیں، خوامخواہ آپ کے پیچھے پڑ گئے۔ حالانکہ آپ کے والد کا آپ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آپ کے والد صاحب تو اس وقت بھی آپ کی مدد سے انکاری تھے۔ بھلا ہو ان کے ایک رفیق کا جنہوں نے آپ کو تحفظ دیا اور خالص قانونی طریقے سے آپ کو بچا لیا۔ لوگ آپ کے بچنے پر آج بھی ہنستے ہیں، بلکہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔

توہین عدالت کے قانون کی آڑ میں آپ کے والد نے جس طرح پوری قوم کو یرغمال بنائے رکھا۔ لوگ اس پر بھی ہنستے ہیں۔ توہین عدالت کا قانون بھی عجیب ہے۔ اسلامی معاشرے میں کبھی کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا جس کا احتساب نہ ہو۔ قرآن اس کی اجازت نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ میں سترہ جج ہیں، ہر جج بہت باوقار ہے، اس کی عزت اور مرتبہ عوام میں قابل رشک ہے، سوائے ایک جج کے جس پر بہت سے الزامات ہیں۔ جناب چیف جسٹس ہونا تو یہ چاہیے کہ توہین عدالت کی تعریف اس طرح کی جائے کہ توہین اشخاس سے عدالت کے وقار کو آنچ نہ آئے۔ کوئی شخص چاہیے وہ جج ہی کیوں نہ ہو اگر کوئی اس کے بارے میں سچ کا اظہار کرے تو ججوں کا اپنا ایک احتسابی نظام فوراً کاروائی کرے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچے۔ ویسے توہین عدالت کا قانون ختم ہو جائے تو ایک آدھ جج ضرور ایسا ہے جس کے بارے میں باتیں کرتے لوگون کو بہت ہنسی آتی ہے۔

چند دن پہلے ایک کیس کے سلسلے میں مجھے سول کورٹس جانا پڑا۔ یہ دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ وہاں پر چوتھا وکیل ایک خاتون تھی۔ بچیوں کو متحرک اور فعال دیکھنا میرا خواب ہے اور اپنے خواب کی تعبیر میرے لیے یقینا تقویت کا باعث تھی۔ انعام اﷲ ایڈووکیٹ میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے۔ اس کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوا۔ سول جج بھی ایک خاتون تھی۔ دھیما لہجہ، مسکراتا چہرہ، دوپٹہ لیے بڑے وضع دار انداز میں معاملات کو بڑی خوش اسلوبی سے سلجھا رہی تھی۔ وکلا اور عام لوگوں کو پوری طرح سن کر اور ذہن استعمال کر کے ہر فیصلہ دے رہی تھی۔ اسی دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک نوجوان وکیل اندر آیا۔ کچھ زمین کا مسئلہ تھا۔ نوجوان وکیل نے خواہش کی کہ سنے بغیر اس کی مرضی کے مطابق سٹے آرڈر دے دیا جائے۔ جج صاحبہ کا خیال تھا جو شاید ٹھیک تھا کہ سٹے آرڈرصرف اس حصے پر مل سکتا ہے جو آپ کے ساتھ متنازعہ ہے۔ پورے علاقے پر سٹے آرڈر نہیں ہو سکتا۔ نوجوان غصے میں آگیا کہ جج صاحبہ آپ کو نہ تو لوگوں کا پتہ ہے اور نہ قانون کا، میں فضول بحث نہیں کر سکتا۔ سٹے دے دو یا کیسکسی اور عدالت میں تبدیلی کے لیے بھیج دو۔ جج نے کہا آپ درخواست دے دیں۔ میں کیوں دوں، خود لکھو۔ جج خاتون نے بڑے تحمل سے اس کی گستاخانہ گفتگو سنی اور فائل پر کچھ لکھ دیا۔ وہ وکیل ججوں کے بارے میں فضول باتیں کرتا وہاں سے چلا گیا۔

عدالت سے باہر نکلے تو بہت سے لوگ اس نوجوان وکیل کے رویے پر افسوس کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جسٹس افتخار بحالی تحریک نے جہاں وکلاء کو بہت سی مثبت چیزیں دی ہیں، وہاں ایسے نایاب وکیل بھی دیے ہیں جو اس پیشے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کو پتہ ہی نہیں کہ عزت ہر منصب کا پہلا حق ہے۔ عدالتیں تو چلتی ہی اعتماد اور احترام سے ہیں۔ چیف تیرے جان نثار، بے شمار بے شمار کا نعرہ لگانے والے گو اب بہت کم رہ گئے ہیں، مگر جو ہیں انہیں بھی نظم میں لانے کے لیے بار کے لوگوں کو بہت محنت کرنی پڑے گی۔ جسٹس افتخار کی باقیات کو کم ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500799 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More